یہی تو سرپرائز ہے ۔۔۔سید عارف مصطفٰی

تین چارسو افراد کی تو نہیں البتہ اور بالآخر بالاکوٹ میں بھارتی حملے کی جگہ پہ ایک لاش برآمد ہوگئی ہے جو کہ ایک کؤے کی ہے جسکی میت کی نشاندہی حامد میر صاحب نے کی ہے – اس کی دہشتگردانہ کارروائیوں کا ریکارڈ یقیناً  بھارت کے پاس ہوگا اور اگراس سے اس بابت پوچھا جائے تو شاید وہ اسے جیش محمد کا فضائی کمانڈر ٹھہرادے ۔۔۔ صورتحال یہ ہے کہ بھارتی طیاروں کی کل کی مسخری بمباری کے نتیجے میں پاکستان کی جانب سے بالاکوٹ میں آج صبح پاکستانی ایئر فورس نے دو بھارتی طیارے چڑیا کی طرح مار گرائے ہیں جن میں سے ایک آزاد کشمیر کی سرحد کے قریب اور دوسرا مقبوضہ علاقے میں گرا ہے جبکہ دو بھارتی پائلٹوں کو زندہ گرفتار بھی کرلیا گیا ہے جن میں سے ایک کو سی ایم ایچ پنڈی میں داخل کردیا گیا ہے مناسب ہے کہ اسکا جسمانی ہی نہیں دماغی علاج بھی کردیا جائے اور دوسرے ہواباز کو جس کا نام ‘ ونگ کمانڈر ابھی نندن’ ہے( سروس کارڈ نمبر 27981) ، میڈیا کے سامنے پیش کردیا گیا ہے جو میڈیا کے مقابل اتنا ہی بدحواس دکھائی دے رہا تھا جتنا کہ مودی جی چند ہفتے قبل صوبائی الیکشنوں کے نتائج دیکھ کے ہوئے تھے اور اب اس فضائی سورما کو بچانے کے لیئے انڈیا نے اسے اپنا مان بھی لیا ہے – دوسری طرف بھارتی میڈیا نے شور مچایا ہوا ہے کہ بھارت نے آج پاکستان کا ایک ایف 16 طیارہ پاکستانی آزاد کشمیر کے علاقے میں تباہ کردیا ہے لیکن وہ اس کے شواہد بالکل نہیں دے رہے جبکہ پاکستانی سائیڈ سے اپنے کسی بھی طیارے کے تباہ یا لاپتہ ہونے کی تردید کی گئی ہے اور صاف کہا گیا ہے کہ اس تمام آپریشن میں ایک بار بھی کوئی ایف سولہ طیارہ استعمال ہی نہیں کیا گیا ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بھارت اب ٹیکنالوجی میں اس درجے پہ ہے کہ جہاں وہ تصؤر میں بھی جہاز گرانے کی اہلیت رکھتا ہے –

بہرحال جو بھی ہو ، اب پاکستان کو بھارت کے دو آنسو بہاتے پائلٹ ہاتھ لگ چکے ہیں جسکے نتیجے میں چین میں موجود بھارتی وزیرخارجہ شسما سوراج کو اچانک ہی جنگ آگے نہ بڑھانے اورامن کو موقع دینے کی فکر نے آن دبوچا ہے – جبکہ پاکستانی حکومت اس بابت پہلے سے ہی امن کی ضرورت اور مذاکرات کی پیشکش کرتی رہی ہے اور ابھی بدھ 27 فروری کی سہ پہر وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام اپنے خطاب میں بھارتی حکومت کو اپنے اس پیغام کی تجدید کی ہے- بلاشبہ یہ خطاب بہت معتدل اور دانشمندانہ تھا- دوسری طرف بھارت میں مودی کا پھیلایا جنگی جنون لفظوں کے  کرتب میں بدل گیا ہے کیونکہ بھارتی فوج نے اپنے ایک طیارے کے گرنے کی تصدیق بھی یوں مضحکہ خیز انداز میں کی ہے کہ ” وہ تکنیکی وجوہ پہ خود ہی گر کے تباہ ہوا ہے“ جس سے ثابت ہوا ہے کہ مودی جی کے طیارے بھی انکے ہم عمر ہی ہیں اور انہی کی مانند نکمے بھی ۔۔۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت اپنےکئے تمام دعوؤں  کی تصدیق کے لیئے میڈیا کو سائٹ پہ لیجانے اور ثبوت دکھانے کی پیشکش کررہی ہے جبکہ بھارتی حکومت نہ تو میڈیا کو لے جانے کی بات کررہی ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت دکھا رہی ہے –

لیکن ان سب حقائق کو جھٹلا کر ، بھارتی ٹی وی اسکرینوں پہ مبالغے کی پیچش مسلسل رواں ہے اور اینکروں کو رہ رہ کے مضحکہ خیز اطلاعات کے مروڑ اٹھ رہے ہیں- بھاری میڈیا کی پروپیگنڈہ وار پاگل پن کے اس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یا تو وہ اب سچ بولنا خود پہ حرام کرچکے ہیں یا مودی جی نے اس پہ بہت بھاری ٹیکس عائد کردیا ہے اور اسی لیئے وہ پاکستان میں گرائے گئے بھارتی طیارے کی فوٹیج کو پاکستانی طیارے کی تباہی و ملبے کے مناظر کے طور پہ دکھانے کی ڈھٹائی پہ اترے ہوئے ہیں – کل تو وہ سارا دن پاکستان ایئرفورس کی رات میں ہوائی تربیت کی ویڈیو کو پاکستان پہ حملے کی ویڈیو بتاکے چلاتے رہے اور یہ حقیقت بھول گئے کہ یہ ویڈیو تو پاک فوج کی جانب سے 23 ستمبر 2016 کو یوٹیوب پہ اپ لوڈ کی گئی تھی اور خود بھارت کے عوام اس کا تقابل و تجزیہ کرسکتے ہیں – اسی طرح وہاں پاکستانی میڈیا کا جھوٹ بے نقاب کرنے کے نام پہ ایک ایسی پرانی ویڈیو بار بار دکھائی جارہی ہے کہ جسکے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ویڈیو پرانی ہے لیکن پاکستانی میڈیا اسے مکاری سے تازہ بتاکے چلا رہا ہے جبکہ درحقیقت یہ ویڈیو تو پاکستان کے کسی چینل سے چلی ہی نہیں ۔۔

اس صورتحال میں یہاں پہ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ چھوٹے موٹے حملوں سے قطع نظر ، بھارت اور پاکستانی افواج میں گھمسان کا رن تو کہیں نہیں پڑا لیکن اس وقت اصل جنگ بھارتی میڈیا کے اسکرینوں پہ لڑی جارہی ہے کہ جہاں اصل نشانہ سچائی ہے اور اس قدر بلند و بانگ جھوٹوں کے پہاڑ کھڑے کیئے جارہے ہیں کہ اس وقت ہمالیہ بھی ایک ٹیلہ سا بنا دکھائی دیتا ہے ۔۔۔ نہایت عجیب بات یہ ہے کہ بھارتی اینکرآستینیں چڑھاکے اور سانسیں پھلا کے لڑاکا عورتوں کی طرح جلی کٹی سنانے کی دوڑ میں شریک ہیں اوربڑھ چڑھ کر جھوٹ بولنے اور یوں مودی سرکار کے تلوے چاٹنے میں انکا مقابلہ ایک دوسرے کے ساتھ ہی ہے ۔۔۔ انکے چہروں پہ چھائے تشنج اور بھنچے ہوئے جبڑوں کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ جیسے انکے بنیانوں اور زیرجاموں میں کسی نے بچھو بھر دیئے ہیں ۔۔۔ انکےآتش فشاں منہ آگ اگل رہے ہیں اور غصیلی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے اور اپنے اندھا دھند انداز سے انہوں نے سچ کے جھونپڑے پہ زہر کی طوفانی برکھا برسادی ہے اور وہ تمیز اور برداشت کے چیتھڑے اڑاتے جا رہے ہیں ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کیسا جرنلزم اور کیسا پروفیشنلزم ہے کہ جہاں دبّو میڈیا کی یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ اپنے سورماؤں کے ان دعووں کے ثبوت مانگنے اور اسکرینوں پہ دکھانے کی ادنیٰ سی ہمت بھی کرسکے اور بزعم خود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار اپنے میڈیا پہ مسلسل جبرکی لاٹھی گھما رہے ہیں اور اسکے خوف سے بھارتی میڈیا وہی کچھ دکھانے اور بتانے پہ مجبور ہے کہ جسکی انہیں ہدایت کی گئی ہے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن حیرت انگیز طور پہ ، لولی لنگڑی جمہوریت کا طعنہ جھیلتا پاکستان ، اسکے برعکس انداز کو اپنائے ہوئے دکھائی دے رہا ہے اور یہاں تو معاملہ بھارت کے قطعی برعکس ہے کیونکہ یہاں سرکاری سطح پہ جس جس بات کا دعویٰ کیا جارہا ہے اسکی سچائی کی پڑتال کی خاطر کھلے بندوں میڈیا کو ثبوت ملاحظہ کرنے کے لیئے حکومت اور فوج کی جانب سے بیحد کشادہ دلی سے دعوت نظارہ دی جارہی ہے- یہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی  آر  نہیں کہ جس طرح بھارتی طیاروں نے پاکستان میں گھس کے بم گرائے تھے پاکستانی طیاروں کو بھی بھارتی علاقے میں گھس کے کارروائی کرنی چاہیئے تھی لیکن پھر بھی یہ بھی کیا کم ہے کہ ہمارے شاہینوں نے بیٹھے بٹھائے ہی یہاں درآنے والے دو طیارے مار گرائے جو یقیناً ایک سرپرائز ہے ۔۔۔ خود سوچیئے کہ اگر ہمارے یہ شاہین بھارت میں جاتے تو کیا کچھ نہ کردکھاتے ۔۔۔!! لیکن دوسرا سرپرائز ابھی عمران خان نے دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ سارے بھارتی جھوٹ بینقاب ہوجانے کے بعد بجائے اسکے کہ وہ فطری طور پہ اسے لے کے بہت شور مچاتے اور مودی جی کو ذلیل و رسوا کرتے انہوں نے کمال تدبر سے ان سب باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک بار پھر امن کو موقع دینے کی بات کردی ہے اور حالات کی اس قدر ابتری کے باوجود انکی جانب سے ایسے وقت امن کی اہمیت پہ اصرار نہ صرف انکی خود اعتمادی و کشادہ دلی کا مظہر ہے بلکہ ان لوگوں کے لیئے ایک بڑا سرپرائز بھی ہے جو کہ پاکستانی وزیراعظم سے جوابی جنگی جنون کی توقع لیئے بیٹھے تھے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply