میرا یوم ِآزادی /روبینہ فیصل

بچپن کی عیدوں کی یہ یاد بڑی گہری ہے کہ ہماری امّی ہمیں نئے کپڑے اور جوتے پہنا کر ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پرس تھما کر عید منانے بھیج دیا کرتی تھیں اور خود سارا دن گھر کے کپڑوں میں کچن میں مصروف رہتی تھیں ۔

 

 

 

جب میں بڑی ہوئی  تو سوچا کہ امی تو ماں تھیں ماؤں کا دل اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر ہی خوش ہوجاتا ہے انہیں اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا مگر ہم بچے کیا کرتے تھے ؟ ہم ان کے بارے میں سوچتے ہی نہیں تھے ۔۔۔

کل جب خان صاحب کا جیل سے اپنے کارکنوں اور متوالوں کے لیے جشن آزادی کے حوالے سے پیغام سنا تو مجھے اس میں اپنی بچپن کی عید والی امی کی مشابہت محسوس ہوئی ،جن کا موٹیو یہ ہوتا تھا کہ  گھر کے حالات جو بھی ہوں بچے گھٹن سے باہر نکل کر خوشی منائیں  ۔ خان صاحب تو کسی مشفق کسی قربانی دینے والی مہربان ماں کی طرح اپنے بچوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں، مگر کیا ہم بچوں کے دل اس بات پر راضی ہوسکتے ہیں ؟

جب میں یہ کہتی ہوں کہ یوم آزادی منانے کو دل نہیں کرتا تو اس کا فقط یہ مطلب ہے کہ ایک تو پاکستانی عوام کی اکثریت کا محبوب لیڈر پابند سلاسل ہے ، عوام کو اظہار کی آزادی نہیں ، گھروں سے لوگ اٹھائے جا رہے ہیں ، چار دیواری پھاند کر عورتوں کی چادر کی بے حرمتی کی جارہی ہے ۔

کہنے کو ارشد شریف اسی آزاد ملک کا ایک آزاد شہری تھا مگر وہ سچ کا ساتھ دینے کے جرم میں اپنی جان بچانے کی خاطر پوری دنیا میں بھاگتا پھرا اور پھر بھی مار دیا گیا ۔

عمران ریاض خان انٹرنیشل لیول پر مشہور جرنلسٹ جو اپنے ملک کی بقا کی خاطر ، سچ بولنے کے جرم میں اپنے ہی ملک میں اغواء شدہ ہوچکا ہے ۔۔

ظلِ شاہ جیسے درویش ،بے ضرر انسان کو اپنے ہی ملک میں  مار دیا جاتا ہے صرف اس جرم میں کہ اس کو ایک لیڈر سے عشق ہے ؟
پاکستان کی جیلوں میں اس وقت ہماری ماں بہنیں بیٹیاں بند ہیں کس جرم میں ؟
جھوٹے غداری کے مقدمے میں ؟یہ خواتین اپنی آنے والی نسلوں کے اچھے مستقبل کی خاطر اپنی جان اور عزت کی پرواہ نہ کرنے والیاں ملک کی غدار ہوسکتی ہیں ؟ نہیں ۔۔۔
مگر۔۔

پی ٹی آئی کے کارکن پاکستان سے اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کو انڈین مسلم بنے ہوئے ہیں ۔
رجیم چینج سے اب تک دنیا کا کون سا ظلم ہے جو تحریک انصاف کے چاہنے والوں پر نہیں توڑا گیا ۔ کئی لوگ جان سے چلے گئے کئی جیلوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں ۔۔ جتنا ظلم ہماری آنکھوں کے سامنے آرہا ہے اس سے کئی گُنا زیادہ اصل میں ہورہا ہے ۔

عمران خان جو پاکستان کیا بلکہ دنیا کا ایک مضبوط اور جی دار سیاسی لیڈر بن کر اُبھرا ہے
اُس نے اپنی قوم کی خاطر سب کچھ کر کے دکھا دیا ،
اس نے کسی ماں کی طرح کسی باپ کی طرح اپنا فرض نبھا دیا ہے ، اپنے بچوں کی خوشیوں کی خاطر سلاخوں کے پیچھے سے آزادی منانے کا پیغام بھی دے دیا ہے مگر میں یہ سوچتی ہوں یہ تو اس کے کرنے کا کام تھا وہ ایک مشفق لیڈر کی طرح سب کر گزرا، ہمارا اب فرض کیا ہے ؟
ایسا کلیجہ کہاں سے لائیں کہ ہمارا محبوب قید ہے اور ہم آزادی  منائیں ؟

ہماری آزادی کی خاطر وہ سب انسان جو کل قربان ہوئے تھے جو آج قربان ہورہے ہیں ہم ان سب قربانیوں کے صدقے کم از کم خود سے یہ سوال تو پوچھ سکتے ہیں ، ان ظالموں فاشسٹوں سے تو پوچھ سکتے ہیں کہ “ کیا ہم سچ میں آزاد ہیں ؟ کیا پاکستان بنانے کے لئے ہمارے بزرگوں کی قربانیا ں اس دن کے لئے تھیں کہ پچھتر سال تک ہم گورے ہاتھوں سے نکل کر براؤن ہاتھوں سے اپنا جسم نچواتے رہیں ؟

ہم اتنا بڑا کلیجہ اب کہاں سے لائیں کہ کسی اقلیت کی طرح “عکسریت “کے سامنے خود کو وفادار ثابت کرنے کو جھوٹی جشن آزادی منائیں ۔

میں چونکہ ایک لکھاری ہوں جس نے تاریخ کے صفحوں میں اپنی زندگی گزاری ہے ، اور یہ میری ذاتی سوچ ہے کہ اب میں نے عید کے روز کچن میں کام کرتی ہوئی امی کا احساس کئے بغیر ، انہیں وہاں تنہا چھوڑ کر اپنی عید نہیں منانی ۔

ماں لاکھ کہتی رہے جاؤ جشن بھر پور مناؤ ۔
میری جد و جہد پاکستان کی حقیقی آزادی تک جاری رہے گی ۔
یہ میری ذات کا فیصلہ ہے کیونکہ میں ایک رائٹر ہوں کسی بھی پارٹی کی کارکن نہیں ۔
بے شک خان ہم سب کا ایک ماں جیسا لیڈر ہے مگر ہم بچوں کا بھی کوئی فرض ہے ۔
وہ اپنا فرض نبھاتا ہے ہمیں اپنا نبھانا ہے ۔

عید سے پہلے کوئی مر جائے کوئی آفت ٹوٹ پڑے تو عید نہ منانے سے ہم غیر مسلم نہیں ہوجاتے، اسی طرح یوم آزادی سے پہلے اپنے پابند سلاسل ہونےکا احساس ہو جائے تو جشن کیسا ؟

مجھ سے آزادی کی خاطر جانیں دینے والوں کی بے حرمتی نہیں ہو سکتی، میری طرف سے ایسے جشنوں پرمکمل خاموشی ۔۔۔ تب تک جب  تک ہم سچ میں اس قابل نہیں ہو جاتے ۔۔۔
میری جد وجہد جاری رہے گی ۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ہمارا ملک ہے ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح کا سیاسی اور اور قانونی لڑائی سے جیتا ہوا ایک خواب، جس کی اصل تعبیر تک جد و جہد جاری رہے گی !
پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست ۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply