ڈاکٹر انور سعید صاحب کا تعلق چٹاگانگ سے ہے،حالیہ کراچی میں مقیم ہیں، جہاں ماہر اطفال کے طور پر کام کررہے ہیں ۔ عمر کی 73 بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ زیرِ نظر تحریر اُن کے سفر نامے”Escape to Pakistan”کا اردو ترجمہ ہے،اس کے بارے خود ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ “اسے فرار کہہ لیجیے یا کہہ لیجیے کہ زندہ بھاگ۔یہ میری یعنی ڈاکٹر انور سعید کی دلگیر کہانی ہے۔ میرا کٹھن سفر نامہ جو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش سے پاکستان پہنچنے تک کی روداد ہے۔” شاہین کمال صاحبہ نے اس سفرنامے کا خوب ترجمہ کیا ہے۔
پہلی قسط
وہ سولہ دسمبر کی ڈوبتی اداس شام اور وہ اندوہناک سبق جو ہم نے بحیثیتِ قوم کبھی نہ یاد رکھا۔
پندرہ دسمبر ١٩٧١ کی کہر برساتی شام میں ریڈیو پاکستان سے صدر یحییٰ کی بلغمی آواز سماعت پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔
” جب تک کہ دشمنوں کو اپنی سرحدوں سے باہر نہیں دھکیل دیں گے، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔”
ہم سب چٹاگانگ، محلہ پتھر گھاٹاPather ghataمیں اپنے گھر کے صحن میں ٹرانسسٹر کے گرد حلقہ بنائے صدر کی بڑ سن رہے تھے۔
سارا دن شہر میں ہلچل مچی رہی تھی، ایک پُر اسرار سی سرگرمی سارے شہر پر محیط تھی۔ پورے چٹاگانگ میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ایک ہی افواہ گردش کر رہی تھی کہ پاک فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ شام ہوتے ہوتے شہر پر ایک دم گھونٹ دینے والا سکوت طاری تھا اور ایک دہشت اور بے یقینی کی فضا مسلط تھی۔ صدر یحییٰ خان کی بڑ بولی تقریر کے دوران وقفے وقفے سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور کانوں کے پردے پھاڑتے بم دھماکے مستقل جاری تھے۔ اس پر صدر کی گردان کہ
” ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے”،
چہ خوب۔
اماں سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں کی آوازیں مزید برداشت نہ ہو سکیں تو مارے تشویش کے انہوں نے پڑوسن کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ ان سے پتہ چلا کہ انڈین آرمی نے کنٹونمنٹ کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور وہاں دبا کر فائرنگ اور گولا باری ہو رہی ہے۔
اسی بد نصیب دن، نیویارک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک خوفناک جذباتی تقریر کی۔
” میں آج یہاں کسی شرمناک ہتھیار پھینکنے کی تقریب میں شرکت کرنے نہیں آیا ہوں۔ اگر سلامتی کونسل ہتھیار پھینکنے کے عمل کو قانونی تحفظ دینا چاہتی ہے تو میں واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں کسی صورت بھی ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔کیا ہوا اگر ڈھاکہ ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا؟
ہم نے اگر سارا مشرقی پاکستان بھی ہار دیا تو کیا ہوا؟
ہم اگر مغربی پاکستان بھی ہار جاتے ہیں تو کوئی بات نہیں، ہم راکھ سے ایک نیا پاکستان بنا لیں گے، ہم ایک نیا اور بہتر پاکستان تشکیل دے لیں گے۔ میں مغربی پاکستان کا حقیقی، معتبر اور چنیدہ لیڈر ہوں، چاروں صوبوں کا مستند و منتخب راہنما ، شیخ مجیب کی طرح محض ایک صوبے کا نمائندہ نہیں۔
میں یہاں اپنا وقت کیوں ضائع کر رہا ہوں؟
ہم جنگ کریں گے، ہم واپس جاکر لڑیں گے۔ میری قوم میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میں کسی صورت بھی ہم پر ٹھونسے گئے ہتھیار پھینکنے کے عمل کا حصہ نہیں بنوں گا، جس کے نتیجے میں ہم آدھا ملک کھو دیں۔ اپنی سلامتی کونسل کو اپنے پاس رکھو، یہ لیجیے میں جا رہا ہوں۔”
اس کے ساتھ ہی بھٹو اپنی تقریر کے نوٹس پھاڑتے ہوئے وفد کے ساتھ اجلاس سے واک آؤٹ کر کے ہال سے باہر آ گئے۔۔
اور پاکستان پر بد قسمتی کی مہر نصب کر دی۔
ایک دن پہلے ہینری کسنجر نے بھٹو کو تنبیہ بھی کی تھی کہ پاکستان کو اس وقت جذباتیت نہیں بلکہ ٹھوس زمینی حقائق کا ادراک ہی بچا سکتا ہے مگر ساری حقیقت جانتے ہوئے بھی بھٹو نے سوچی سمجھی سازش کے تحت سلامتی کونسل میں بھارتی وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ کے سامنے یہ ناٹک رچایا۔
میرے پیارے شہر چٹاگانگ کی حالت تشویشناک تھی۔ شہر کے مرکز میں مکتی باہنی کا راج تھا اور جابجا انڈین فورسز بھی نظر آ رہی تھیں ۔ پاکستان کا میڈیا تو خاموش تھا مگر بیرونی میڈیا چیخ چیخ کر پاکستان کی شکستگی کا اعلان کر رہے تھے۔
پندرہ دسمبر کی وہ سیاہ اور ہیبت ناک رات تو آنکھوں آنکھوں میں کٹی، انجانے خوف نے کسی کو بھی لمحہ بھر کے لیے سونے نہ دیا۔ بھور سمے جب میں رفع حاجت کے لیے باہر نکلا تو پورا شہر گویا ملگجا سبز رنگا تھا۔ میری پتلی گنجان گلی بھارتی فوجیوں سے چھلک رہی تھی۔
دن چڑھے جب میں سہما سہما اپنے محلے میں سن گُن لینے نکلا تو لگا جیسے یہ کوئی ہندوستانی شہر ہو۔ ہر طرف بھارتی فوجیوں کی ہری وردی تھی جس میں سکھ فوجیوں کی پگڑیاں نمایاں تھیں۔ بنگالی خوشی سے دیوانے ہو ہوکر اپنے نجات دہندہ سے بغل گیر ہو رہے تھے، ہاتھ ملا رہے اور ان فاتح فوجیوں کے گلے میں تازہ گیندے سے گندھے ہار ڈال رہے تھے۔
سولہ دسمبر کی اس دل گیر شام، پاکستان صرف جنگ ہی نہیں ہارا تھا بلکہ اپنے وقار کے ساتھ ساتھ اپنا آدھا جغرافیائی زرخیز حصہ بھی گنوا بیٹھا تھا۔ اس شکست کے ساتھ ہی اپنے بانوے ہزار فوجی اور سویلین، جنگی قیدیوں کی صورت، ہندوستان کے حوالے بھی کیے۔
ہائے ہزیمت سی ہزیمت۔
ایک اندوہناک سانحہ جس سے قوم نے آج تک عبرت حاصل نہیں کی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں