دُمانی کے دامن میں(قسط3)/محمد عظیم شاہ بخاری

گزشتہ قسط کا لنک

 

 

 

تیسری قسط

دیران کی دشواری ؛
رات کا ایک بجا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ میں سمجھا یہ ابھی رک جائے گی لیکن مسلسل بارش نے مجھے الرٹ کر دیا۔ سلمان اور وجیہہ شاید نیند کی وادیوں میں تھے لیکن میں جاگ رہا تھا۔ کچھ دیر میں میری بھی آنکھ لگ گئی۔

رات کے کسی پہر پاؤں میں گیلا پن محسوس ہوا تو اٹھ بیٹھا، کیا دیکھتا ہوں کہ تین گھنٹوں کی مسلسل بارش سے کچھ پانی اندر آ گیا ہے جس نے میرے سلیپنگ بیگ تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ قریب رکھا ہوا سامان بھی بھیگنے لگا تو اسے دوسری طرف رکھ کے  آنکھیں بند کر لیں۔

بارش مجھے بہت پسند ہے، کسے پسند نہیں ہوتی۔ ؟ سوائے ان کے جن کے گھر کچے ہوتے ہیں یا پھر فصلوں پہ جس باپ کی بیٹی بیاہی جانی ہوتی ہے۔

آج کی بارش مجھے شاید اچھی نہیں لگ رہی تھی کہ اس کی وجہ سے ٹریک اور دشوار ہو جانا تھا۔ اتنے میں باہر کچھ آواز ہوئی، کبرو کو نعیم کیمپ کے اندرونی و بیرونی حصے کے بیچ لِٹا کے  جا چکا تھا۔ کبرو بھی ادھر ادھر کروٹ لے رہا تھا۔ اتنے میں صبح کی سپیدی نمودار ہوئی اور میں نے موبائل پہ تلاوت کرنی شروع کر دی۔ اللہ سے دعا کی کہ اس بارش کو روک دے لیکن شاید اس میں کوئی مصلحت تھی۔
سلمان اٹھا تو اسے کہہ کہ میں نے کبرو کو اندر لٹا لیا۔ بیچارہ بھیگا ہوا کتا اندر آتے ہی سلیپنگ بیگ پہ سو گیا۔ ہم آج کی پلاننگ کرتے رہے کہ نعیم آ گیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اس وقت ناشتے میں جو بن سکتا ہے وہ کھا پی کہ فوراً نکلا جائے کیونکہ بارش کے رکنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔

کچھ دیر بعد ابلے انڈے، کل کے بچے چاول اور گرما گرم چائے خیمے میں بچھے دسترخوان پہ رکھ دی گئی۔ چائے کو دیکھ  کر میری باچھیں کھل گئیں جس نے اس سردی میں بہت حد تک توانائی فراہم کر دی تھی۔

دیران اپنا حسن نیلام نہیں کرتی ؛
ناشتہ کر کے  ہم نے اپنا سامان پیک کیا، کپڑے بدلے اور خیمے سے باہر آ نکلے۔ دیران کی چوٹی بادلوں کے گھونگھٹ میں دلہن کی طرح چھپی بیٹھی تھی۔

جناب مستنصر حسین تارڑ دیران کے بارے لکھتے ہیں کہ ؛

”پہاڑوں کے شیدائیوں کا کہنا ہے کہ راکاپوشی کے حسن کے چرچے صرف اس لیئے ہوتے ہیں کہ وہ شاہراہِ قراقرم سے، نگر سے، ہنزہ سے۔ ۔ ہر وادی اور مقام سے نظر آتی ہے۔ عیاں ہوتی ہے، اپنا روپ برہنہ کرتی ہے جب کہ دیران پیک اس کی نسبت چٹانی بناوٹ، برفانی سجاوٹ اور جمال کے ساتھ جلال میں بھی اُس سے کہیں برتر اور افضل ہے۔ صرف یہ کہ اس نے اپنے حسن کو ہر مقام اور وادی میں ظاہر کر کے  نیلام نہیں کیا۔ وہ پردہ پوش رہتی ہے، صرف اسے اپنا حسن دکھاتی ہے جو اس کی چاہت میں طویل مسافتیں طے کر کے، صعوبتیں سہہ کر یہاں تک چلا آئے”۔
اور میں انہیں عاشقوں میں سے ایک تھا۔

 

یہ بات تو نعیم بھی کہہ چکا تھا کہ مناپن آنے والے پانچ سو لوگوں میں سے سو راکاپوشی تک آتے ہیں اور ان میں سے   کوئی دو دیران پیک تک، اور آپ انہی دو خوش نصیبوں میں سے ہیں۔

تب تک بارش کچھ ہلکی ہو چکی تھی اور پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث پانی کسی جگہ جمع بھی نہ ہوا تھا۔ بارش کی وجہ سے کچیلی جھیل کو کینسل  کرنا پڑا سو اب راکاپوشی بیس کیمپ سے ہو کے  ہپاکن جا کے  رات بسر کرنی تھی۔ نعیم اور مہدی سامان باندھنے میں جُت گئے اور ہم نے اپنا واپسی کا ٹریک شروع کیا لیکن اس بار دوسرے راستے سے جو نعیم کے مطابق آسان اور چھوٹا تھا۔
جب آپ کسی ایسے علاقے، جہاں نصیب والے ہی پہنچ سکتے ہیں، کو الوداع کہتے ہیں تو دل رنج و الم سے بھر جاتا ہے۔ میں نے بھی ایک آخری الوداعی نظر دیران پہ ڈالی، الوداع کہا اور اپنا رخ موڑ لیا۔

ایک اور طوفان کا سامنا تھا مُجھ کو ؛

آسمان پہ چاروں طرف بادل تھے
زمین پہ چاروں طرف پہاڑ اور برف تھی
سرسبز پہاڑ کی پگڈنڈیوں پہ کچھ چیونٹے رینگ رہے تھے
جن کی منزل راکاپوشی کا دامن تھا
لیکن ایک وسیع برف زار ابھی ان کا منتظر تھا۔۔۔۔

چلتے چلتے دونوں پورٹرز ہم سے آ ملے۔ یہ ٹریک قدرے آسان تھا جو سرسبز پہاڑوں کے کنارے چھوٹی سی پگڈنڈی پر مشتمل تھا جس کے کنارے کِھلے ہوئے رنگ برنگے پھول میری توجہ بار بار اپنی جانب کھینچ لیتے تھے۔

اس علاقے میں پھولوں کی جتنی ورائٹی تھی وہ میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھی۔ قسم قسم اور رنگ ہا رنگ پھول جو بار بار میرا دل لبھاتے اور بیچ ٹریکنگ رک کے عکاسی کرنے پہ مجبور کرتے۔
بارش تیز ہوتی جا رہی تھی ساتھ میری دعائیں بھی لیکن اس بار قسمت میں امتحان لکھا جا چکا تھا۔ بھاری بھرکم ٹریکنگ شوز گیلے ہو کے  اور بھاری ہو گئے سو ،رفتار کچھ کم ہو گئی۔ اس ٹریک میں بھی کئی آبشاریں ملیں جنہیں چھلانگیں لگا کے  پار کیا۔ نعیم نے بتایا کہ اس پہاڑ کے  دوسری طرف دو گھنٹے کی مسافت پہ کچیلی جھیل ہے جہاں آج ہم نے جانا تھا۔

وہ برف زار جسے ہم آتے ہوئے پار کر کے  آئے تھے ہمارے کہیں نیچے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، اور دیکھ کے  حیرت ہو رہی تھی کہ یار یہ ہم نے طے کیا ہے۔۔ ؟

شارٹ کٹ کی لالچ میں جو راستہ ہم نے چنا تھا وہ آگے جا کے  بارش کی وجہ سے کئی جگہوں پہ ختم ہو چکا تھا سو اب کبھی ہم اوپر تو کبھی نیچے ڈھلوانوں پہ اُگی گھاس اور جھاڑیوں کا سہارا لے کے  چل رہے تھے۔ کرتے کرتے دو گھنٹے بیت گئے اور اب گلیشئر کا ٹریک آنے والا تھا۔ لیکن وہاں تک پہنچیں کیسے۔۔۔؟؟؟
آگے پھر راستہ گم ہو چکا تھا۔
یہ میری اب تک کی کوہ نوردی کا اذیت ناک دن ثابت ہو رہا تھا۔
اس بارش میں واپسی کیسے ہو گی ؟
ہم آگے پھنس گئے اور راستہ نہ ملا تو۔۔۔؟؟؟
یہ سوچ سوچ کے  میں مایوسی کی کھائی میں گرنے والا تھا۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب میرے ماں باپ کے چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے اور ایک تیسرا چہرہ بھی تھا، میری ننھی بھتیجی کا، جیسے مجھے بار بار مسکراتی ہوئی کہہ رہی تھی ”چاچو آپ فکر نہ کریں”۔ یک دم مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور دل سے آواز آئی کہ ؛

اے ناشکرے انسان
تیرے رب ذوالجلال نے تجھے اکیلا چھوڑا ہے کیا۔۔ ؟
جو تجھے یہاں تک لایا ہے وہ آگے بھی لے جائے گا۔ بس امید کا دامن تھامے رکھنا۔

نعیم اور مہدی آگے جا کے  کہیں سے راستہ کھوج آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس پہاڑ کی بہت ڈھلوان ہے اتر جاؤ گے۔۔؟؟؟
اور میں نے یقین سے کہا بالکل۔
اس بھربھری مٹی کے پہاڑ کی عمودی ڈھلوان اترنے اور کچھ آگے جانے کے بعد راستہ پھر غائب۔ اب؟
اتنے میں مہدی راستہ ڈھونڈتے دور جا چکا تھا، جسے ہاتھ کہ اشارے سے واپس آنے کا کہا اور ہم دھیرے دھیرے آگے بڑھتے اپنا راستہ بناتے گئے یہاں تک کہ ہم گلیشیئر پہ پہنچ گئے، وہی جہاں سے دیران پہنچے تھے۔ بارش کی وجہ سے برف پہ کافی پھسلن تھی سو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے کریوز پار کرتے رہے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ بڑی کریوز کی وجہ سے ہمیں کافی پیچھے آنا پڑتا اور اسے تنگ جگہ سے پار کر کہ واپس آگے جانا ہوتا جس کی وجہ سے وقت اور انرجی دونوں ضائع ہو رہے تھے۔
میں اپنے ہی خیالوں میں تھا کہ ایک جگہ پھسلا اور اپنا گھٹنا مڑوا بیٹھا۔
اللہ اکبر، یہ تو وہی گھٹنا  تھا جو ایک رات پہلے درد کر رہا تھا۔ اللہ نے اگر امتحان میں ڈالا تو ساتھ ہمت بھی دی۔ میں نے درد کو محسوس نہ کرتے ہوئے ٹریکنگ جاری رکھی کچھ دیر بعد درد کا احساس ختم ہو گیا۔ میرے بعد وجیہہ بھی گرا اور اس طرح قدم قدم چلتے ہم نے اس برف زار کو پار کر لیا۔
آگے پتھروں کا صحرا تھا، بارش ختم ہو چکی تھی سو ہمت بڑھ گئی اور وہ بھی پار کر لیا۔

اب ایک آخری چڑھائی جس کے بعد تغافری ہمارا منتظر تھا۔ نعیم تب تک کسی ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا دوسری طرف اتر چکا تھا۔ وجہیہ کے ساتھ سلمان اور میرے ساتھ مہدی، ہاتھ پکڑ کے  آہستہ آہستہ اوپر چڑھتے گئے اور پھر اس پہاڑی کے اوپر پہنچ کے ایک آخری بار قراقرم کے اس برف زار کو دیکھا جس نے دمانی کے دیدار کی اچھی خاصی قیمت وصولی تھی مجھ سے۔
یہاں میں یہ بتاتا چلوں کے چونکہ دیران کا پلان آخری لمحے بنا تھا اور مجھے اس کے ٹریک کا اندازہ نہیں تھا سو میں نے آنے سے پہلے کوئی ورزش یا پرہیز وغیرہ کر کے  خود کو تیار نہیں کیا نیز میرے پاس ایک جیکٹ تھی جو اب بھیگ چکی تھی۔ واحد عقل مندی جو میں نے کی تھی وہ یہ کہ ایک عدد اضافی جوگرز کا جوڑا ساتھ رکھ لیا تھا جس نے بہت مدد کی۔
دوسری جانب اتر کے  جب میں نے تغافری کی ہری بھری گھاس اور خیموں کو دیکھا تو سب سے پہلے ایک سجدہ شکر ادا کیا۔ تین گھنٹے کا ٹریک ہم نے بارش کے باعث ساڑھے چار گھنٹوں میں مکمل کیا تھا۔ ہم کچیلی کے کنارے کِھلے پھول نہ دیکھ سکے لیکن کوئی بات نہیں، ہر خواب بھی پورا نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو زندگی میں ایک عجیب سا خالی پن در آتا ہے۔ کچھ چیزوں کو ادھورا بھی رہنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں کچیلی ادھوری چھوڑ آیا تھا دوبارہ جانے کے لیئے۔
میں نے اور وجیہہ نے اپنے دونوں پورٹرز کو انعام دیا جو ان کی بہادری کے آگے کچھ بھی نہ تھا۔

اصلی ہیرو ؛
اس تمام ایڈونچر کے اصلی ہیرو ہمارے پورٹر بھائی نعیم اور مہدی تھے۔ جنہوں نے کئی کلو سامان لاد کر نہ صرف ہمیں بحفاظت پہنچایا بلکہ کئی جگہوں پہ ہمارے لیئے راستہ بنایا اور انتظار کیا۔
کسی بھی بڑے ٹریک پہ آپ کے پورٹرز آپ کا اصلی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ خوش اور ٹھیک ہوں گے تو آپ خوش رہیں گے۔ سو ان کا خیال رکھیں، ٹریک کے دوران ہمیشہ ان کے مشوروں پہ عمل کریں اور ان کے ساتھ فضول میں مت الجھیں (اکثر دوست ایسا کرتے ہیں)۔
سلمان نے بھی اس ٹریک پہ گائیڈ ہونے کا بھرپور فرض ادا کیا اور اپنی تیز رفتاری کے باوجود ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کے  چلتا رہا اور میرے تمام سوالوں کا خندہ پیشانی سے جواب دیا۔

میں نے اسے ٹریک پہ کہا بھی تھا ؛
سلمان یہ مشکلات گزر جائیں گی لیکن خوشگوار یادیں ہمیشہ رہ جائیں گی۔

تغافری سے ہپاکن اور مناپن ؛
تغافری پہنچ  ہم نے اپنے جوتے اتارے اور کپڑے بدل  کے چائے پی۔ اس کہ بعد کچن میں آگ کے پاس بیٹھ کہ گرما گرم نوڈلز(جو جلدی بن جانے کی وجہ سے یہاں کی سب سے عام خوراک ہے) اندر کیئے اور ٹریک پہ ہونے والے واقعات پہ تبادلہ خیال کیا۔ دو گھنٹے بعد ہم تینوں ہپاکن کے لیئے عازمِ سفر ہوئے۔ نعیم اور کبرو بعد میں روانہ ہوئے۔ ایک تو اتنا لمبا اور مشقت بھرا ٹریک کر  کے واپس پہنچے تھے دوسرا اب ہپاکن تک اترائی تھی سو یہ ٹریک سوا ایک گھنٹے میں مکمل کر کے  عین مغرب کہ وقت ہم ہپاکن اپنے خیمے میں براجمان تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ کا شکر ادا کر کے  فوراً سلیپنگ بیگ میں گھس گئے۔ تب تک کھانا تیار ہوتا رہا۔
ڈنر کا بلاوا آیا اور ہم کچن ٹینٹ کے  چبوترے پہ جا بیٹھے۔ میرے پسندیدہ گرما گرم دال چاول سامنے تھے اور یقین کریں دال تو بہت لذیز تھی۔ ساتھ ایک سرپرائز یعنی میٹھا بھی تھا۔ ہم جو صبح سے بسکٹ، پانی اور نوڈؒلز پہ چل رہے تھے، کھانے کے بعد شدید تازہ دم ہو گئے۔ ہپاکن میں یو فون اور زونگ کے تھوڑے بہت سگنل بھی آتے ہیں، سو گھر بھی بات ہو گئی۔
سلمان کو کوئی ایمرجنسی تھی تو وہ ایک مقامی ساتھی کے ساتھ اسی وقت نیچے مناپن نکل گیا۔ ہم نے رات دیر تک گپ شپ کی اور سونے چل دیئے۔
اگلی صبح بارش سے آنکھ کھلی اور دل نے سوچا کے  امتحان ابھی بھی باقی ہے۔ گزشتہ بارش نے ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پہ تیار کر دیا تھا سو میں، نعیم اور وجہیہ ناشتہ کر کے  نو بجے نکل کھڑے ہوئے۔
ہپاکن کی اترائی کے بعد آگے ٹریک کھلا اور صاف تھا۔ کچھ دیر میں بارش بھی رک گئی۔ چلتے چلتے، گپ شپ کرتے، تصاویر بناتے، راستے میں دیگر سیاحوں سے مصافحہ کرتے ہم گیارہ بارہ بجے مناپن پہنچ ہی گئے۔ خوبانی کے درخت دیکھ کے  منہ میں پانی بھر آیا لیکن میں نے خود کو باز رکھا۔ اگرچہ یہاں کے لوگ بہت اچھے اور مہمان نواز تھے لیکن میں نے بغیر اجازت راہ چلتے خوبانی توڑ کے کھانے سے پرہیز کیا۔
مناپن پہنچ کے ہم باہر لان میں رکھے تخت پہ ڈھے گئے اور میں نے اپنے ہوٹل مالک سے خوبانی کھانے کی اجازت طلب کی جو ظاہر ہے دے دی گئی۔ تازہ خوبانیاں توڑ کے  دھوئیں اور پہلی ہی خوبانی پہ پورا جسم شکر الحمد لِلہ پڑھنے لگ گیا۔ تین بجے کے قریب مابدولت سو کے  اٹھے اور فریش ہو کے  باہر آیا تو سلمان کو سامنے دیکھ خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ اپنا کام کر کے  واپس پہنچ چکا تھا۔ سلمان کے بڑے بھائی عثمان بھی ساتھ تھے جن کے ساتھ ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا اور گپ شپ کی۔ ان دونوں کے جانے پر ہم نے کمرے کا رخ کیا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply