ہماری تہذیب بوڑھی ہے (1)-یاسر جواد

کیا کسی کو معلوم ہے کہ پاکستانی فلموں میں بچوں کا کوئی قابلِ ذکر کردار (رول) ہے؟ اُنھیں صرف غربت، یتیمی اور ظلم سہنے کے لیے ہی نہیں دکھایا جاتا؟ انڈیا کی فلموں میں کچھ ایک لوریوں کے چکر میں بچے دکھائے گئے، یا پھر بچپن کے گیت کے دوران ہی امیتابھ کو بڑا ہوتے دکھانے کے لیے۔ لیکن ہم اِس معاملے میں کافی محفوظ ہیں۔

 

 

 

ہماری تہذیب (یا اِسے جو بھی نام دے لیں) بنیادی اور ثانوی طور پر بھی بالغوں، خراب پھیپھڑے والے بوڑھوں اور سن یاس کے بعد بہو سے نالاں ساسوں کے لیے ہے۔ ہم واقعی بوڑھے پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری مذہبی مائتھالوجی دیکھ لیں، کوئی زندہ دِلی اور ایڈونچر شاید ہی ملے گا۔ بچپن کے گیت بھی نصیحتوں بھرے ہیں۔ ایک ٹوٹ بٹوٹ ہی چار پانچ نسلیں بھگتا گیا۔ وہی اسماعیل میرٹھی۔ ہمارا ادیب بچوں کے لیے نہیں لکھتا۔ سہیل رعنا کے پروگرام کے بعد بچوں کے لیے کبھی کوئی پروگرام نہ بنا۔

اگر کبھی کوئی نوجوان غلطی سے کسی شعبے میں نمایاں ہو ہی جائے تو زندگی کی کوئی رمق اور نیا پن دکھانے کی بجائے ایسے ایسے پڑھائے گئے وعظ کرے گا کہ آپ اش اش کر اُٹھیں گے۔ ہمارے معاشرے میں بچے بس بڑے ہونے کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔

روتے ہیں آپ مغربی تہذیب کو۔ ویسے چینی اور جاپانی مشرقی تہذیب کی ویڈیوز آپ کو زیادہ متاثر کرتی ہیں، لیکن چونکہ پھڈا براہ راست امریکہ کے ساتھ ہے، اس لیے مغرب کا راگ بہت ضروری ہے۔ چونکہ ہم امت کے پاسبان اور عقیدے کا قلعہ ہیں، اس لیے بچوں کو سپاہیانہ لباس پہنانا، تلوار کھلونے دینا، پگڑیاں اور عمامے پہنانا، عید کے دن بڑوں کی طرح عمل کرنے پر مجبور کرنا لازمی قرار پایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ فلم ’’ساؤنڈ آف میوزک‘‘ بچوں کی ہے اور بڑوں کی تربیت بھی کرتی ہے۔ چنانچہ صرف سپائیڈر مین اور بَیٹ مین کے علاوہ اِس طرح کے ’’مغربی‘‘ کلچر سے بچوں کو متعارف کروانا زیادہ سیانا پن ہو گا۔ گھوڑے والی Spirit مووی، لائن کنگ، اور جنگل بُک جیسی موویز شاید اُنھیں بہتر انسان بننے میں مدد دے سکتی ہیں۔ ورنہ لاہور کے جوائے لینڈ میں جا کر دیکھ لیں کہ بچوں کی رہی سہی ٹکٹوں والی سپیس بھی کیسے کم اور محبوس ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے ماحول میں وہ ارطغرل غازی ہی بنیں گے، یا پھر میرا سلطان کی حلیمہ، اور نتیجتاً پی ٹی آئی کی ممبرشپ بڑھے گی۔ اُن کا ہیرو اورنگ زیب ہو گا۔
نزار قبانی نے جب یہ کہا تو شاید ہم بھی اُس کے ذہن میں تھے:
ہم گلیوں میں دیوانہ وار بھاگتے ہیں
لوگوں کو رسیوں سے باندھ کر گھسیٹتے ہیں
کھڑکیاں اور تالے توڑ ڈالتے ہیں
ہم مینڈکوں کی طرح مدح کرتے ہیں،
مینڈکوں کی طرح قسمیں اُٹھاتے ہیں،
ہم بالشتیوں کو ہیرو بناتے ہیں
اور ہیروؤں کو فضلہ:
ہم کبھی رک کر نہیں سوچتے۔
ہم مساجد میں یونہی سجدے کرتے ہیں،
ہم نظمیں اور تمثیلیں لکھتے ہیں،
اور خدا سے التجا کرتے ہیں کہ ہمارے دشمنوں پر فتح دے!

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply