1۔ اگر یہ واقعی امن مشن خطاب تھا توپیوٹن کو بھی یہاں ہونا چاہئے تھا۔
2۔ ٹرمپ صاحب سب باتیں درست لیکن یہ بھی بتا دیں کہ دہشت گرد کو فنڈنگ کون کرتا ہے؟
3۔ ہمیں باور کروایا گیا متعدد بار کہ ہم شیعہ اور سنی ہیں۔
باقی مذاہب جن کا نام لیا گیا وہ یہودی و عیسائی ہیں۔
4۔ اس خطاب کا نتیجہ: جو مخالف ہے وہ دہشتگرد ہے۔ اسد کا نام مثالا ًہی لیا گیا ہے۔
5۔ حجاز کو مقدس جگہ قرار دینے کا شکریہ۔
6۔ کیا مسلمان، خصوصا ًسنی مسلمان، صرف اس وجہ سے ایرانی یا شامی حکومت کے خلاف ہوں کہ ٹرمپ نے کہا ہے ؟
چنانچہ شیعت و سنیت کا لفظ استعمال کرنا بے حد مفید اور امن دشمن اور ہتھیاروں کی ڈیل کے لئے منفعت بخش ہے۔
آخر میں سوال: کیا ہم پھر شیعت وسنیت میں مبتلا ہوں گے؟
اور
کیا متحدہ افواج اسلام، اسی کام کے لئے ہائی جیک ہوں گی؟
کیا ایران و عراق جنگ کا ری پلے ہو گا اور عوام اگلے کئی برس شیعت وسنیت کا لالی پاپ چوسیں گے؟
اور کیا ہتھیاروں کی ڈیل کا مقصد فرقوں کی بڑی جنگ ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں