پاکستان میں 10 فیصد آبادی نفسیاتی امراض کا شکار

پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغ کا عالمی دن آج منایا جارہاہے ،پاکستان میں دماغی امراض روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسکے باوجو کہ  ملکی سطح پر آبادی کی بنیاد پر دماغی امراض کی کوئی مربوط تحقیق نہیں ہوئی ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی 10 فیصد آبادی مختلف دماغی امراض میں مبتلا ہے،23کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف50 کے قریب مراکزصحت میں نیورو لوجسٹ کی سہولتیں میسر ہیں،پاکستان میں 1998 کے بعد سے نیشنل ہیلتھ سروے نہیں کیا جاسکاجبکہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ملک میں دماغی امراض سمیت مختلف بیماریوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جبکہ برطانوی طبٌی جریدے لین سیٹ میں 2017 میں شائع ہونے والے مضمون میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کی 20 کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے تقریباً دو کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔پاکستان میں پانچ لاکھ مریضوں کے لیے ایک نفسیاتی معالج ہے چند ماہرین کہتے ہیں کہ اس تعداد میں ایک بڑا حصہ نوجوان اور کم عمر افراد کا ہے جن کی عمریں 13 سے 30 برس کے درمیان ہیں۔ایک اور تحقیق کے مطابق 1992 ( نو فیصد) سے لے کر 2009 ( 30 فیصد) تک پاکستان میں سکول جانے والے بچوں میں پائی جانے والی ذہنی بیماریوں میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ان نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اضطرابی کیفیت، ڈپریشن، کھانا کھانے سے متعلق مسائل، اور کئی دیگر ایسی ذہنی بیماریاں لاحق ہیں جن کے سبب وہ خود کو نقصان پہنچانے پر مصر ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی خود کشی کی کوشش کرتے ہیں۔اس تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کراچی کے آغا خان ہسپتال کے ماہر نفسیات پروفیسر مراد موسیٰ خان کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سامنے آیا کہ صرف سال 2007 میں پاکستان بھر میں سات ہزار سے زیادہ خود کشی کے واقعات پیش آئے ہیں اور یہ تعداد بھی ان کے نزدیک کم تھی کیونکہ پاکستان میں خود کشی کے واقعات سماجی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔اس کے علاوہ انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ میٹریکس اینڈ ایوالیوایشن کے مطابق 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں وہ طبی مسائل جن سے معذوری کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں ڈیپریشن سے پیدا ہونے والی وجوہات چھٹے نمبر پر اور اضطرابی کیفیت سے ہونے والی وجوہات نویں نمبر پر ہیں۔کئی ماہرین کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں نتائج حاصل کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا دباؤ، خاندانی مسائل، سوشل میڈیا اور اس سے منسلک وجوہات، اکیلا پن، اور کم عمری میں رومانوی تعلقات اور ان میں ناکامی بچوں میں ذہنی امراض بڑھنے کی اہم وجوہات بن گئے ہیں۔ڈاکٹر مراد موسیٰ کی جانب سے 2006 میں کراچی کے طبی کالجوں میں کیے گئے سروے میں یہ معلومات سامنے آئیں کہ 70 فیصد طلبہ ڈیپریشن یا اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ نوشاد انجم نے کہا کہ پاکستان میں ذہنی امراض سے متاثرہ افراد میں اضافے کی اہم ترین وجہ ملک میں شدید حد تک قابل ماہر نفسیات کا فقدان اور مریضوں کے لیے ناکافی سہولیات ہیں۔’پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے ہمارے پاس ماہر نفسیات کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ دنیا بھر میں مانے جانے والے معیار کے مطابق ہر دس ہزار کی آبادی کے لیے ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے جبکہ پاکستان میں محتاط اندازوں کے مطابق ہر پانچ لاکھ افراد کے لیے ایک ماہر نفسیات ہے۔’انھوں نے کہا کہ ملک کے بڑے شہر جیسے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تو علاج کے لیے سہولیات اور ماہر نفسیات دستیاب ہیں لیکن ملک کے دیگر حصوں میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان کی جانب سے 2009 میں پیش کی جانے والی مشترکہ رپورٹ اس حوالے سے افسوسناک منظر پیش کرتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں ذہنی امراض کے لیے صرف پانچ ہسپتال مختص ہیں اور پورے ملک میں موجود ذہنی امراض کے لیے موجود سہولیات میں سے محض ایک فیصد بچوں اور نوجوانوں کے لیے ہے۔اس کے علاوہ 2016 میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملک بھر میں صرف 380 ماہر نفسیات ہیں جبکہ برطانوی جریدے نے 2017 میں ان کی تعداد 500 کے لگ بھگ بتائی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply