ذہانت (2) ۔ راہنما؟/وہاراامباکر

بائیس مارچ 2009 کا دن رابرٹ جونز کے لئے اچھا نہیں تھا۔ وہ دوست کی طرف سے واپس آ رہے تھے۔ ان کے خودکار راہنمائی کے جی پی ایس سسٹم نے انہیں ایک شارٹ کٹ بتایا تھا۔ یہ ایک پتلا اور تنگ راستہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

رابرٹ مشین کی راہنمائی پر عمل کرتے گئے۔ یہ تنگ ہو رہا تھا اور چڑھائی پر جا رہا تھا۔ دو میل کے بعد پکی سڑک ختم ہو گئی۔ کچے راستے پر جاتے ہوئے رابرٹ کو فکر نہیں تھی۔ وہ ماہر اور تجربہ کار ڈرائیور تھے۔ اور ان کے پاس اپنے قابلِ بھروسہ رہنما پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
اگر کوئی دور سے انہیں دیکھ رہا ہوتا تو حیران ہوتا کہ وہ ایک چٹان کے کنارے گاڑی لے کر کیوں بڑھتے جا رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کے کنارے پر جنگلہ لگا تھا جس نے ان کی گاڑی کو وادی میں گرنے سے بچا لیا۔
ٹریکٹر سے کھینچ کر ان کی گاڑی کو واپس لایا گیا۔ جب وہ خطرناک ڈرائیونگ کے جرم میں عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے تسلیم کیا کہ “میرے ذہن میں بھی نہ آیا کہ میں اس کی بات ماننے سے انکار کر دوں۔ مشین بتا رہی تھی کہ آگے سڑک ہے تو میں ن ے مان لیا۔ آپ توقع نہیں کرتے کہ یہ پہاڑی سے نیچے گرا دے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کہانی میں کہیں پر ایک سبق ہے۔ اپنے نظر کے سامنے دیکھنے کے باوجود مشین پر بھروسہ کرنا بے وقوفی لگے لیکن جونز اس میں اکیلے نہیں۔ ایسا ہم سب کرتے ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں نے 2015 میں گوگل کی دنیا پر طاقت کا مطالعہ کیا۔ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہم سرچ سے نکلے نتائج پر بھروسہ کرتے ہیں اور خوشی خوشی خود کو محاوراتی پہاڑی سے نیچے گرا لیں گے؟
یہ تجربہ انڈیا میں ہونے والے انتخابات پر کیا گیا۔ ماہرِ نفسیات رابرٹ ایپسٹین نے 2150 ووٹرز پر یہ سٹڈی کی۔ (یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے فیصلہ نہیں کیا تھا کہ ووٹ کسے دیں گے)۔ انہیں ایک خاص سرچ انجن دیا تھا جو کہKadoodle تھا۔ اس میں اپنے امیدوار کے بارے میں سرچ کر کے رائے قائم کی جا سکتی تھی۔
کاڈوڈل کا کنٹرول تجربہ کرنے والوں کے پاس تھا۔ شرکاء کو معلوم نہیں تھا لیکن لوگوں کو جو نتائج دکھائے گئے وہ ایک دوسرے سے ذرا سے مختلف تھے جو ایک امیدوار کے حق میں یا خلاف تھے۔ ایک گروپ کے لئے سرچ کرنے پر جو پیج آتے تھے، ان میں سے ایک امیدوار کے حق میں آنے والے پیج اوپر تھے۔ یعنی کسی بھی دوسرے امیدوار کے حق میں کچھ پڑھنے کے لئے نیچے سکرول کرنا پڑتا تھا۔ مختلف گروہوں کے لئے کسی خاص امیدوار کے حق میں ایسا کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں حیرت کی بات نہیں کہ شرکاء نے زیادہ وقت وہ ویب سائٹ پڑھیں جو اوپر آتی تھیں۔ اور نیچے سکرول کر کے جانے پر وقت نہیں لگایا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے خیالات میں جتنا فرق پڑ گیا اس نے تجربہ کرنے والے ماہر ایپسٹین کو بھی ششدر کر دیا۔ صرف چند منٹ گزارنے کے بعد لوگوں کی رائے میں پڑنے والا فرق بڑا تھا اور یہ کاڈوڈل کے دکھائے گئے امیدوار کے حق میں بارہ فیصد زیادہ تھا!!
ایپسٹین کہتے ہیں کہ
“ہم توقع کرتے ہیں کہ سرچ انجن دانشمندی سے نتائج دکھائے گا۔ جب لوگوں کو اس بات سے آگاہی نہ ہو کہ ان پر اثرانداز ہوا جا رہا ہے تو ان کے لئے یقین کر لینا آسان ہے۔ آپ غیرشعوری طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ الگورتھم درست ہوں گے۔ اچھا اور غیرجانبدار فیصلہ کریں گے۔ اور آپ الگورتھم کے تعصبات سے خبردار نہیں رہتے”۔
اپنے کام الگورتھم کے حوالے کر دینا زندگی میں آسانی لاتا ہے اور ظاہر ہے کہ آپ کو بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ گوگل میپ کے دئے گئے راستے کی خود پیمائش کر کے پڑتال کریں گے یا گوگل کے دئے گئے ہر نتیجے کو کئی صفحات تک جا کر جانچ کریں گے یا ٹکٹ لینے کی سائٹ کے نتائج کو ہر ائیرلائن کی اپنے سائٹ پر جا کر چیک کریں گے۔
نکتہ یہ نہیں ہے۔ عام طور پر قابلِ بھروسہ الگورتھم پر عام طور پر بھروسہ رکھنا ایک بات ہے۔
لیکن کسی الگورتھم کی کوالٹی کی گہری سمجھ کے بغیر ایسا کیا جا سکتا ہے؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply