کورونا نے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ روزانہ بے شمار لوگ مرنے لگے، خاندان برباد ہوئے۔ پسماندگان کی چیخوں نے دھرتی ہلا کر رکھ دی۔ موبائل فون تعزیتوں کا لاؤڈ سپیکر بنے اور تازہ قبروں سے قبرستانوں کے پیٹ نو مہینے جتنے ہوتے گئے۔
اپنے خطے کی بات کیا کرنی۔ ایک بدقسمت علاقہ ہیں ہم ۔70 برس سے ہماری تربیت بیہودگی کے ہاتھوں ہوتی رہی۔ اسی پست تربیت نے کورونا کی بیماری اور اس کی موت کو ایک دھبہ، ایک داغ اور بدنامی بنا ڈالا۔ جب ایک وبا بدنامی قرار پائے تو اموات کا کئی گنا ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے۔
مرگ پہلے ہی بہت پُراسرار مظہر ہوتی ہے۔ پھر بدنامی کے ہاتھوں ایک خاموش بیماری، خاموش موت اور خاموش جنازہ بڑے پیمانے کی بربادی کو جنم دیتے ہیں۔۔۔۔ موت خود خوف ناک، وبا کا نام خوف ناک اور وبا سے تجہیز و تکفین کی پُراسراریت خوف ناک۔ ہم انسانیت کے خلاف ایک اور جرم کر بیٹھے کہ ہم نے کورونا کو پُراسرار بنا دیا۔
چین نے لوگوں کو گھروں میں بند کر کے اموات کی تعداد کم کر دی، یورپ کے بیشتر ممالک نے بھی چین کی پیروی کی۔ شروع میں عمران حکومت بھی جوش میں آئی۔ لاک ڈاؤن نامی ہڑبونگ مچائی۔ مگر جلد ہی اسے پتہ چلا کہ اس کے ادارے سارے کے سارے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے کرایہ داروں نے سماج کا ریشہ ریشہ دیمک زدہ کر دیا ہے۔ چنانچہ بلیک میل کرنے کی چیمپیئن حکومت خود بلیک میل ہوگئی: تا جروں سے، ملّاؤں سے اور ٹرانسپورٹروں سے۔ ملّا نے چیلنج دے کر تروایح پڑھے، ٹرانسپورٹر نے چیلنج دے کر اپنی بسیں چلائیں، مارکیٹ مالکان نے اعلان کر کے مارکیٹیں کھول دیں۔ سچ ہے کہ پیسہ کے بہاؤ میں رکاوٹ بننے کی جرات جو بھی کرے گا تاجر، ملّا اور ٹرانسپورٹر اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ سرکار کو اپنا تھوک چاٹنا پڑا۔ اور وہ لاک ڈاؤن سے دم دبا کر بھاگ گئی۔
چنانچہ ”محبِ وطن “ سرکار نے وطن پہ کورونا کو آزاد چھوڑ دیا۔ اپنی حکومت اپنے ہی عوام کے سروں کی فصل چَرنے کی سہولت کار بن گئی۔ بھیڑ بکریوں کی طرح عوام مرنے لگے۔ نہ کوئی حساب نہ اعدادوشمار۔ بولتی رہنے والی مشینوں جیسے لوگ چینلوں پہ چھوڑ دیے گئے۔ مکڑ، چینی، آٹا اور پیٹرول جیسے معاملے کھڑے کیے گئے اور پھر انھی پہ بحثیں چلوا کر ذہنوں کو وہیں الجھا دیا گیا۔ کورونا اموات اور حکومتی ناکامی پس پشت ڈالنے کی ہزاروں ترکیبیں موجود ہیں اِن کے پاس۔ سچ ہے کہ ہم جعلی خبریں سنتے چلے آئے ہیں، جعلی کالم پڑھتے چلے آ رہے ہیں، جعلی اینکر پرسن جھیلتے آ رہے ہیں۔
مگر بدقسمتی کی آندھی میں گھری ، اور جہانی کپٹلزم کی دُم سے بندھی ہماری سرکار اپنے ہاں کی اپوزیشن سے تو نجات پا گئی مگر بھٹہ یوں بیٹھ گیا کہ کپٹلزم کے سب سے بڑے وڈیرے کی پگ گر گئی۔ یہ اندازہ تو تھا کہ کورونا کی تباہی کے خلاف صنعتی مغربی دنیا کپٹلزم کے خلاف ضرور اٹھے گی۔ مگر یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ کام اتنی جلد ی شروع ہوگا۔ پانچ ماہ کے اندر اندر ”انسان“ لاکھوں کی تعداد میں نکل آئے۔
یہ اندازہ نہیں تھا کہ آیا اس ممکنہ عوامی ابھار کا مرکز امریکہ ہوگا یا یورپ؟۔ یا اس کی نوعیت کیا ہوگی؟۔ اور کون سا معاملہ زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے گا؟۔ عجب ہوا کہ اس ابھارکا مرکز امریکہ بنا۔ امریکہ جو سامراج ہے، امریکہ جو کپٹلزم کا جی ایچ کیو ہے، جو ابلیسیت کا گڑھ ہے۔ مگر کتنی دلچسپ بات ہے کہ یہی امریکی سامراج یومِ مئی کی جائے پیدائش ہے، آٹھ مارچ کی جائے پیدائش ہے ۔۔۔ اور اب ”بلیک لائیوز مَیٹر“ کی جائے پیدائش ہے۔
یورپ کے بغیر ”پوسٹ کو رونا ورلڈ“ کا تصور ہی ممکن نہیں۔ اس لیے کہ وبا نے جانی اور معاشی طور پر یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ امریکہ سے عوامی ابھار کا یہ سیلاب جلد ہی یورپ بھر میں پھیل گیا۔
اس سٹرگل کی نوعیت بھی طے ہوگئی۔ یہ بندق، بم اور آگ والی تحریک نہ بنی۔ بلکہ عوام الناس کی مقبول قوت گلیوں سڑکوں پہ امڈ آئی اور اشتعال کے باوجود یہ تحریک پُرامن اوریکسو ہو کر ایک ماہ سے جاری وساری ہے۔ اس ہمہ گیر تحریک نے معاشی بحران، سماجی افراتفری، کلاس استحصال اور جنسی امتیاز کے بجائے نسل پرستی کی مخالفت سے شروعات کی۔
نسل پرستی ایک عالمی اور بہت پرانا مسئلہ ہے۔ پروپیگنڈے خواہ جتنے ہوئے، اشتہارات خواہ جتنے صادر ہوئے مگر بالخصوص امریکی سماج کی گہری جڑوں میں یہ معاملہ سالم صورت میں موجود رہا۔ اور پھر یہ دیگر منفی معاملات مثلاً عورت دشمنی، مزدور دشمنی، جمہوریت دشمنی اور پسماندہ ممالک میں قومی آزادی دشمنی سے مل کر گھمبیر مسئلہ بنا رہا۔ یوں اِن سب تنگ نظریوں سے مل کر امریکہ ایک انسانی معاشرہ کم، مگر نفرت کدہ زیادہ بنا۔ کپٹلزم رنگ، نسل، جنس، عقیدہ اور زبان کی بنیاد پر انسانوں میں تقسیم کو اپنے لیے نیک شکون سمجھتا ہے۔
”بلیک لائیوز میٹر“ نامی تحریک کے پیچھے امریکہ کی اُس ناکامی کے خلاف عوامی غصہ بھی شامل ہے جو اُس نے کورونا سے نمٹنے میں دکھائی ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور پاکستان تین ایسے ممالک ہیں جن کے سرابرہوں کو مرشد کی بددعا لگی ہوئی ہے۔ اِن تینوں نے کورونا کو معمولی زکام کا درجہ دے کر 5 لاکھ انسانی جانوں کا بلیدان کر دیا۔ بالخصوص امریکہ میں ڈیڑھ لاکھ افراد کا تین ماہ کے اندر اندر مرجانا سکتے اور صدمے کی بات تھی۔ امریکہ کا بھاری بجٹ صحت، سہولیات، مساوات، انصاف، برابری اور سپر پاوری سب کچھ ننگا ہو کر سامنے آ گیا۔
برسوں سے پکتا دیگ بالآخر لاوا بن ہی گیا۔ چنانچہ ”میرا دم گھٹ رہا ہے، ماں“ کی نحیف آواز اس سیاہ فام کی تھی جس کی گردن سفید فام سپاہی نے اپنے گھٹنے کے نیچے دبا رکھی تھی۔ ساڑھے آٹھ منٹ بعد سیاہ فام مرگیا۔ یہ قتل حق، مساوات، انصاف، شرافت، آدمیت اور قدرت کے شاہکار کا قتل تھا۔ جارج فلائیڈ ”میرا دم گھٹ رہا ہے، ماں“ کہہ کر مرگیا۔ مگر پھر یہی فقرہ نعرہ بنا۔ کپٹلزم کے گھٹنے تلے پسی ہوئی انسانیت کا مقبولِ عام نعرہ۔ کمال یہ ہوا کہ ہر جگہ لاکھوں انسانوں نے اپنا ایک گھٹنا زمین پہ رکھ کر مرنے والے سیاہ فام، جارج فلائیڈ کو اپنا احترام پیش کیا۔
ذرا غور تو کریں؛ انسان تو للکار جیسے فقروں پر باہر نکلتا ہے، عوام انقلاب و نجات کے پُرجوش نعروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یا پھر مزاحمت کا کوئی فقرہ غیرتوں کو جگاتا ہے۔ شکست خوردگی تو کبھی بھی عوامی ابھار کا سبب نہیں بنتی۔ مگر یہاں جارج فلائیڈ کا یہ فقرہ نہ للکار تھا، نہ یہ انقلاب کا پُرجوش نعرہ تھا، اور نہ یہ مزاحمت کی کسی صورت کا اظہار تھا۔ یہ تو ایک شکست خوردہ، ناامید شدہ اور مرتے ہوئے انسان کے نرخرے سے نکلتی فریاد تھی۔
مگر اسی شکست خوردہ ، بے بس اور غیر مزاحم فقرے نے انسانوں کے دلوں ضمیروں کو ہلا ڈالا۔ اور ایک وائبرنٹ تحریک ابل پڑی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعروں کی اہمیت اس قدر زیادہ نہیں ہے۔ حالات جب پک جاتے ہیں تو رونے اور ہاتھ جوڑنے کی روہانسی صدائیں تک طبلِ
جنگ بن جاتی ہیں۔
اسی طرح یہ بھی غور طلب بات ہے کہ سوشل میڈیا خواہ جتنا بھی کارپوریٹ امیروں کا خدمت گزار ہو، مگر اس نے جارج فلائیڈ کی فریاد ایک سیکنڈ کے اندر اندر شہر بھر میں، اور پھر ملک بھر میں اور پھر دنیا بھر میں پھیلا دی اور یوں، دنیا میں آگ لگ گئی۔
چنانچہ ہوا یہ کہ ماسک، گلوز اور ڈسٹنسنگ کو اپناتے ہوئے ہزاروں لاکھوں لوگ باہر نکلے۔ ایک ماہ سے یہ زبردست تحریک صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں چل رہی ہے۔ کالونائزروں، افریقہ سے لائے گئے غلاموں کے سوداگروں، اور اس کام کی پشت پناہی کرنے والے سیاست دانوں کے مجسمے سیکڑوں کی تعداد میں ہٹائے جانے لگے۔ امریکہ میں کولمبس کا مجسمہ گرا، اور نیویارک میوزیم سے روز ویلٹ کا مجسمہ ہٹایا گیا۔ ابراہم لنکن اور تھامس جیفرسن کے مجسمے بھی تحریک کے نشانے پر ہیں۔ برطانیہ میں کالسٹن اور ملیگان کے مجسمے گرے ہیں، چرچل بھی آج گرا کہ کل گرا۔ اب تو مطالبہ ہے کہ امریکہ کے بابائے قوم جارج واشنگٹن کا مجسمہ بھی گرایا جائے اس لیے کہ اُس کے پاس بھی غلام ہوا کرتے تھے۔ 400 برسوں کا احتساب شروع ہوا۔ یہ مجسمے منظم نسل پرستی کی طاقتور اور تکلیف دِہ علامتیں ہیں۔گرائے گئے، گرائے جا رہے ہیں۔
ہم کبھی کبھی چیزوں کو ہلکا لے لیتے ہیں۔ مگر یہاں ”بلیک لائیوز میٹر“ نامی تحریک نے رنگ و جمالیات تک کے بارے میں ہمارے تصورات کی بیخ اکھاڑنی شروع کر دی۔ ابھی رنگ گورا کرنے والی مشہور عالم فرانسیسی کمپنی L,Oreal نے اعلان کیا کہ وہ جلد کوگورا کرنے سے متعلق اپنے پراڈکٹس سے ”Whitening“ (گورا کرنا)، White (گورا یا سفید)، light, Fairness, Fair اور lightening کے الفاظ نکال رہی ہے۔ اس لیے کہ یہ نسل پرست الفاظ ہیں۔ ایک اور مشہور برانڈ فیئر اینڈ لَولِی کا نام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جانسن اینڈ جانسن نامی بڑی کمپنی کو فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ جلد کو گورا کرنے والی اپنی ساری پراڈکٹس کی فروخت بند کردے گی۔
تاریخ ہی بدل جائے گی۔ یوں کہ اب تک کی تاریخ میں جلد کی رنگت پہ ممالک کے بیچ جنگوں میں لاکھوں انسان قتل ہوئے تھے۔ اسی طرح سیاہ فام سفید فام لڑائیوں میں ملک تباہ ہوگئے تھے۔ آج انسان اس قدر بالغ ہو چلا ہے کہ وہ وہی لفظ گورا جو صدیوں تک حسن کی علامت تصور ہوتا تھا، آج نسل پرست لفظ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ لفظ شرمندہ شرمندہ مارکیٹ سے غائب کیا جا رہا ہے۔
ایک تماشا ہے جو جاری ہے۔ دنیا اتھل پتھل ہو رہی ہے۔ فیس بک کا مالک دنیا کے امیر ترین لوگوں میں تیسرے نمبر پہ تھا۔ اُس پر الزام آیا کہ اُس کے ہاں نسل پرستی کے مواد پہ سنسر کا نظام کمزور ہے۔ اس نے بات کو سنجیدہ نہ لیا تو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کو اشتہار دینا بند کر دیے۔ تین چار روز کے اندر اندر فیس بک کی آمدنی اربوں ڈالر گر گئی اور اُس کا مالک تیسرے سے گر کر چوتھے پانچویں نمبر پر آ گیا۔ فیس بک اگر نسل پرستی کے مواد کو یک دم روکنے کے اقدام نہیں کرے گا تو اُس کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے۔
حالیہ احتجاج، یہ جلسہ جلوس بظاہر تو جارج فلائیڈ کی موت پہ اچانک ابھرا، مگر دراصل کوئی چیز اچانک نہیں ہوتی، اس کے پیچھے سیکڑوں برسوں کے ظلم و زیادتیاں موجود ہوتی ہیں۔
جھوٹ ثابت ہوا کہ امریکہ آزاد ملک ہے، جمہوری ملک ہے، کھلا ملک ہے۔ نہیں نہیں۔ یہ کالوں کے لیے، مزدوروں کسانوں کے لیے، دنیا کی محکوم قوموں کے لیے، عورتوں اور ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے ایک بند قفس ہے۔
خدشات تو ہیں کہ یہ تحریک خود روہے ، بے تجربہ نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ اور اس کے مقابل کپٹلزم بہت لومڑی ، چالباز اور مکار ہے۔ لیکن تحریکوں کا چل پڑنا اور پوری مغربی دنیا میں ایک ماہ تک چلتے رہنا ہی تحریکوں کی کامیابی ہوتی ہے۔
یہ تحریک بالآخرکیا جنے گی، معلوم نہیں۔ مگر سیکڑوں برسوں کے بے جان مجسموں نے گر کر پہلے ہی اس پورے ویلیو سسٹم میں دراڑیں پیدا کر دی ہیں۔ رنگت کو گورا اور سفید بنانے والے پراڈکٹس نے مارکیٹ سے ہٹ کر ہمارے ذخیرہِ الفاظ کو فلٹر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک ایک فرد کو معلوم ہوگیا کہ کپٹلزم نسل پرست نظام ہے اور اس نظام کی ایک ایک جڑ، ایک ایک پور ”ناجائز“ ہے۔ کیا کلچر ل انقلاب ہے!
کپٹلزم کوشش کرے گا کہ معمولی اور سطحی ریفارمز کر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہوگا؟ نہیں۔ بہت بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ اس لیے کہ کورونا کے تباہ کن اثرات سماج پہ ابھی آنے ہیں۔ یہ موجودہ قبل از وقت ابھار اپنی جگہ، مگر کورونا کے میچور ہو کر آنے والے خوف ناک اثرات تو ابھی آنے ہیں، عوام نے تو ابھی اٹھنا ہے۔ ابھی تو سماجی برائی کے محض ایک پہلو نے اِس نظام کا تکبر بھرا سر جھکا دیا۔
یہ ” کالا بمقابلہ سفید“ کی تحریک نہیں ہے، یہ تو ”کالا جمع سفید بہ خلاف نسل پرستی“ کی تحریک ہے۔ مگر جب سال ڈیڑھ سال میں کورونا کی اموات اور معاشی سماجی تباہی کے اثرات عوام پہ مکمل طور پر آشکار ہوں گے، تب ہی اصل محشر سجے گا۔ موجودہ انٹی ریسزم تحریک تو محض ایک ٹریلر، ایک ابتدا ہے۔ اس نے یا تو جاری رہ کر سال ڈیڑھ سال بعد کی بھر پور عوامی تحریک سے جا ملنا ہے یا پھر کچھ اصلاحات کروا کر بیٹھ جانا ہے۔ اور پھر اگلا عوامی سیلاب اپنے مطالبات، اپنے راہنماؤں اور اپنے ڈائنامکس کے ساتھ ابھرتا ہوا آئے گا۔ کپٹلزم تو اُس چھلنی مشکیزہ کی طرح ہے جس کا ایک سوراخ بند کرو تو یہ دوسری جگہ سے رسنا شروع کر دے گا۔ کوئی پیوند کاری نہیں، کوئی اڈہاک ازم نہیں۔ کوئی قرار نہیں، کوئی سکون نہیں، کپٹلزم کو دل کا دورہ پڑے ہی پڑے۔
ہم جان بوجھ کر بلوچستان، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر کپٹلسٹ علاقوں کی بات نہیں کر رہے۔ اس لیے کہ یہ سب ممالک تو ترقی یافتہ مغرب کے مزاج اور تیور سے بندھے ہوئے ہیں۔ جو مغرب چاہے گا یہاں تعمیل ہوگی ۔۔۔۔ اور اب تو مغرب اگلے دو چار سال میں بہت کچھ چاہے گا، اور تیسری دنیا کی حکومتوں کو بہت سارا ”ڈومور“ کرنا ہوگا، کہے بغیر۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں