لا اور اِلّا ۔۔پروفیسر فتح محمد ملک

اقبال نے اپنے عہد میں مروج اسلام اور اپنے تصورِ اسلام میں بنیادی فرق کو ’’ بالِ جبریل‘‘ کے درج ذیل قطعے میں بڑے بلیغ اختصار کے ساتھ واضح کیا ہے :

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل

یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات

یہ مذہبِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست

وہ مذہبِ مُلا و جمادات و نباتات

اقبال کو اپنے عہد کے مشرق کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے مختلف مسلمان معاشروں میں اسلام کی مختلف اور متنوع مروجہ شکلوں پر ’’ مذہبِ مُلا و جمادات و نباتات‘‘ کا تسلط نظر آیا تو وہ ’’ اہلِ حرم کے سومنات‘‘ پر غزنوی بن کر ٹوٹ پڑے:

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں لا اِلٰہ اِلا اللہ

اقبال نے اپنی شاعری ، فلسفے اور سیاسی عمل سے عالمِ اسلام کی آستینوں میں پوشیدہ لات و منات کو توڑنے اور دُنیائے اسلام میں اسلام کے اُس مثالی تصور کے نفاذکی راہیں اجاگر کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے جو ’’ وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل‘‘ سے عبارت ہے- یہ اسلام کا وہ تصور نہیں جو ’’ مسکینی و محکومی و نومیدیٔ جاوید‘‘ کا دوسرا نام ہے- بلکہ اس کے بر عکس یہ اسلام کا وہ حرکی اور انقلابی تصور ہے جو انسان اور کائنات کے ظاہر و باطن کی تسخیر کا پیغامبر ہے اور عہدِ حاضر کی منفی اقدارِ حیات پر اُستوار تہذیب مغرب کے جملہ امراض کا علاج ہے:

لبالب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے مئے لا سے

مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ اِلّا

گویا اقبال کا فنی مجاہدہ اور سیاسی جدو جہد صرف عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ ساری کی ساری دنیائے انسانیت کو ’لا‘ کے مقام تخریب سے ’الا‘ کی منزلِ تعمیر کی جانب…… نفی اور جمود سے اثبات اور حرکت کی جانب گامزن کرنے کا عمل ہے-اسلام کے اس مثالی تصور کو عملی زندگی کے متحرک قالب میں ڈھالنے کی اس جدو جہد کا آغاز قدرتی طور پر اُس معاشرے کو انقلاب کی راہوں پر ڈالنے سے ہو سکتا تھا ، خود اقبال جس کے ایک فرد تھے- چنانچہ ۱۹۳۰ء کے خطبۂ الٰہ آباد میں بر صغیر کے مسلمانوں کی جداگانہ مملکت کا تصور پیش کر کے اقبال نے اسلام کے اُس مثالی اور انقلابی تصور کے مادی ظہور کا خواب دیکھا جو انہوں نے قرآنِ حکیم کے گہرے مطالعے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات سے والہانہ محبت سے اخذ کیا تھا – اسلام کے اس انقلابی تصور کو اقبال نے کلمۂ طیبہ کی مجتہدانہ تفسیر سے واضح کیا ہے-

بر صغیر کے شمال مغربی حصے یعنی موجودہ پاکستان میں ایک اسلامی مملکت کے قیام کا عملی منصوبہ پیش کرنے کے صرف دو سال بعد شائع ہونے والی عہد آفریں تخلیق ’’ جاوید نامہ‘‘ میں اقبال نے عالمِ قرآنی کا مثالی تصور پیش کرتے وقت کلمۂ طیبہ کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو بعد ازاں ’’ ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’ لا الٰہ الا اللہ‘ میں اور اس سے بھی زیادہ انقلابی شان سے ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں جلوہ گر ہے – ’’ جاوید نامہ‘‘ کے فلکِ عطاردپر، جسے رومی کی زبانی مقامِ اولیاء قرار دیا گیا ہے ، اقبال جمال الدین افغانی کی زبان سے مثالی قرآنی مملکت کا تصور پیش کرتے ہیں – یہ ایک ایسی مملکت ہے جو آقا اور غلام کے امتیاز سے ہی نہیں بلکہ رنگ و نسل کے تمام تر امتیازات سے بھی پاک ہے ، جس کی شام فرنگ کی صبح سے روشن تر ہے ، جس کا باطن تو تغیر سے نا آشنا ہے مگر ظاہر ہر لحظہ ایک نئے انقلاب کا طلب گار ہے – جہاں آدمی کا مقام آسمان سے بھی بلند ہے اور جہاں تہذیب، احترامِ آدمی کی اساس پر پھل پھول رہی ہے، جہاں زمین خدا کی ملکیت ہے یعنی ذرائع پیداوار خلقِ خدا کی دسترس میں ہیں – جہاں بندۂ حق نہ خود کسی کا غلام ہے ، نہ کسی اور کو اپنا غلام بنانے میں کوشاں ہے ، جہاں ملوکیت کے آئین و دستور کو رد کر دیا گیا ہے اور خدا کی حاکمیت کا تصور سلطانی ٔ جمہور میں جلوہ گر ہے ، جہاں ملوکیت اور اشتراکیت کے یزداں ناشناس اور آدم فریب نظام ہائے حیات کی نفی کے بعد اسلام کی وہ ابتدائی اور پاکیزہ شکل نافذ ہے جو اشتراکی انقلاب کی ترقی یافتہ اور تابندہ تر صورت ہے جہاں مغرب کی زیرکی اور مشرق کے عشق کو باہم دگر آمیز کر کے ایک عالمِ نو کا نقشہ پیدا کیا گیا ہے…… یہ ہے وہ اسلامی مملکت جو روئے زمین پر تو کہیں موجود نہیں ہے مگر قرآنِ کریم میں جس کی واضح تصویر نمایاں ہے المیہ یہ ہے کہ خود ملتِ اسلامیہ ایک دُنیائے فرسودہ میں مستِ خواب ہے اور اُس کی نگاہوں پر اس عالمِ قرآنی کی سحر بے حجاب نہیں ہے-

جمال الدین افغانی، اقبال کو اُم الکتاب میں مستورِ عالمِ قرآنی کو بے حجاب کرنے کی تلقین کرتے وقت ملتِ روسیہ کے نام ایک پیغام بھی دیتے ہیں – افغانی کے اس پیغام میں اقبال نے کلمۂ طیبہ کی انقلابی تفسیر پیش کی ہے – ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی کتاب’’ فکرِ اقبال‘‘ میں افغانی کے پیغام کا خلاصہ یوں دیا ہے:-

’’ اے ملتِ روسیہ! تو اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر نظر ڈال اور اس سے کچھ سبق اور عبرت حاصل کر – مسلمانوں نے قیصر و کِسریٰ کے طلسم کو توڑا مگر پھر بہت جلد خود اُن کے تختِ ملوکیت پر بیٹھ گئے-اور قیصریت کے جاہ و جلال کو اپنی شاہانہ شوکت سے مات کردیا، غرض کہ اسلام کے انقلاب کو ملوکیت کھا گئی- ظالم اور مستبد سلاطین ’’ ظل اللہ‘‘ بن بیٹھے اور علمائے سُو فتویٰ فروش بن کر اُن کے آلۂ کار ہو گئے- اے ملتِ روسیہ! کچھ کام تو تُو نے وہی کیا ہے جو اسلام کرنا چاہتا تھا ، تو نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور خلفائے راشدین کی طرح قیصریت کی ہڈی پسلی توڑ ڈالی ہے مگر تجھ کو تاریخِ اسلام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے- کہیں یہ نہ ہو کہ تو بھی عالمگیر اخوت کا دعویٰ کرتے کرتے ایک نئی قسم کی ملوکیت کا شکار ہوجائے، تمہاری تقدیر اقوامِ مشرق سے وابستہ ہے جس کی روایات میں روحانیت کا بنیادی عنصر موجود ہے- افرنگ کا آئین و دین کہنہ اور فرسودہ ہو گیا ہے اگر تم نے بھی اُس کی نقالی شروع کر دی تو تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو فرنگ کا ہوا ہے – یہ مغرب ’لا ‘ سے ’الا‘ کی طرف نہیں بڑھ سکا اور مادیت کے آب و گل میں پھنس کر رہ گیا ہے- ارتقائی زندگی کا ایک قد م نفی کی طرف اور دوسرا اثبات کی طرف اٹھتا ہے ، اس لیے تم پر یہ لازم ہے کہ تم لا سے گزر کر ’الا‘ کی منزل پر آجائو- جس انقلاب آفرینی پر تم فخر کرتے ہو اُس کا سبق سب سے پہلے دنیا کو قرآنِ کریم نے پڑھایا تھا- اُسی قرآن لانے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلان کیا تھا کہ لا قیصر و لا کسریٰ – اے ملتِ روسیہ ! میں تمہیں اصل اسلام کی طرف بلا رہاہوں جو تمہارے انقلاب کی تکمیل کر سکتا ہے-‘‘

’’ جاوید نامہ‘ ‘ کے بعد اقبال نے ’’ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ میں لا الہ الا اللہ کی سیاسی و اقتصادی تفسیر کی ہے – پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ’’ اقبال…نئی تشکیل‘‘ میں اس نظم کے مطالب پر یوں اظہارِ خیال فرماتے ہیں :

’’ لا اور الا اقبال کے نزدیک زندگی کی جدلیات میں منفی اور مثبت مقامات کے مماثل ہیں – ’لا ‘ انقلاب کی تخریبی پہلو ہے اور ’ الا‘تعمیری- ’لا‘ سے جلال ظاہر ہے اور ’الا‘ سے جمال- ’ لا ‘ کا مقام تخریبہ اور حرکی ہے- ’الا‘ کا مقام تعمیری ہے اور تعمیر کے بعد کا سکون ’ الا ‘ کہنے سے حاصل ہوتا ہے- باطل کے سامنے ’ لا ‘ کہنا ضروری ہے- طبقاتی کشمکش کو یہی ’لا ‘ انقلابی حرکت عطا کرتا ہے:

نکتۂ می گویم از مردانِ حال

اُمتاں را لا جلال الّا جمال

ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نون

حرکت از لا زاید، از الّا سکون

لا و الّا احتسابِ کائنات

لا و الّا فتحِ بابِ کائنات

پیشِ غیراللہ ’ لا ‘ گفتن حیات

تازہ از ہنگامۂ اُو کائنات

بندہ را باخواجہ خواہی در ستیز

تخمِ لا در مُشتِ خاکِ او بریز

ہر قبائے کہنہ چاک از دستِ اُو

قیصر و کسریٰ ہلاک از دستِ اُو

روس را قلب و جگر گردیدہ خوں

از ضمیرش حرفِ لا آمد بروں

آں نظامِ کہنہ را برہم ز دست

تیز نیشے بر رگِ عالم ز دست

کرد ام اندر مقاماتش نگاہ

لا سلاطیں، لا کلیسا، لا الٰہ

ترجمہ : -میں صاحب حال بزرگوں کی بات بتاتاہوں امتّوں کے لئے جلاہے اورالاجمال (لاسے غیراللہ کی نفی ہے اورالامیں اللہ تعالیٰی کے سامنے جھک جانا-‘‘’’ان دونوں سے (الفاظ)سے اس جہانِ کن کی تقدیربنتی ہے لاسے حرکت میں اضافہ ہوتاہے اورالاسے سکون میں-‘‘’’لاوالاسے کائنات کااحتساب ہے، لاوالاسے کائنات (کی برکتوں )کادروازہ کھلتاہے-‘‘’’غیراللہ کے سامنے لاکہنازندگی ہے اسی کے ہنگامہ سے کائنات میں تازگی پیداہوتی ہے-‘‘’’توغلام کوآقاکے خلاف لڑاناچاہتاہے؟تواس مشتِ خاک میں لاکابیج بودے-‘‘’’اس کے ہاتھوں ہرپُرانی قباچاک ہوئی اس نے قیصروکسریٰ (کی سلطنتوں)کوخاک میں ملادیا-‘‘’’جب روس کاقلب وجگرخون ہوگیاتواس کے ضمیرسے لاکالفظ اٹھ کھڑاہوا-‘‘’’اس نے اپناپُرانانظام درہم برہم کردیااورجہان کی رگِ حیات پرتیز نشتر لگایاہے-‘‘ ’’میں نے اس(انقلاب )کے مقامات پرنظرڈالی ہے اس نے پہلے سلاطین پھرکلیسااورآخرمیں اللہ تعالیٰ کی نفی کی ہے -‘‘

’’ اقبال کا اجتہاد یہ ہے کہ چونکہ تخریب اور دہریت کی منزل کی منزل پر کوئی تمدن اساسی طور پر قائم نہیں رہ سکتا اس لیے بہت جلد روسی اشتمالیت بھی مثبت یعنی وجدانی قدریں تلاش کرے گی، حیات اور کائنات کا قانون یہی ہے – حرکت کا رجحان جلال سے جمال کی طرف ہے-‘‘

یہ بات معنی خیز ہے کہ صرف اپنی شاعری میں کلمہ ٔ طیبہ کے تہ در تہ مطالب و مفاہیم بیان کرتے وقت ہی نہیں بلکہ اپنی سیاسی تقاریر اور قائد اعظم کے نام اپنے سیاسی خطوط میں بھی اقبال ہمیں اپنی جغرافیائی سرحدوں کے آس پاس برپا اشتراکی انقلاب کی طرف متوجہ کرتے ہیں – اسلام اور اشتراکیت کے درمیان نکتہ ہائے اشتراک و افتراق کی نشاندہی کرتے وقت اقبال ’’ لا سلاطیں لا کلیسا لا الٰہ‘‘ (جاوید نامہ … سخنے بہ نژاد نو) کی حد تک تو ہمیں اشتراکی انقلاب سے سبق اندوز ہونے کی تلقین تو ضرور کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں دہریتِ روس کو مسلمان بنانے کا فریضہ بھی ہمیشہ یاد دلاتے جاتے ہیں گویا وہ روس کو لا الٰہ کے مقام سے الا اللہ کی منزل کی جانب بڑھنے کا درس دیتے ہیں تو ہم پر لا الٰہ الا اللہ کی انقلابی معنویت آشکار کرتے ہیں:

لا الہ گوئی؟ بگو از روئے جاں

تا ز اندامِ تو آید بوئے جاں

ایں دو حرفِ لا الٰہ گفتار نیست

لا الٰہ جُز تیغِ بے زنہار نیست

زیستن با سوزِ اُو قہاری است

لا الٰہ ضرب است و ضربِ کاری است

ملتِ بیضا تن و جاں لا الٰہ

ساز ما را پردہ گرداں لا الٰہ

تیغِ لا چوں از میاں بیروں کشید

از رگِ اربابِ باطل خوں کشید

نقشِ الا اللّٰہ بر صحرا نوشت

سطرِ عنوانِ نجاتِ ما نوشت

رمزِ قرآں از حسین آموختیم

ز آتشِ اُو شعلہ ھا اندوختیم

ترجمہ : -’’لاالہ کہتاہے،تودل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن میں سے بھی روح کی خوشبو آئے،لاالہ کے دووحروف محض گفتارنہیں بلکہ تیغِ بے زنہارہیں،لاالہ کے ساتھ جیناقہاری ہے لاالہ محض ضرب نہیں ،بلکہ ضرب کاری ہے -‘‘’’ملت مسلمہ بدن ہے اورتوحید اس کی جان ہے لاالہ ہمارے سازکے سارے نغموں میں ہم آہنگی پیداکرتا ہے -‘‘ ’’جب آپ نے لاکی تلوارمیان سے باہر نکالی تواہلِ باطل کی رگوں سے خون نچوڑ لیا،انہوں نے صحراکی سرزمین پرالااللہ کانقش رقم کیا،اورانکی لکھی ہوئی یہ سطرہماری نجات کاعنوان بنی ،ہم نے قرآن پاک کے رموز سیدناحسینؓ سے سیکھے ہیں -ان کی روشن کی ہوئی آگ سے ،ہم نے آزادی کے شعلے اکھٹے کیے ہیں -‘‘

اقبال نے تلاوتِ قرآن کے آداب بیان کرتے وقت کہا تھا:

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اقبال کے مفسروں کی وساطت کے بغیر خود اقبال سے لا الٰہ الا اللہ کا مطلب سمجھیں- صرف اور صرف اسی طرح ہمیں کلمۂ طیبہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کا مطلب بھی معلوم ہوسکتا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

مراۃ العارفین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔