ایم کیو ایم کی عوامی سیاست میں بحالی ؟/قادر خان یوسفزئی

متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم)، سندھ کے شہری علاقوں کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جو پاکستان میں اردو بولنے والے مہاجر برادری کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے تاہم مختلف لسانی اکائیوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان میں شامل ہے، انہیں صرف اردو بولنے والوں کی واحد جماعت بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بالخصوص مختلف لسانی اکائیاں، متحدہ کے کئی کلیدی عہدوں بالخصوص رابطہ کمیٹی میں شامل ہونے کے علاوہ سندھیوں کو اردو بولنے والے علاقوں سے صوبائی او ر قومی نشستوں کے لئے بھی منتخب کراتی رہی ہے، اے پی ایم ایس او سے سیاسی جماعت میں ڈھلنے کے بعد سندھ کی سیاست کا رخ بدل گیا تاہم کئی متنازع و پیچیدہ معاملات اور لسانی اکائیوں کے ساتھ پرتشدد واقعات نے متحدہ کی شناخت کو نقصان پہنچایا ،متحدہ قومی موومنٹ کی مدو جزر سیاست کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومتوں کا حصہ بھی رہی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی ان کے سیاسی تعلقات خوشگوار ہیں، لیکن انہیں 2016 ء سے شناخت اور بقا کے بحران کا آج بھی سامنا ہے، جب ان کے بانی اور قائد پر عوام سے خطاب کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور پارٹی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ ایم کیو ایم لندن، کے کارکنان اپنے بانی کے وفادار اور جلاوطنی میں کام کر رہے ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان، جس کی قیادت فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کر رہے ہیں، جنہوں نے بانی ایم کیو ایم سے خود کو دور کرنے کی کوشش کی۔ متحدہ قومی موومنٹ سے الگ سیاسی جماعت پاک سر زمین پارٹی نے دوبارہ انضمام کرکے اپنی جماعت تحلیل کردی اور فاروق ستار بھی دوبارہ آن ملے۔
ایم کیو ایم اپنے مضبوط گڑھ اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنا زیادہ تر سیاسی اثر و رسوخ اور عوامی حمایت کی کمی کا شکار ہے۔ پارٹی کو انحراف، تقسیم، تشدد اور بدعنوانی کے الزامات اور سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاک سرزمین پارٹی جیسی دیگر جماعتوں نے بھی چیلنج کیا، جنہوں نے مہاجر ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ بانی ایم کیو ایم نے سندھ کی سیاست میں خلا چھوڑ دیاتھا تاہم بتدریج عوامی سطح پر سیاسی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوگئیں اور بلدیاتی انتخابات سمیت ضمنی الیکشن میں بائیکاٹ کی اپیل نے سیاسی پنڈتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بانی ایم کیو ایم کا اثر رسوخ اب بھی ان کے ووٹروں موجود ہے۔ 2023ء میں ایم کیو ایم نے کراچی کی سیاست میں بحالی کے کچھ آثار دکھائے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ایم کیو ایم انٹرنیشنل کے بینر تلے اس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ہیں، جو کہ 2020ء میں بانی ایم کیو ایم کی جانب سے سوشل میڈیا کے مقبول پلیٹ فارم سے شروع کیا گیا۔ جس کا مقصد پاکستان میں مہاجر برادری اور دیگر گروہوں کے مسائل اور حقوق کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔
ایم کیو ایم انٹرنیشنل مہاجروں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ریلیوں، سیمینارز، ویبنرز، سٹڈی سرکلز، سوشل میڈیا مہم اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتی رہی ہے۔ یہ عمل پاکستان میں جمہوری حقوق اور وفاقیت کے لیے ایک وسیع البنیاد اتحاد بنانے کے لیے دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتوں تک بھی پہنچ رہا ہے۔ ایم کیو ایم انٹرنیشنل، ایم کیو ایم پاکستان کی قانونی حیثیت اور ساکھ کو چیلنج کرتی رہی ہے، اس پر اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہونے اور مہاجر کاز سے مبینہ غداری کا الزام لگاتی ہے۔ یہ پی ٹی آئی اور پی پی پی کی زیر قیادت صوبائی حکومت کو کراچی کے مسائل جیسے کہ مردم شماری، حلقہ بندیاں، ووٹ لسٹ سے ناموں کا اخراج و تبدیلیاں، پانی کی قلت، بجلی کی بندش، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے، ٹرانسپورٹ افراتفری، جرائم، بے روزگاری اور غربت کو حل کرنے میں ناکامی پر بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم انٹرنیشنل کی سرگرمیوں نے کراچی کے مہاجر عوام کی طرف سے کچھ توجہ اور حمایت حاصل کی ہے، جو دیگر جماعتوں کی کارکردگی اور پالیسیوں سے مایوس ہیں۔ ایم کیو ایم کے بعض سابق رہنمائوں اور کارکنوں نے بھی ایم کیو ایم انٹرنیشنل میں دوبارہ شمولیت اختیار کی ہے ۔ ایم کیو ایم انٹرنیشنل کو بعض بین الاقوامی میڈیا اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اراکین پارلیمنٹ اور کارکنوں کی جانب سے بھی ہمدردی اور پذیرائی مل رہی ہے۔
تاہم، ایم کیو ایم انٹرنیشنل کو کراچی میں ایم کیو ایم کی عوامی سیاست کو بحال کرنے کی کوشش میں بہت سے چیلنجز اور قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مین سٹریم میڈیا میں ایم کیو ایم انٹرنیشنل کے واقعات اور بیانات کو بڑی حد تک نظر انداز یا سنسر کیا جاتا ہے۔ دیگر جماعتیں بھی ایم کیو ایم انٹرنیشنل کو ایک متشدد، ریاست مخالف یا غیر متعلقہ گروپ کے طور پر سمجھتی ہیں۔ مزید یہ کہ ایم کیو ایم انٹرنیشنل نے ابھی تک ایم کیو ایم پاکستان سے دست برداری کے لئے قانونی طور پر خود کو الگ سے رجسٹرڈ نہیں کرایا اور نہ ہی عملی طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا لیکن بادی النظر ایسا لگتا ہے کہ ماحول کو سیاسی طور پر ساز گار دیکھ کر آزاد حیثیت میں عام انتخابات میں حصہ لے لیکن اس کے امکانات واضح نہیں، تاحال یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ان کے پاس زمینی سطح پر کتنی عوامی حمایت یا تنظیمی طاقت ہی یا وہ انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے قانونی اور لاجسٹک رکاوٹوں کو کیسے دور کرے گی۔ یہ بھی واضح نہیں کہ وہ مہاجروں کے لیے خود ارادیت یا خودمختاری کے اپنے بنیادی مطالبات کو پاکستان کی سیاست کی حقیقتوں اور مجبوریوں سے کیسے ہم آہنگ کرے گی۔ اس لیے یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ایم کیو ایم انٹرنیشنل ، ایم کیو ایم کی عوامی سیاست کو بحال کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا یہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک معمولی یا علامتی قوت کے طور پر رہے گی۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply