تب اور اب میں آخر کیا فرق ہے ؟۔۔محمد اسد شاہ

19 نومبر، منگل کے دن تقریباً سوا 2 بجے جھنگ چنیوٹ روڈ پر ٹریفک بند تھی – گاڑیوں میں سوار مسافروں کی اکثریت اس بات سے بے خبر تھی کہ اس تعطل کی وجہ کیا تھی – تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ٹریفک رواں ہوئی تو معلوم ہوا کہ جھنگ کے اس نواحی علاقے میں ایک بچی کا قتل ہوا تھا اور لوگ احتجاج کر رہے ہیں –
اگلے دن میں نےاس حوالے سے معلومات حاصل کیں تو جانا کہ مظلوم 12 سالہ بچی 18 نومبر کو عصر کی نماز کے بعد قرآن حکیم پڑھنے کے لیے مسجد کی طرف چلی ، لیکن اس کے بعد کبھی اپنے گھر واپس نہ لوٹ سکی – 19 نومبر کو تقریباً 11 بجے لوگوں نے کھیتوں میں پڑی ایک لاوارث بوری کو کھولا تو معصوم کلی کی لاش ملی-

کھیتوں کے قریب واقع ایک کارخانے کی بیرونی دیوار پر نصب وڈیو کیمرے کی فوٹیج میں دو نقاب پوش نوجوان ایک بند بوری اٹھا کر گزرتے نظر آتے ہیں –
یہ معلومات میرے جیسے عام انسان کے لیے بہت کرب ناک تھیں – میں سوچ سوچ کے ہلکان ہوتا رہا کہ جب بچی وقت پر گھر نہ لوٹی ہو گی تو والدین کی جان پر بن گئی ہوگی – تلاش کرتے کرتے رات چھا گئی ہو گی – لوگ تو رات ہونے پر بستروں میں آرام کرتے ہیں لیکن ان والدین کے نصیب میں آرام کہاں ؟ انھوں نے جانے کس کرب میں بھاگ بھاگ کر اور بچی کی تلاش میں سرگرداں رات گزاری ہو گی – جس اذیت سے ہر لمحہ وہ گزرے ، اس کا تصور ناممکن ہے – ہم جیسوں کے لیے تو یہ سوچنا ہی اذیت ناک تھا – ان چودہ ، پندرہ گھنٹوں میں خود وہ معصوم بچی کس کس عذاب سے گزری اور کس بے بسی میں کتنی بار مری ہو گی –

ایک رفیقہ کار نے مجھے واٹس ایپ کے ذریعے اسی بچی کی تصویر بھیجی – تصویر اس لمحے کی تھی جب اس بوری کو پھاڑا گیا تھا – بوری کھلی تو اندر بچی ، ٹانگیں سمیٹے اکٹھی ہوئی پڑی تھی – تصویر پر نظر پڑی اور میرے وجود میں کپکپی طاری ہو گئی – اس وقت میں کھڑا تھا ، لیکن فوراً بیٹھ گیا – آنکھوں میں جیسے سیلاب جمع ہو گیا لیکن روکنا پڑا ۔۔
ع : “مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے !”

کل 21 نومبر کی سہ پہر کو خبر ملی کہ خیبر پختونخواہ کے شہر مانسہرہ میں 5 سال کی ایک معصوم بچی ایک ویران گڑھے سے ملی ہے – یہ بچی 4 دن پہلے گم ہوئی تھی – اس کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی اور پھر اس ویران گڑھے میں زندہ پھینک دیا گیا – 4 دن اور راتیں بلند پہاڑی علاقے کی یخ بستہ سردی میں ایک گڑھے میں تڑپتے رہنے کے بعد جب وہ ملی تو ہسپتال پہنچتے ہی اللہ کے پاس چلی گئی –

پاکستان میں اس قسم کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ، لیکن گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے مسلسل ہو رہے ہیں – ہر بار ہم جیسے عوام اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں – لیکن مجھے یاد آ رہا ہے کہ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ عوام کی اس اذیت میں چند نمایاں لوگ بھی شامل ہوئے جب دو سال قبل ایسا واقعہ قصور میں ہوا تھا – تب طاہر القادری دوڑے دوڑے وہاں پہنچے اور معصوم بچی کی نماز جنازہ پڑھائی – تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں نے بہت ہنگامے کیے اور بہت توڑ پھوڑ بھی کی – اشتعال کی شدت آسمان کو چھو رہی تھی – ٹی وی چینلز لمحہ لمحہ کی رپورٹنگ کر رہے تھے – کئی دن تک ٹاک شوز کی بارش ہوتی رہی – شیخ رشید ،سراج الحق ، چودھری برادران اور عمران احمد خان کے بیانات میں اس وقت کی حکومت کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا – اور اسے اس وقت کی حکومت کی بد ترین ناکامی ، لاقانونیت اور نااہلیت قرار دیا جا رہا تھا – مجرم کو فوری گرفتار کرنے اور مینار پاکستان کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دینے کے مطالبے کیے جارہے تھے – احتجاج کے لیے “دستیاب” جماعتیں اور ان کے ہمنوا یہ کوشش بھی کر رہے تھے کہ اس وقت کی حکم راں مسلم لیگ (ن) کے مقامی راہ نماؤں کو بھی اس معاملے میں مجرموں کی صف میں شامل کیا جائے – خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے ، تحریک انصاف کے ایک صاحب سر پر ٹوپی رکھے ٹی وی سکرینز پر جلوہ گر ہوئے ، بسم اللّٰہ اور درود پاک پڑھا اور پھر حسب عادت نہایت اشتعال کا اظہار فرمایا اور اطلاع دی کہ اس انسانیت سوز واقعے پر اللہ کا عرش کانپ اٹھا تھا –

آج 22 نومبر کو میں یہ کالم لکھ رہا ہوں – جھنگ میں بچی کے ساتھ درندگی والے واقعے کو 4 دن گزر چکے ہیں اور مانسہرہ والے واقعے کو 5 دن – ابھی تک طاہرالقادری جھنگ یا مانسہرہ نہیں پہنچے ، جماعت اسلامی نے احتجاج نہیں کیا ، تحریک انصاف اور منہاج القرآن والے کارکنوں کو اشتعال محسوس ہی نہیں ہوا – شیخ رشید ، سراج الحق ، چودھری برادران اور عمران احمد خان کے بیانات سامنے نہیں آئے – میڈیا ان کیسز کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ نہیں کر رہا – کسی ٹی وی چینل پر اس حوالے سے کوئی ٹاک شو نہیں ہو رہا -سر پر ٹوپی رکھے کسی صاحب نے بسم اللّٰہ ، کلمہ طیبہ اور درود پاک پڑھ کر یہ نہیں بتایا کہ اب اللّٰہ کا عرش کانپا یا نہیں – مینار پاکستان تو اپنی ہی جگہ موجود ہے لیکن وہاں کسی درندے کو لٹکانے کا مطالبہ اب تک سامنے آیا –
ظلم کی آندھی اندھا دھند چل رہی ہے ، لیکن اب کسی کو وہ کرب محسوس کیوں نہیں ہو رہا جو ہم جیسے کم فہموں کو بار بار اذیت میں مبتلا کر رہا ہے –

Advertisements
julia rana solicitors

انسانیت کب تک ماتم کرتی رہے گی اور بچیاں کب تک ، بچی ہونے کا تاوان ادا کرتی رہیں گی ؟ ہم عوام تو اب بھی اسی کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں ، لیکن جن لوگوں نے دو سال قبل عوام کے دکھ میں “شدید ساتھ” دیا تھا ، اب وہ کہاں گم ہیں؟
شور مچانے والے اب کیوں خاموش ہیں ؟ تب اور اب میں آخر فرق کیا ہے ؟
اقبال نے کہا تھا؛
“ع: کہ درویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاری “-

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تب اور اب میں آخر کیا فرق ہے ؟۔۔محمد اسد شاہ

Leave a Reply