جنس اور جینئس/ ندا اسحاق

سال دو ہزار چودہ میں ناول نگارکیتھرین نکولس نے ایک تجربہ کیا، انہوں نے اپنے نئے ناول کی اسکرپٹ کی کاپیاں پچاس مختلف ایجنٹز کو دو مختلف ناموں سے بھیجیں، پہلے “جارج لیئر” (مرد) کے نام سے ارسال کیں تو پچاس میں سے سترہ ایجنٹز نے ناول چھاپنے کی حامی بھری، جبکہ وہی ناول جب “کیتھرین”(عورت) کے نام سے بھیجا گیا تو صرف دو ایجنٹز کی طرف سے ہاں میں جواب آیا، ریسرچ کے مطابق جنس کی جانب یہ جانبدارانہ رویہ تقریباً ہر شعبہ میں جاب اپلیکیشن پراسس میں دیکھا گیا ہے۔ناول ہیری پارٹر کی لکھاری “جوئین رولنگ”(Joanne Rowling) کو انکے پبلیشر کرسٹوفر لیٹل نے مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنا ناول بیچنا چاہتی ہیں تو کسی فرضی مردانہ نام سے منظرعام پر آئیں اور یہی وجہ کہ “جوئین رولنگ” کو “جے-کے رولنگ” بننا پڑا۔(یہ مغرب کے حالات ہیں، ہمارے ہاں تو معاملات ابھی بھی قدیم زمانے والے ہیں)۔
تاریخ دان ڈین کیتھ سمنٹن کی “جینئس” پر چالیس سالہ ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ خواتین کی ہر شعبہ میں کم نمائندگی کی ایک بڑی وجہ شعبوں میں تخلیق کار(جینئس) کی حیثیت سےابھر کر نہ آنا ہے۔ فلسفہ، آرٹس، سائنس، اکنامکس، سیاست حتی کہ تمام دنیاوی معاملات سے ایک بہت لمبہ عرصہ اس جنس کو دور رکھنے کا نقصان صرف اس ایک مخصوص جنس کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو ہوا ہے۔ عظیم خاتون لکھاری ورجینیا ولف اپنے مضمون “A one’s own room” میں لکھتی ہیں کہ ایک خاموش کمرہ(جہاں اپنے خیالات کو لکھا جائے)، گزر بسر کے لیے پیسے اور سوچنے کے لیے وقت(بچوں اور گھر کے علاوہ) کسی بھی انسان کے دروازے پر بیشمار مواقعوں کی دستک دے سکتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ عورت کو یہ تین چیزیں کبھی میسر نہیں رہی۔نوبل انعام یافتہ ٹونی موریسن ایک سنگل ورکنگ مدر اپنے کرائے کے گھر ،دو بچوں اور دو جابز کے ساتھ نوبل انعام لینے میں کامیاب ہوئیں، انکے برعکس انکے ساتھی نوبل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگ وے نے اپنے امیر سسرالیوں سے ملنے والے لگژری فلیٹ میں موجود اسٹوڈیو میں اپنی تخلیقی کارکردگی کو انجام پہنچایا، صبح میں لکھتے اور شام کو سیر سپاٹے پر نکل پڑتے تاکہ دماغ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اور بھی نکھارا جائے!!!
تفریق کی ایسی کئی مثلایں موجود ہیں کہ کس طرح سے اس دنیا کی آدھی آبادی کو اپنی کریٹوٹی اجاگر کرنےاور کریئیشن (بچوں کی نہیں بلکہ دماغ کی) سے روکا گیا۔کس طرح ماڈرن اکنامی کے بانی ایڈم سمتھ نے اپنی کتاب “ویلتھ آف نیشن” سے عورتوں کے ذکر کو دور رکھا اور اس پر لکھی گئی سویڈش صحافی کیٹرین مارسل کی کتاب “who cooked Adam smith’s dinner” ایک اچھی کوشش ہے۔
رونے دھونے اور مخالف صنف (مردوں)کو کوسنےکے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں خواتین کو کس طرح سے اس تفریق کا مقابلہ کرنا ہے؟ کیا محض مردوں کو کوسنا، مارچ کرنا یا فیس بک پر مذمت کرنا کافی ہے؟ شاید یہ سب بھی ضروری ہے لیکن اس سےبھی ضروری اس نفسیات تک پہنچنا ہے جو اتنی صدیوں کی تفریق سے اپنی جڑیں ہمارے دماغوں میں مضبوط کر چکی ہے۔یہ نفسیات ہم اپنی نئی نسلوں تک اپنے روزمرہ کے معاملات کے ذریعے لاشعوری طور پر منتقل کررہے ہیں۔آپ کو جان کر شاید حیرت نہیں ہوگی کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ سے(ویسے اس پر ریسرچ کی ضرورت نہیں تھی) یہ بات سامنے آئی کہ مردوں کے مقابلے خواتین کو تفریق کا زیادہ سامنا خود خواتین سے ہی ہے، یہ تفریق جو مردوں نے شروع کی، صدیوں کی جدوجہد سے اب پورے معاشرے میں آٹو موڈ پر چلی گئی ہے، اپنی ہی جنس کی جانب اس تفریقی رویے کو سائیکالوجسٹ “بلائنڈ اسپاٹ” کہتے ہیں۔اس تفریق کی ثقافت اور نفسیات کو حقیقی زندگی کے روزمرہ کے معاملات میں مٹانے(کم کرنے) کی ضرورت ہے۔اس جانبدارانہ رویے کو ان ماڈرن پڑھی لکھی ماؤں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو گوگل پر اپنے بیٹے کے لیے “is my son gifted or genius“ اور بیٹیوں کے لیے “is my daughter overweight or pretty” ٹائپ کرکے خود کو تسلی دیتی ہیں(ایک ریسرچ کے مطابق)۔ اپنی بیٹیوں کو کیوٹ گڑیا ڈورا، ایلسا اور کسی پرنس چارمنگ کی کہانی سنانے کی بجائے فزسسٹ لیز مائیٹنر اور میری کیوری کے نام سے روشناس کرائیں۔ ہمارے جنس کے پاس جینئس رول ماڈلز آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، ہمارے روز مرہ کے چھوٹے اور بظاہر معمولی جانبدارانہ اور تفریقی رویے ہماری نئی نسل کا کانفیڈنس توڑ دیتے ہیں۔ان رویوں پر غور کیجئیے اور انہیں بدلیے، بہت ممکن ہے اس تفریق کو مٹانے کے لیے روڈ پر شور مچانے سے زیادہ گھروں میں رویے اور سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بدلاؤ حقیقی دنیا میں تو لایا جا سکتا ہے لیکن فیس یا ٹویٹر کے مایا جال میں نہیں۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply