زمین گھوم رہی ہے اور اپنے ساتھ ہر شے کو لے کر۔ یہ زمین کے محور کے گرد روز کا ایک چکر لگائے گی۔ جب ہوائیں اس گھومتی سطح کے ساتھ سفر کرتی ہیں تو یہ سیدھی لکیر میں جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن زمین کی فرکشن اور ہوا کی confinement اس راستے کو روک دیتی ہے۔ اگر ہم زمین کو اوپر سے دیکھ رہے ہیں تو دیکھیں گے شمالی نصف کرے میں ہوائیں دائیں کی طرف زیادہ جاتی ہیں جس کی وجہ زمین کی گردش ہے۔ اور اس کی وجہ سے خاص طور پر خطِ استوا سے دور موسم گھومتا ہے۔ طوفان گھومتے ہیں اور چھوٹی آندھیاں بھی۔ طوفان کے مرکز میں اس کی آنکھ ویسے ہے جیسے پہیے کا hub۔ اور ہر پہیے کو گھومنا ہے کیونکہ زمین گھوم رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینٹارٹیکا پر بادل گہرے ہو رہے ہیں۔ ہر ایک کے اندر پانی کے اربوں مالیکیول گیس کے طور پر پائے جاتے ہیں۔ یہ آکسیجن اور نائیٹروجن کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔ جب بادل ٹھنڈا ہوتا ہے تو یہ سست پڑ جاتے ہیں۔ اگر سست مالیکیول برف کے نوزائیدہ کرسٹل سے ٹکرا جائیں تو یہاں رک جاتے ہیں۔ یہ برف کے lattice کا حصہ بن جائیں گے۔ برف کا گالہ بننا شروع ہو گیا ہے۔ اس کی چھ اطراف سے پانی کے مالیکیول اس کے ساتھ آ کر چپک رہے ہیں۔ ایک اور ایک مالیکیول کر کے یہ کرسٹل بن رہا ہے۔ گھنٹوں تک اسی طرح بڑھتے بڑھتے یہ اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ گریویٹی نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے اور یہ نیچے کی طرف رواں دواں ہے۔
نیچے اینٹارٹٰک برف کی شیٹ ہے۔ یہ دنیا میں کہیں پر بھی سب سے زیادہ اکٹھی ہونے والی برف ہے۔ ہزاروں کلومیٹر پر پھیلی ہوئی اور پانچ کلومیٹر موٹی۔ یہ اس قدر بھاری ہے کہ اس کے اضافی وزن سے یہ براعظم نیچے دبا ہوا ہے۔ برف کے اس وسیع و عریض خطے میں نظر آنے والی تمام برف کے مالیکیول برف کے گالے کے طور پر یہاں گرے تھے اور بہت طویل عرصے سے جمع ہوتے گئے ہیں۔ کچھ پانی کئی میل سالوں سے منجمد صورت میں یہاں پر ہے۔ اس اثنا میں کرسٹل میں یہ مالیکیول مسلسل مرتعش ہیں لیکن کبھی اتنے تیزی سے نہیں کہ یہ مائع بن سکیں۔
دوسری طرف، ہوائی کے آتش فشاں سے لاوا نکلا ہے۔ ساڑھے چار ارب سال قبل جب زین بنی تھی، تب دے آج تک پہلی بار اس کے مالیکیول جب 600 ڈگری سینٹی گریڈ تک سرد ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کی سطح پر توانائی کی سپلائی سورج سے آتی ہے۔ دھوپ پتھروں، فضا اور سمندروں کو گرم کرتی ہے۔ پودوں میں شوگر کی پیداوار کا ایندھن ہے۔ جب تک توانائی کی تقسیم میں عدم توازن ہو گا، تو چیزیں تبدیل ہو سکیں گی۔ گرتی بارش کی حرکی توانائی پہاڑوں میں کٹاؤ کر سکتی ہے۔ خطِ استوا پر اضافی توانائی ٹراپیکل طوفان لاتی ہے ہے۔ سمندر سے پانی اڑا کر بلندوبالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر گراتی ہے۔ لہروں کو ساحلوں سے ٹکراتی ہے۔
پودے توانائی کو ذخیرہ کرتے ہیں، شاخیں، پتے، پھل اور بیج بناتے ہیں۔ بالآخر، یہ کم درجے کی حرارت کی صورت میں ختم ہوں گے۔ بیج بچ رہیں گے۔ یہ جینیاتی انفارمیشن کے پیکج ہیں۔ دھوپ کے فوارے استعمال کرتے ہوئے اس چکر کو دوبارہ شروع کرنا ان کی قسمت ہے۔
ہمارا سیارہ اس لئے زندہ ہے کہ آسمان سے اسے توانائی مسلسل مل رہی ہے۔ اور یہ اسے کسی مستقل ایکولیبریم میں جانے نہیں دیتی۔ توانائی سورج سے زمین تک بہتی ہے۔ سمندر، فضا، زندگی تک پہنچتی ہے اور پھر واپس ریڈی ایشن کے ذریعے خلا میں حرارت کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ جتنی مقدار میں توانائی آ رہی ہے، اتنی ہی جا رہی ہے۔ لیکن زمین توانائی کے بہاؤ میں ایک عظیم اشان ڈیم ہے۔ جو کہ اس کو ذخیرہ کر کے اس قیمتی شے کو انواع و اقسام طریقوں سے استعمال کر کے باقی کائنات کو لوٹا دیتی ہے۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں