کچھ دیر پہلے مکالمہ پرمعروف ناشر ادارے “عکس” کا حقیقی عکس کے زیرِ عنوان مسلم انصاری صاحب کی تحریر شائع کی گئی ۔جس میں انہوں نے پاکستان کے نامور ادیب حسن منظر صاحب کی کتاب کی اشاعت اور ادارہ عکس پبلیکیشنز کے سی ای او محمد فہد کے حوالے سے حسن منظر صاحب کا موقف بیان کیا۔حسن منظر صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کی اشاعت کے حوالے سے متعدد بار محمد فہد سے رابطے کی کوشش کی،لیکن میری کئی ای میلز کے جواب میں صرف ایک بار رابطہ کیا گیا۔ اب مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میری اجازت کے بغیر ’’عکس پبلشرز‘‘ والوں نے میری کتاب ’’گزرے دن‘‘ کا اشتہار جاری کر دیا ہے جس کی اشاعت کی انھیں قطعی اجازت نہیں ہے ،یہ سراسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت ہے اس کتاب کے حقوق ’’بک کارنر،جہلم‘‘ کو دئیے جا چکے ہیں اور وہی اس کتاب کو چھاپنے کے مجاز ہیں انہی کی کتاب اصلی تصوّر کی جائے۔
مضمون نگار مسلم انصاری کے مطابق محمد فہد نے حسن منظر صاحب کی ایک عزیزہ گوہر تاج جو امریکہ میں ہوتی ہیں، سے ڈاکٹر صاحب کا حوالہ دے کر دو لاکھ روپے اینٹھنے کی کوشش بھی کی ۔ اس بات کی حقیقت جاننے کے لیے مکالمہ نے محترمہ گوہر تاج صاحبہ سے بھی رابطہ کیا،اور اُن کا موقف لیا۔
اس معاملے میں مکالمہ نے ادارہ عکس کے سی ای او محمد فہد سے رابطہ کیا تو انھوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں معیاری کاغذ کے بحران کی وجہ سے کتاب کی پرنٹنگ میں تاخیر ہو رہی تھی جس سے محترم حسن منظر کو آگاہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں کاغذ کی دستیابی کے بعد پرنٹنگ 13 جون کو ممکن ہوئی اور حسن منظر صاحب کو آگاہ کر کے جولائی میں کتاب کی لانچ کا وعدہ کیا گیا۔ س27 جون کو محترم حسن منظر نے ایک عدد ٹائٹل بھیج کر فرمایا کہ 5 جولائی تک کتاب بھیجی جائے جس پہ ان سے عرض کی گئی کہ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے بائنڈنگ کا کام اس قدر جلد ممکن نہیں ہے۔ اسکے بعد موجودہ معاملات ہو گئے۔ محترم محمد فہد کا کہنا تھا کہ کتاب کی اشاعت پہ ادارے کے لاکھوں روپے لگے ہیں سو اشاعت کی تنسیخ اس مرحلے پر ممکن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ ہم دیر کے مجرم ہیں لیکن معاملات کو اس نہج پہ پہنچانے میں کچھ “مہربانوں” کی کارستانی ہے۔ کچھ دیگر الزامات کی بابت انکا کہنا تھا کہ حسن منظر بہت سینئر اور محترم ادیب ہیں، اس لیے کوئی ایسا جواب نہیں دینا چاہتا جو گستاخی شمار ہو۔ان کا کہنا ہے کہ 600 صفحات کی کتاب ہم نے چار پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے شائع کی ہے،نقصان ہمارے ادارے کا ہوا ہے نا کہ منظر حسن صاحب کا،کیوں کہ ہم نے ان سے کوئی پیسہ نہیں لیا،نہ کوئی وعدہ کیا،نقصان بھی ہمارا ہُوا اور بدنامی بھی ہمارے ادارے کی ہوئی ہے۔
گوہر تاج صاحبہ نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے مکالمہ کو بتایا کہ عکس ادارے کے سی ای او محمد فہد نےمجھ سے براہ راست دو لاکھ روپے نہیں مانگے تھے، بلکہ مجھ سے سو کتابیں خریدنے کی خواہش ظاہر کی تھی، تاکہ و ہ بڑے ادیبوں کو میری طرف سے میرے دستخط کے ساتھ تحفتاً پیش کر سکیں۔ اور اس طرح کتاب کی پبلسٹی ہوسکے۔ بقول ان کے چونکہ خود حسن منظر صاحب اپنی پبلسٹی کرنے والے انسان نہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کتاب کی کیا قیمت ہے تو انہوں نے بتایا کہ دو ہزار۔ اس طرح سے دو لاکھ روپے سو کتابوں کی قیمت بنتی ہے۔ وہ اس پر بھی راضی تھے کہ اگر سب نہیں تو اپنے دوستوں سے بھی کہہ سکتی ہوں یعنی جو بھی مدد ہو سکتی ہے ۔ وہ یہ ادب کے نام پہ بہت شکریہ کے ساتھ قبول کریں گے۔میں نے کسی قسم کے فیصلہ سے پہلے تہمینہ جو میری دوست اور حسن منظر کی بہن ہیں سے رابطہ کیا۔ گو پیسہ بھیجنا نہ بھیجنا میری مرضی پہ تھا ۔ فہد صاحب نے سپورٹ چاہی تھی، لیکن شاید ان کا طریقہ غلط تھا کہ وہ کہیں سے میرا فون نمبر لے کے اس طرح مجھ سے رابطہ کریں۔یہ جانتے ہوۓ کہ حسن منظر میرے قریبی دوست اور بھائیوں کی طرح ہیں۔تہمینہ نے بتایا کہ اب معاہدہ ختم ہو چکا ہے اور جہلم بک کارنر والے اسکے حقوق لے چکے ہیں۔ اس طرح بات ہی ختم ہوگئی ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں