طاقت کی حرکیات اور اسوہ حسن و حسین ۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

(مفتی امجد عباس صاحب کی خدمت میں)

حکومت پبلک پراپرٹی ہوتی ہے۔ اس پر کسی کا  نسلی اور قومی حق نہیں ہوتا، سوائے یہ کہ کسی عقیدے کی بنا پر تسلیم کروایا جائے۔ حکومت کا حصول طاقت سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ہمیشہ طاقت ور ہی حکومت کرتا ہے۔ پہلے زمانوں میں یہ طاقت خاندانی اور قبائلی عصبیت کے بل بوتے پر حاصل کی جاتی تھی، نسل در نسل بادشاہت چلتی تھی۔ انسانی سماج کے ارتقاء نے جمہوریت کی صورت میں عزل و نصب کا اختیار عوام کو دےدیا تو اب حکومت میں وہی آ سکتا ہے جو عوام کی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اب نسلی عصبیت کی طاقت اتنی کارفرما نہیں، اب سیاسی عصبیت کی طاقت ہوا کرتی ہے۔اب طاقت کے حصول کی صورت کچھ بدل گئی ہے، لیکن حقِ حکومت کا اصول اب بھی وہی ہے کہ حکومت اسی کو ملتی ہے جس کے پاس طاقت ہے۔ حکومت میں موجود طاقت نسلی عصبیت ہو یا سیاسی، اس کی تبدیلی اس سے زیادہ مضبوط عصبیت قائم کیے بنا ممکن نہیں ہوتی۔

ان تمہیدی کلمات کو مد نظر رکھتے ہوئے، بنو امیہ، اور ان کے ساتھ حضرت حسن اور حسین کے طرزِ عمل کی تففہم کی ایک کوشش کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ بنو امیہ قبل از اسلام ہی ایک مضبوط نسلی سیاسی عصبیت کے حامل تھے۔ان کی اس حیثیت کو کوئی چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے دین اور ایمان کی بنیاد پرقبائلی عصبیتوں  سے بلند اہل، ایمان کی ایک عصبیت قائم کر لی جو بنو امیہ سے زیادہ طاقت ور عصبیت تھی۔ یوںبنو امیہ سے پہلی بار مکہ اور اسی نسبت سے تمام عربوں کی سیاسی قیادت چھن گئی۔ خلافت راشدہ کے تیس برس کے بعد انہیں دوبارہ حکومت مل گئی۔ حضرت حسن نے حضرت معاویہ کی طاقت  اور اپنی کمزوری  کا درست موازنہ کرتے ہوئے حق حکمرانی ان کے حوالے کر دیا، یوں حکومت پر طاقت ور کے ابدی حق کو تسلیم کر لیا۔

بنو امیہ حقِ حکومت کسی طور چھوڑ نہیں سکتے تھے، چھوڑ بھی دیتے تو کسی  طور نچلے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ان کو حکومت سے علیحدہ کرنا، سیاست  سے بے دخل کرنا، اور نظر انداز کرنا عملاً ممکن ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو سفیان کے اسلام کے اعلان کے ساتھ ہی اس کے گھر کو دارالامن قرار دے دیا، ہر موقع پر اس کو نمایاں مقام دیا، طائف کا گورنر لگایا، بلکہ بنو امیہ کے بہت سے لوگوں کو سیاسی عہدے دئیے۔ یہی صورت چاروں خلفاء کے دور میں رہی۔ حکومت میں ان کی شمولیت بڑھتی چلی گئی۔ البتہ، حضرت علی نے بنو امیہ کے تمام  عاملین کو یک قلم معزول کر کے ان کو سیاست سے بے دخل کرنے کی ایک کوشش کی، جس کا ردعمل ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ بنو امیہ، بنو ہاشم کو شکست دے کر حکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ طاقت کی حرکیات ہیں، غلط یا درست، مگر ہوتا یہی ہے، اس کو روکنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

سب جانتے تھے کہ ایک بار حکومت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد بنو امیہ اب اس حکومت کو اپنے خاندان سے نکلنے نہیں دیں گے۔  لیکن پھر بھی اپنے طور پر کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے مشورے سے حکمران کے نصب کی جو روایت خلافت راشدہ سے چلی آ رہی ہے وہ اگر حضرت معاویہ کے خلیفہ بننے میں پوری طرح برتی نہ جا سکی تو ان کے بعد دوبارہ برقرار رکھی جا سکے۔ اسی لیے حضرت معاویہ سے معاہدہ میں یہ لکھوایا گیا کہ وہ کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کریں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔ بنو امیہ سے زیادہ دیر حکمرانی کی کرسی بچائے رکھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ طاقت کے اشاریئے ہیں، جو ظاہر ہو کر رہتے ہیں۔ سیلاب کے آگے بند نہیں باندھے جا سکتے۔

اصولاً دیکھا جائے تو حضرت معاویہ بھی خلافت کی کرسی کے لیے کوئی درست حق یا دعوی نہیں رکھتے تھے لیکن حضرت حسن نے حالات کی ناگزیریت کو قبول کیا ، وہ چاہتے تو جنگ کر سکتے تھے۔ لیکن جان چکے تھے کہ لڑنا عبث ہوگا، جو نتیجہ جنگ کے بعد نکلنا تھا، وہ بغیر جنگ کے ہی انہوں نے ہو جانے دیا۔ اب اس  وقت کی سیاسی اور قبائلی عصبیتوں کو ذہن میں لائیے اور  سوچیے کہ حضرت حسن کو اس  فیصلے کے لیے کتنی بصیرت، ہمت اور تحمل درکار ہوگا، اپنوں اور غیروں کے کتنے طعنے ہوں گے، بزدلی کے کتنے القابات ہوں گے جوآپکو سننے اور سہنے پڑے ہوں گے، لیکن آپ نے حالات کا درست مطالعہ کر کے وہی فیصلہ کیا جو بالکل مناسب تھا، یوں ایک بے فائدہ مہم جوئی کر کے لوگوں کا خون رائیگاں بہانے کی بجائے آپ نے حالات کے جبر کو تسلیم کر لیا۔

یزید کا حکومت میں آنا، اگرچہ اس معاہدے کی خلاف ورزی تھی جو حضرت معاویہ اور حضرات حسنین میں ہوا تھا۔ تاہم غلط یا درست، مگر یہ ناگزیر تھا۔ حضرت معاویہ ہوں یا یزید، دونوں کا حکومت میں آ جانا اصولا درست نہیں تھا، لیکن حضرت حسن نے حالات کا درست مطالعہ کرتے ہوئے ، طاقت کی حرکیات کو سمجھتے ہوئے ایک طاقت ور کو اس کا حق حکمرانی دے دیا، لیکن حضرت حسین نے اہل عراق کی سیاسی عصبیت کی طاقت کے بھروسے پر بنو امیہ کی سیاسی عصبی طاقت کو شکست دینے کی ایک کوشش ضروری سمجھی۔ آپ نے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی، آپ نے ناگزیریت کو بدلنے کی کوشش کی۔ نتیجہ وہی نکلا، جو حضرت حسین کے ناصحین نے مکہ چھوڑنے سے پہلے ان کو بتا دیا تھا۔ اس بار جو نتیجہ نکلنا تھا وہ، صد افسوس، کربلا کے میدان کو سرخ کر کے بھی نکل کر رہا۔ حضرت حسین کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر نے بنو امیہ کی طاقت ور عصبیت کا کمزورہاشمی عصبیت کی مدد سے آٹھ سال مقابلہ کیا، لیکن نتیجہ وہی نکلا، حکومت کی کرسی طاقت ور کے ہی ہاتھ آ کر رہی۔

حضرت حسن ہی کی طرح، یزید کے وقت موجود صحابہ نے بھی حالات کا درست مطالعہ کیا، طاقت ور کا حق حکمرانی تسلیم کرلیا، ناگزیریت کو قبول کر لیا، ہونی کو ہو جانے دیا اور یزید کو خلیفہ مان لیا۔

یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ یزید کے ظالم اور جابر ہونے میں تو کوئی شک نہیں لیکن اس کی طرف کفر کی نسبت محض سیاسی پراپگنڈہ ہے۔ ایسے ہی جیسے عمران خان کے سیاسی مخالفین اس کو یہودی ایجنٹ کہ دیتے ہیں۔ نواز شریف، بے نظیر کو سیکیورٹی رسک کہا کرتے تھے، سیاسی مخالفین کے خلاف ایسے سیاسی بیانات کا پایا جانا قابل فہم ہے، اگر یہ حقیقت ہوتی کہ یزید کھلم کھلا کفر کا مرتکب تھا تو صحابہ کی ایک بڑی تعداد کبھی اس کے ہاتھ پر بیعت نہ کرتی، بالفرض یزید نے کفر اختیار بھی کر لیا ہوتا تو بھی سیاسی مصلحت کا تقاضا تھا کہ اس کا اظہار نہ کرتا کہ یہ ایسی بات تھی جس کی وجہ سے صرف بنو ہاشم، جو  بنو امیہ کے واحد سیاسی حریف تھے، ہی نہیں سارا عرب اس کا مخالف ہو سکتا تھا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر صالح اور ظالم حکومت کے خلاف کوئی ردعمل نہ کیا جائے؟

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حکومت کا حصول اسلام کا ایسا کوئی ناگزیر تقاضا نہیں جس کی خاطر جان جوکھوں میں ڈالی جانا کسی بھی کوئی دینی مطالبہ ہو۔ قرآن مجید میں کوئی ایک آیت بھی نہیں جو حکومت کے حصول کو مسلمانوں پر لازم کرتی ہو۔ البتہ حکمرانوں کو عدل و انصاف کے ساتھ شریعت کے نفاذ کا پابند کرتی ہے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں خوفِ خدا دلایا گیا ہے، آخرت میں جواب دہی سے متنبہ کیا گیا ہے۔ کوئی ایک بھی آیت نہیں جو حکم دیتی ہو کہ مسلمانوں پر غیر صالح حکومت کا بدلنا کسی بھی درجے میں کوئی واجب کام ہے۔

موسی نے فرعون سے حکومت چھین نہیں لی تھی۔ برسوں اس کے مظالم سہتے رہے، لیکن علَم بغاوت بلند کیا نہ ہتھیار اٹھائے۔ جالوت بنی اسرائیل پر چڑھتا چلا آ رہا تھا، بنی اسرائیل نے اس وقت کے نبی سے خود درخواست کی کہ کوئی لیڈر مقرر کیجیے جو ہمیں ان دشمنوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائے۔ اس پر بھی ان کے نبی نے ان کا مطالبہ فورامان لینے کی بجائے یہ کہا کہ لیڈر مقرر ہو جانے کے بعد کہیں تم اپنی بات سے پھر نہ جاؤ۔ آپ دیکھیے کہ جنگی مہم جوئی کرنے کے لیے ایک نبی بھی اپنی قوم کے لیے کوئی جلد بازی اختیار نہیں کرتا، وہ انہیں دشمن کے خلاف ابھارتا نہیں، بلکہ ان کی اصلاح کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ پھر جب وہ خود تنگ آ کر جنگ کا مطالبہ کرتے ہیں تب بھی ان کی استقامت کے بارے میں اسے اطمینان نہیں ہوتا اور اقدام کرنے میں پس و پیش کرتا ہے۔ یہ کہانیاں قرآن نے کیوں بیان کی ہیں؟ ہمارے لیے ان میں غور و فکر کا بڑا سامان ہے۔

حکومت طاقت کا کھیل ہے، حکومت اہل طاقت ہی حاصل کرتے ہیں۔ اہل علم و حکمت کا کام تو بس یہ ہے کہ اہل حکم کو راہ راست پر رکھنے کے لیے، ان کو ظلم سے روکنے کے لیے، ان کو ان کے فرائض یاد دلانے کے لیے ان کو وعظ، نصیحت، تلقین، تنقید اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کے فرائض ادا کرتے رہیں۔ یہی ہدایات ہیں جو قرآن ان کو دیتا ہے۔مصلحین کے لیے اپنے حوصلوں کی آزمائش کے یہ میدان یہی مقرر کیے گیے ہیں۔  اس کے علاوہ ان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر مصلحین خود حکومت حاصل کر بھی لیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ اچھے حکمران ثابت ہوں گے، وہ طاقت کے نشے سے متاثر نہیں ہو جائیں گے، اور اگر وہ اچھے حکمران ثابت ہوں بھی جائیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ  اچھی حکمرانی کا تسلسل ان کے بعد قائم رہ پائے گا۔ ایسے موہوم مقاصد کے لیے خون بہانے تک چلے جانا درست سمجھا نہیں جا سکتا۔ ایسا صرف ایک ہی صورت میں مانا جا سکتا ہے کہ کسی شخص یا خاندان کا نسلی حقِ حکمرانی تسلیم کر لیا جائے اور اس شخص یا خاندان کو معصوم عن الخطاء مان لیا جائے۔

کرنے کا کام ہے تو بس یہ کہ جو لوگ بھی طاقت کے بل پر حکومت  میں آ جاتے ہیں، مقدور بھر ان کی اصلاح کی جائے، چاہے اس راہ حق میں جان بھی دینی پڑ جائے۔ افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے نہ کہ اس کے خلاف تلوار اٹھانا۔ ہتھیار صرف اس صورت میں اٹھائے جا سکتے ہیں کہ جب حاکم جینے کا حق بھی چھین لینے کے درپے ہو جائے۔ یہ فطری حق ہے جس سے اسلام منع نہیں کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ضروری نہیں۔ اگر جناب امجد عباس یا کوئی اور صاحب اس مضمون کا جواب دینا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں ۔۔۔۔ آئیے مکالمے کی فضا کو فروغ دیجیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”طاقت کی حرکیات اور اسوہ حسن و حسین ۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

Leave a Reply