جنرل راحیل شریف کے نام کھلا خط

مفاد عامہ کے ایشیوز کو اجاگر کرنے اور اعلی حکام کے ساتھ اٹھانے کا ایک اچھا طریقہ کھلا خط لکھنے کا ھے۔ قبائلی عوام کن مشکلات اور مسائل سے دوچار ھیں اس ضمن میں پشتون سوشل میڈیا موومنٹ نے چیف آف آرمی سٹاف کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے۔ مسلے کی اہمیت کے پیش نظر اس خط کو اس میگزین کے زریعے آپ سے بھی شریک کیا جا رہا ہے ۔

محترم جنرل راحیل شریف صاحب !
سلام خلوص۔ آپ کی توجہ اس کھلے خط کے زریعے ایک سنگین مسلئے کی طرف دلانا چاھتے ھیں ۔ پچھلے دنوں وانا جنوبی وزیرستان میں ایک دھشت گرد کاروائی ھوئی جس کے ردعمل میں سیکورٹی فورسز نے مرزا عالم خان مارکیٹ کو باوردی سرنگ سے اڑا دیا ۔ یہ انتقامی کاروائی تھی یا ایف سی آر کے تحت اجتماعی ذمہ داری کے تحت سزا مگر نشانہ اس خاندان کو بنایا گیا جس کے سربراہ سمیت کئی فیملی ممبرز عسکریت پسندی کا نشانہ بنے ھیں۔ دھشت گردی کے کاروائی کی سزا مرحوم مرزا عالم خان کے خاندان کو دینا ایسا ہے جیسا آپ کے خاندان پر بھارتی جاسوسی کا الزام لگانا۔

ایسے اقدامات سے کسی کے جذبہ انتقام کو تسکین تو مل سکتی ہے مگر اس کے معاشرے پر بڑے منفی سیاسی اور سماجی اثرات پڑتے ھیں۔ بازار میں دھماکے کا مطلب تو یہ نہیں کہ مارکیٹ مالکان کو قصور وار ٹہرایا جاسکے اور سیکورٹی ناکامی کی ذمہ داروں سے بازپرس اور ان کے خلاف کاروائی کی بجائے مارکیٹ کے مالکان کو سزا دینا کسی بھی قانون میں جائیز نہیں۔ اس اقدام سے سیکوریٹی فورسز کےخلاف عمومی نفرت اور غم وغصہ بڑا ہے۔ ایسے اقدامات عوام کے دل اور ذھن جیتنے کی بجائے غم وغصے کا باعث بنتے ھیں۔ سیکورٹی فورسز اس علاقے میں پہلی دفعہ نہیں گئے بلکہ دس بارہ سالوں سے موجود ہے اور اب ان کو علاقے سے کافی واقفیت ھونی چائیے تھی ۔ ان کو ابھی تک علاقے میں دوست اور دشمن کی پہچان اور ان کے بیچ فرق سمجھ آنا چائیےتھا۔ یہ معلوم ھونا چائیے کہ عسکریت پسندوں کے حمایتی کون ھیں یا تھے اور مخالف کون ھیں۔ دھشت گردوں کے ھاتھوں بے پناہ مالی اور جانی قربانی دینے والے خاندان کو دھشت گرد کاروائی کی سزا دینا کہاں کا انصاف ھے۔ قطع نظر اس کے کہ آیا یہ ایک شعوری کوشش تھی یا لا شعوری مگر یہ اقدام مقامی لوگوں اور سیکوریٹی فورسز کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرنے کی ایک کوشش ثابت ھوئی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے اقدامات کئے جار ھیں جس سے قبائلی عوام میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے اور قبائلی عوام دبے دبے یا کھلے عام احتجاج پر مجبور ھو رہے ھیں ۔ وزیرستان کے قدرتی وسائل کی قبائلی عوام کے مرضی کے بغیر نکاسی اور فروخت ، ان کی جائداد پر ان کی مرضی کے بغیر مارکیٹوں وغیرہ کی تعمیر یا چلغوزے کی آمدنی میں سے نصف حصہ بزور لینا جیسے اقدامات سے فاٹا کے بارے میں ایک نو آبادی کا تصور ابھرتا ہے جیسے وہ پاکستان کا حصہ نہ ھو یا اس پر کسی بیرونی قوت نے قبضہ کیا ھو اور وہ اپنی مرضی سے اس کے قدرتی وسائل لوٹ رہا ھو۔ فاٹا کے بارے میں پالیسیوں اور حکمت عملی پر ازسرنو نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ قبائلی عوام کو غیر سمجھنے یا ان سے غیروں جیسا سلوک کرنے کی بجائے ان کو اس ملک کے برابر کے شہریوں جیسا سلوک کیا جائے اور ان کو بلوچوں کی طرح دیوار سے لگانے کی کوشش نہ کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ھم اس ضمن میں یہ مطالبات پیش کرتے ھیں:
اس افسوسناک اقدام کیلئے مرزا عالم خان مرحوم کی خاندان سے معافی مانگی جائے اور ان کی مارکیٹ کو پہنچنے والے نقصانات کا فوری ازالہ کیا جائے۔ واقعے کی آزادانہ تعقیقات کرائی جائے تاکہ عوام اور سیکورٹی فورسز کے مابین ایسے ناعاقباعت اندیش اقدامات سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ھو۔ مستقبل میں ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے ۔ انتظامیہ اور سیکوریٹی اداروں کی ناکامی کی سزا عام لوگوں کو اور وہ بھی ایسے لوگوں کو جو عسکریت پسندی کے نشانہ رئے ھو انتہائی زیادتی کی بات ہے ۔ مجوزہ فاٹا اصلاحات فوری طور پر نافذ کئے جائے۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply