ثمینہ منال : مردانہ سماجی رویوں کے خلاف مزاحمتی آواز/خواجہ جمشید امام

میری زندگی میں وہ دن بہت اہم ہوتاہے جب مجھے کچھ ایسالکھنا ہوجو میں بہت سالوں سے لکھنا چاہتاہوں اور میرے پاس اپنے خیالات کو لکھنے کیلئے کوئی مضبوط دلیل نہ ہو ٗ صرف وجدان کی طاقت پر سائنسی حقیقتیں نہیں لکھی جا سکتیں لیکن میں ا س کے باوجود وجدان کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت مانتا ہوں کیونکہ اِس میں کوئی دوسر ا شریک نہیں ہوسکتا ۔ ارسطو نے اس کاذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے لیکن ارسطو سے لے کر آج تک چوبیس صدیو ں کے اس فاصلے نے انسانی عقل کے پُلوں کے نیچے سے اَن گِنت سیلاب اور لا تعداد بہتے دریا گزار دیئے ہیں ۔ ماؤ نے کہا تھا کہ تم ایک دریامیں دو بار نہیں نہا سکتے ۔اس لئے کہ دریا ہر لمحہ بدلتا رہتا ہے ۔دوکناروں کے درمیان بہتا ہوا پانی کا عظیم الشان ذخیرہ ہر لمحے اندر اور باہر سے بدلتا رہتا ہے ۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق اللہ نے انسان کی اصلاح کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج کا انسان غار سے نکلے ہوئے انسان سے بھی زیادہ بے رحم اور بے حس ہے ۔کبھی دنیا میں عورت کی حکمرانی تھی تاریخ کے اُس دور کو ماد ر سری دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن ہم جس عہد میں زندہ ہیں یہ پدرسری دور ہے اور نہ جانے کب سے جاری ہے ۔ مرد کی حکمرانی کادور ! ایک بے رحم اور سنگدل دور جہاں ابھی ایک صدی پہلے تک مہذب یورپ میں بھی عورت کو شیطان کی بیٹی یا نامکمل جنس سمجھا جاتا تھا ۔جدیدیت نے انسان کو اندر سے تو تبدیل نہیں کیا لیکن اُسے اپنی  ظاہری بودو باش اپنے ماحول اور ضوابط کے مطابق کرنا پڑی ۔ قوانین نے عورتوں پر زندگی کے بہت سے دروازے وا تو کیے لیکن مرد و ں کے مظالم اور اجارہ داری کے‘‘ ہاتھی دروازے  مقفل نہ ہو سکے ۔

میں نہیں جانتا کہ محترمہ ثمینہ رحمت منال کون ہیں ۔ میں انہیں کبھی نہیں ملا اور نہ ہی اُن کی کتاب ‘‘ محبت کے بعد ’’ سے پہلے میں نے کبھی اُن کی کوئی تحریر پڑھی ہے ۔ جب کسی اجنبی تخلیق کار کی تخلیق ہمارے سامنے ہو تومیں سمجھتا ہوں کہ اُس پر رائے دینا مشکل ضرورہوتا ہے لیکن دلچسپی سے خالی ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ جن تخلیق کاروں کو ہم جانتے ہیں اُن کی تخلیق پر لکھتے ہوئے ٗ بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ اپنے قلم کو اُن کی ذاتی خوبیوں یا خامیوں سے بچا پائیں لیکن جب صرف تخلیق پاس ہو تو پھر ہمیں تخلیق کے اندر سے تخلیق کار نکالنا ہوتا ہے جب کہ یار لوگوں پر تنقیدی مضامین لکھتے ہوئے ہم تخلیق کار کے اندر سے تخلیق نکالتے ہیں ۔میرے پاس صرف محترمہ منال کی شاعری ہے اور اِس میں سے میں نے اُن ذہنی کیفیتو ں کو نکالنا ہے جس میں رہ کر انہوں نے اپنے اشعار کیلئے گنجائش پیدا کی ہے۔ ‘‘ محبت کے بعد ’’ کی شاعری دراصل مختلف اوقات میں ایک عورت کو خارجی دنیا میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کا جمالیاتی ردعمل ہے ۔ ایک چیخ ہے ٗ ایک نوحہ ہے ٗ ایک ماتم و گریہ ہے۔ پاکستان میں چھپنے والی شاید ہی کوئی ایسی نسائی شاعر ی ہو جس سے مستفید ہونے کا موقع مجھے نہ ملا ہو لیکن مجھے یہ لکھنے میں کسی دقت یا پس و پیش کا سامنا  نہیں بلکہ دوٹوک بات تو یہ ہے کہ یہ شاعری ہے اورمردانہ سماج میں ایک عورت کے ساتھ ہونے والی انگنت ناانصافیوں اور اُس کے خوابوں کے محلات کی مسماری کی دردناک منظوم کہانی ہے ۔ غزلوں کی طوالت کہیں بھی آپ کو یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتی اگر ایک قافیہ تین بار بھی استعمال ہوا ہے تو تینوں بار مضامین کی فراوانی نے اُسے نیا رنگ دے دیا ہے ۔ اِس شاعری میں اپنوں کے دئیے دکھ بھی ہیں اورغیروں کے ڈھائے مظالم بھی ۔یہ شاعری بنیادی طور پر اس لئے بھی حیرت انگیز ہے کہ یہ ایک عورت کو ہرسماجی رشتے میں احتجاج کرتا دکھاتی   ہے ٗ میں نے قید تنہائی کی  اذیت بھی دیکھی ہے اور رشتوں اورسماج سے ملنے والا کرب اور اذیت بھی ،سو میں انتہائی ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی اِس شاعری کے بعد بھی نارمل زندگی گزا ررہا ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ۔ الفاظ ہمارے دماغ میں تصویر بنانے کا کام کرتے ہیں ۔لفظ کا تصور کے ساتھ یہی رشتہ ہے لیکن شاعری میں تو اشعار واقعہ کی مکمل منظر نگاری کردیتے ہیں کردار ٗ رویے اوراُن میں چھپی نفرت اور محبت بھی مجسم ہوجاتی ہے ۔

اب آپ خود ہی سوچیں کہ کرب و اذیت کی کسی تصویر کو دیکھنا کتنا تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتا ہے لیکن ساز سے نکلنے والی  آواز جب تڑپا کررکھ دیتی ہے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ ساز پر کیا گزرتی ہو گی ؟ ساحرلدھیانوی نے اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا :
جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سُنی ہے
جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتہ ہے

یہی حالت شاعر یاشاعرہ کی ہوتی ہے ۔ ہماری شاعرہ نے ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح بستیو ں ٗ شہروں دیہاتوں ٗ قصبوں اور صحراؤں کے لا تعداد منظر دیکھے اورپھر انہیں اپنے شعری حسن کا حصہ بنایا ۔ انسان کی مذہب سے محبت بلا کی ہے لیکن جب ہماری شاعرہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ
کسی کلیسا سے گھنٹی چرا نہیں سکتی
مگر خدا پہ بھی ایمان لا نہیں سکتی
گرے ہوؤں کوزمین سے اٹھا نہیں سکتی
مگرکسی کو زمین پرگرا نہیں سکتی

اب یہاں ایک طرف انسانوں کے پیدا کیے ہوئے خدا سے اعلانیہ بغاوت ہے تو دوسری طرف خدا کی تخلیق کردہ مخلوق کی عظمت کا اعتراف بھی   ببانگ دہل ہے ۔ کرب کا بیان کر ب سے بھی زیادہ کربناک ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ منال صاحبہ نے جس کمال مہارت سے اپنے دکھوں کے ساتھ جس جڑت کا اظہار کیا ہے وہ بھی پڑھنے لائق ہے ۔کہتی ہیں :
میں اتنی درد کی دولت کما کے بیٹھی ہوں
کسی خوشی کے غوض کچھ گنوا نہیں سکتی

عقل اورجنون کی ہمیشہ سے اَن بن رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اہل عقل اور اہل جنوں میں بھی ہمیشہ تفاوت دیکھنے کو ملی  ہے ۔منال صاحبہ چونکہ اپنی عقل سے زیادہ اپنے وجدان پر یقین رکھتی ہیں سو اِس کا اظہار کرتے ہوئے بھی کسی تذبذب کا شکار نظر نہیں آتیں بلکہ دو ٹو ک بات کرتے ہوئے کہتی ہیں

دل ہمارے ملک کا سلطان ہے
اس لئے بنتی نہیں سقراط سے

اِس شعرمیں اُن کا وسیع مطالعہ صاف جھلک رہا ہے کیونکہ دل کے فیصلے غیر عقلی ہوتے ہیں جب کہ  سقراط دنیا میں منطق اورعقل کا استعارہ ہے ۔
موجودہ حالات میں ملکی صورت حال پر اس سے زیادہ خوبصورت شعر نہیں کہا جا سکتا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شعر اُن صدمات و واقعات کے تناظر میں ہوا ہو جو منال صاحبہ کو جھیلنے پڑے ہیں لیکن اشعار کی خوبصورتی یہی ہوتی ہے کہ اُس کی مختلف پرتیں کھلتی رہتی ہیں ۔آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
تم ہو لُوٹی ہوئی دکان کامال
اورسب چور کھا رہے ہیں تمہیں

محترمہ منال کی شاعری ایک باوقار اور باحوصلہ شاعرہ کے غیر متزلزل اورمصمم ارادوں سے بھر پورزندگی کی شاعری ہے ۔ جس میں انہوں نے نہ تو نفرتو ں سے ہار مانی اور نہ ہی سفر کی طوالت انہیں تھکا سکی ۔ وہ ایک ناقابلِ تسخیر جذبے کے ساتھ زندگی کا سفر رواں دواں رکھے ہوئے ہیں ۔ یہی وہ زندہ کردار ہیں جو حوصلے اورجرات کے ساتھ سماج کی ہر برائی کا سامنا کرتے ہیں اور سماجی ترقی میں اہم کردار اداکرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء کے عمل میں تیز تر اور انسانوں کو بہتر مستقبل کی طرف گامزن کرتے ہیں ۔ اُن کے یہ چند اشعار واقعی اُن کے حوصلے کی وسعتوں کو سمجھنے کیلئے کافی ہوں گے

مت ڈرا مجھ کو تُو کسی غم سے
میں زمانے سے ڈرنے والی نہیں

میں نے صحرا کی خاک چھانی ہے
میں مسافت سے تھکنے والی نہیں

اپنا رستہ میں خود بناؤں گی
تیرے رستے پہ چلنے والی نہیں

میرے نزدیک ماں کی محبت کائنات کا سب سے سچا جذبہ ہے اور تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناطے مجھے ہمیشہ بردہ فروش حملہ آوروں سے نفرت رہی ہے کیونکہ وہ بچوں کو ماؤں سے دور کر دیتے تھے اور پھر وہ کبھی مل نہیں پاتے تھے ۔یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگتی ہے کہ بچے کو ما ں سے دورکیسے رکھا جا سکتا ہے ۔ منال صاحبہ کی شاعری میں مجھے جگہ جگہ اپنے بچوں سے جدائی کے اشعار ملے جو واقعی دل ہل دینے کیلئے کافی تھے ٗ جنہیں پڑھ کر میں دیر تک یہی سوچتا رہا کہ بردہ فروشی ابھی ختم نہیں ہوئی

میں ایک ماں ہو ں میرا صبر آزمایا گیا
میں اپنے بچوں کے نزدیک جا نہیں سکتی

تم نے ماں باپ کو رُلایا تھا
اوربچے رُلا رہے ہیں تمہیں

اپنے بچے کو چاہے کچھ کہہ لوں
میں ترانام رکھنے والی نہیں

ایک دن جاؤں گی میں چھو ڑ کے دنیا لیکن
اپنے بچو ں کو کبھی بھی نہ جدائی دوں گی

Advertisements
julia rana solicitors

محترمہ رحمت منال کی شاعری بلاشبہ عصرِ حاضر کے جدیدمردانہ رویوں کے خلاف ایک مزاحمت بھی ہے اورنئی نسل کیلئے حوصلہ بھی ۔میں بردارم سہیل احمدلو ن کاانتہائی شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اتنی خوبصورت ٗبہترین اورقابل ِقبول شاعری مجھے عطیہ کی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply