ہماری سوچ’ تعلقات اور محبت/عاصمہ حسن

یہ ہماری سوچ ہی ہے جو ہمیں بناتی اور بگاڑتی ہے اورہم اپنی اسی سوچ کی بناء پر اپنے قریبی  رشتہ داروں اور ان کے ساتھ تعلقات کو خراب کر لیتے ہیں ـ اللہ تعالیٰ نے ہم سب انسانوں کو مختلف سوچ کا حامل بنایا ہے کیونکہ ہم سب کی مختلف حالات اور ماحول میں پرورش ہوتی ہے ـ ہمارے خیالات ہماری شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں، ـ ہماری سوچ ہی ہمارے مزاج  ‘ احساسات اور جذبات پر اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہے ـ۔

اگر دیکھا جائے تو انسان دن کے چوبیس گھنٹوں میں مختلف نوعیت کی صورتحال سے گزرتا ہے اور کئی مسائل کا سامنا کرتا ہے، ـ چاہے اَن چاہے لوگوں سے مِلتا ہے ـ ،کئی بار اپنی سوچ اور مرضی کے برعکس فیصلے کرتا ہے ـ بہت سارے ایسے کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جنھیں کرنے کا دل تک نہیں ہوتا یا اُس وقت ہمت نہیں ہوتی لیکن ذمہ داری کا احساس ہم سے وہ کام کرواتا ہے ـ بالکل اسی طرح کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم اپنی مرضی چلا کر اپنے پیاروں کو خفا بھی کر دیتے ہیں اور بعض اوقات ان کو خود سے دور بھی کر لیتے ہیں۔

ـیہ عام انسان کی فطرت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ دوسراشخص اُس کا تابع ہو، ـ جو وہ کہہ رہا ہے وہ درست ہے اور اسے بغیر کسی حِیل و حُجَت کے مَن و عن مان لیا جائے اور نہ صرف مان لیا جائے بلکہ سراہا بھی جائے ـ اپنی تعریف سننے کی خواہش بھی خوب پائی ہے انسان نے ،جو اسے خود پسندی میں مبتلا کر دیتی ہے۔

ہماری اِسی فطرت کی وجہ سے ہم سے جُڑے کئی رشتے اپنی خوبصورتی کھو دیتے ہیں چونکہ رشتے بہت نازک ڈوری سے بندھے ہوتے ہیں اس لئے ان کو ٹوٹنے یا بکھرنے میں دیر نہیں لگتی ـ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی انسان کٹھ پتلی بن کر نہیں رہنا چاہتا اور نہ ہی ہر حکم سر تسلیمِ خم کر سکتا ہے۔

اختلافِ رائے کا حق سب کو حاصل ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن اختلاف کو بس اختلاف کی ہی حد تک محدود رہنا چاہیے، اسے اَنا کا مسئلہ نہیں بننا چاہیے، ـ بات ہوئی ‘ اختلاف ہوا ‘ اس پر بحث ہوئی بات ختم ـ ۔۔اس اختلاف کی وجہ سے رشتوں کی خوبصورتی خراب نہ ہو اور نہ ہی ان کا تقدس پامال ہو، تبھی ہمارے رشتے بچ سکتے ہیں۔ ـ

بے جا پابندیوں اور ہر معاملے میں دخل اندازی اور مداخلت کی وجہ سے نہ صرف گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ رشتوں کے آپس کا پیار’ عزت و احترام بھی داؤ پر لگ جاتا ہے ـ ہر رشتے اور تعلق کو اگر ہم صرف اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق ڈھالنا چاہیں گے تو وہ رشتہ دم گھٹنے سے وقت سے پہلے ہی مَر جائے گا۔ ـ

ہمارے نظریات’ ترجیحات اورتجربات مختلف ہوتے ہیں جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک دوسرے کی رضا جانے بغیر اپنی مرضی اور فیصلہ مسلط کر دیں ـ یہی وہ وجہ ہے کہ لائف پارٹنرز کے درمیان بھی چپقلش شروع ہو جاتی ہے اور دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہے اور نوبت علیحدگی تک آ جاتی ہے جس کا نقصان ان کی اولادوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

اگر ہم اس طرح سے سوچیں کہ اللہ تعالیٰ  نے ہم سب کو ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف بنایا ہے بلکہ منفرد صلاحیتوں ‘ توانائیوں ‘ سمجھ بوجھ ‘ عقل ‘ پسند نا پسند اور خواہشات و مقاصد سے نوازا ہے تو ہمیں بھی اس نعمت کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے تشخص کو پامال نہیں کرنا چاہیے۔

زندگی بہت مختصر ہے اور صرف ایک بار ہی ملتی ہے تو کیوں نہ اِس کو بھرپور انداز میں گزارا جائے، ـ ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے’ ساتھ نبھاتے ہوئے اور قوتِ بازو بن کر ایک دوسرے کے راستے کا پتھر ہٹا کر کیوں نہ جیا جائے۔

نقص نکالنے’ تنقید کرنے’ نیچا دکھانے’ کم تر سمجھنے کی بجائے کیوں نہ تعریف کرنا سیکھیں اور حسد کرنے کی بجائے شکرگزاری بڑھا دیں، ـ کیوں نہ اپنی سوچ پر کام کر کے مثبت رویہ اختیار کریں، جس سے نہ صرف ہم پر’ ہماری ذہنی صحت پر اور رشتوں کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ـ ،ہر وقت کی لڑائی ‘ تیراندازی’ الزام تراشی سے بے سکونی پیدا ہونے کے علاوہ رشتوں کی خوب صورتی ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ تعلق اپنی رعنائی کھو دیتا ہے ـ رشتوں کا زوال شروع ہو جاتا ہے وقت کے ساتھ رشتوں میں اکتاہٹ اور چڑچڑا پن آ جاتا ہے اور اسی کھچاؤ کی بدولت دلوں میں نفرت آجاتی ہے اور فاصلے بڑھتے بڑھتے اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ چاہ کر بھی اُن کو مٹایا نہیں جا سکتا اور بالآخر اِن رشتوں کا بوجھ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ہم اُسے اپنے کندھوں سے اتار کر پھینکنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور سکون محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔

جب ہم ایک ساتھ رہ کر ایک دوسرے کی ضروریات اور خواہشات کو سمجھ نہیں پاتے تو خود سوچیں کہ جو رشتے ہم سے دور ہوتے ہیں اور ہمارے درمیان طویل فاصلے حائل ہوتے ہیں وہ کیسے ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کو محسوس کر سکتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غلط فہمیوں کو بڑھاوا ملتا ہے اور دل ٹوٹنے سے رشتے ٹوٹنے تک کی نوبت آ جاتی ہے ـ اور ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ ہم سب کی ترجیحات اور مصروفیات مختلف ہوتی ہیں ‘ ایک دوسرے کو سُن نہیں پاتے’ سمجھ نہیں پاتے’ اپنے دل کی بات نہیں کر پاتے ‘ وقت نہیں دے پاتے ـ جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں ـ۔

رشتوں کو بچانے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے جذبات کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے، جیسا ہم اپنے لیے سوچتے ہیں ‘ یا جیسی توجہ ہم خود کے لیے چاہتے ہیں، ـ جیسے ہمارے خواب’ مقاصد ‘ خوشیوں کا مرکز’ پسند و ناپسند ہوتی ہے، بالکل اسی طرح دوسرے لوگ بھی جیتے جاگتے انسان ہوتے ہیں اور اپنی آنکھوں میں خوابوں کے ٹمٹماتے دیے رکھتے ہیں ـ اُن کو بھی اپنے دل کے ارمان پورے کرنے اور اپنے بارے میں فیصلے لینے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔

اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اُسے اُس پنجرے میں قید نہیں کرنا چاہیے بلکہ محبت تو یہ ہے کہ دوسرے شخص کو اس کی خامیوں کے ساتھ اپنایا جائے اور اس کی کمزوری کو اپنی محبت سے اس کی طاقت میں بدل دیا جائے ـ اس کا ساتھ دینا پھر حالات جیسے بھی ہوں آپ پر لازم ہو جاتا ہے ـ محبت کرتے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرا شخص آپ کی مرضی کے مطابق چلے تو آپ کو محبت ہے اگر نہیں تو آپ کی محبت ختم ہو جائے گی اور تعلق چھوٹی سی بات پر ٹوٹ جائے گا یہ خوف دلوں میں نہیں ہونا چاہیے۔ ـ

دراصل ہمیں خود میں ‘ اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہیے ـ دوسروں کا احترام کرنا چاہیے ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرنی چاہیے، ـ جینے اور خوش رہنے کا حق سب کو یکساں حاصل ہونا چاہیے ـ اِسی میں رشتوں کی جو ہم سے جُڑے ہیں ان کی خوبصورتی ہے ـ رشتے بھی پھولوں کی طرح خوبصورت اور نازک ہوتے ہیں جلدی مرجھا جاتے ہیں گرم ہَوا   برداشت نہیں کرپاتے، ـ اِن رشتوں کی بقا کے لیے ہمیں خود کو بدلنا پڑتا ہے اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ رشتوں کو مضبوط ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے اور درگزر’ صبر بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے دل کو خراب کرنے اور سوچ کو منفی کرنے کی بجائے دوسرے انسان کی کیفیت’ حالات’ اور سوچ کے مطابق خود کو بدلنے کا ہنر سیکھیں ـ ہر جگہ اور ہر وقت لفظ “مَیں” کا استعمال نہ کریں، ـ پھل دار پودا ہمیشہ جھکا ہوا ہوتا ہے ـ بہت سارے معاملات سے دور رہنا اور خاموشی اختیار کرنا ہی سمجھداری کے صیغے میں آتا ہے ـ دوسروں سے جتنی توقعات کم رکھیں گے اتنے ہی خوش رہیں گے اور ٹوٹ پھوٹ کے مراحل سے گزرنا نہیں پڑے گا کیونکہ کچھ رشتوں میں ہم توقعات زیادہ وابستہ کر لیتے ہیں یا ہم امیدیں زیادہ باندھ لیتے ہیں اور یہ عمل بھی یک طرفہ ہوتا ہے تو تکلیف بھی ہمیں ہی سہنی پڑتی ہے لہذا صرف خود سے توقع رکھیں اور خوش رہیں ‘ خوشیاں اور مسکراہٹیں بانٹنے والے بنیں ـ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply