ووڈکا ،چرچ اور سینما۔۔لیون ٹراٹسکی/ترجمہ ؛فرہاد کیانی

یہ مضمون پہلی بار بالشویک پارٹی کے اخبار ’پراودا‘ میں 12 جولائی 1923ء کو شائع ہوا۔

محنت کش طبقے کی زندگی پر دو نئی حقیقتوں کی چھاپ بہت نمایاں ہے۔ پہلی آٹھ گھنٹے یومیہ اوقاتِ کار کا اجرا اور دوسری واڈکا کی فروخت پر پابندی۔ جنگ کے ہاتھوں واڈکا کی اجارہ داری کا خاتمہ انقلاب سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ جنگ کے لیے اتنے دیو ہیکل وسائل کی ضرورت تھی کہ زار شاہی کے لیے واڈکا کی آمدنی بے وقعت ہو کر رہ گئی، ایک ارب روبل کے لگ بھگ رقم سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ واڈکا کی اجارہ داری کا خاتمہ ایسی حقیقت تھی جو انقلاب کو ورثے میں ملی۔ اور انقلاب نے اس حقیقت کو تسلیم کیا لیکن اس پر عمل درآمد کے پیچھے اصولی وجوہات کارفرما تھیں۔ محنت کش طبقے کے اقتدار میں آنے اور نئے معاشی نظام کے شعوری معمار بننے کے بعد ہی پابندی کے ذریعے ملک سے شراب کی لت کو ختم کرنے کے کام کو اس کی تاریخی اہمیت حاصل ہو سکی ہے۔ سامراجی جنگ کے دوران ’’بلا نوشوں‘‘ کے بجٹ کا خاتمہ اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا کہ پابندی کے ذریعے ملک بھر میں شراب نوشی کو فروغ دینے والے نظام کا خاتمہ انقلاب کے آہنی اثاثوں میں سے ایک ہے۔

جہاں تک دن میں آٹھ گھنٹے کام کا تعلق ہے تو یہ انقلاب کی براہ راست فتح تھی۔ آٹھ گھنٹے اوقات کار سے محنت کشوں کی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور دن کا دو تہائی حصہ کارخانے کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو گیا ہے۔ اس سے زندگی میں بڑی تبدیلی اور ثقافت، سماجی تعلیم وغیرہ کی بنیاد قائم ہوئی ہے لیکن یہ صرف بنیاد ہے۔ اکتوبر انقلاب کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ ہر محنت کش کی معاشی بہتری سے سارا محنت کش طبقہ مادی اور ثقافتی طور پر بلند ہوتا ہے۔
مزدور تحریک کا پرانا فارمولا ہے کہ ’’ آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے نیند اور آٹھ گھنٹے تفریح‘‘۔ ہمارے موجودہ حالات میں اس کے نئے معنی ہیں۔ کام کے آٹھ گھنٹوں کو جتنی سود مندی سے استعمال کیا جائے گا، اتنی ہی بہتر، صاف ستھرے اور صحت بخش انداز میں آٹھ گھنٹے کی نیند ممکن ہو گی اور تفریح کے آٹھ گھنٹے اتنے ہی بھرپور اورمتمدن ہوں گے۔

اس تعلق میں تفریح ثقافت اور تربیت کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ بچے کے کردار کا اظہار اور تعمیر کھیل میں ہوتی ہے۔ کسی بالغ کا کردار کھیل اور تفریح میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ لیکن سارے طبقے کے کردار کی تشکیل، جب وہ طبقہ نو عمر ہو اور آگے بڑھ رہا ہو، جیسا کہ پرولتاریہ، تو تفریح اور کھیل بہت اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ عظیم فرانسیسی یوٹوپائی مفکر فوریئر نے عیسائی راہبیت اور فطری جبلتوں کے دبانے کو رد کرتے ہوئے اپنے فلنسطاری (مستقبل کے کمیون) کو انسانی جبلت اور جذبات کے درست اور شعوری استعمال اور ملاپ پر تعمیر کیا ہے۔ یہ بہت گہرا خیال ہے۔ محنت شک طبقے کی ریاست نہ کوئی روحانی سلسلہ ہے اور نہ ہی کوئی خانقاہ۔ ہم لوگوں کو اس طرح قبول کرتے ہیں جیسا فطرت نے انہیں بنایا ہے، اور جیسے پرانے نظام نے ان کی کسی حد تک تربیت کی ہے اور کسی حد تک انہیں بگاڑا ہے۔ ہم اس اہم انسانی عمل کو اپنی پارٹی اور انقلابی ریاست کے عملی کام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تفریح، مشاغل، سیاحت اور ہنسنے کی آرزو انسانی فطرت کی سب سے جائز خواہشات ہیں۔ ہم اس آرزو کی تسکین کو بلند تر فنی میعار فراہم کرنے کے قابل اور بلا شبہ پابند ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ تفریح کو اجتماعی تعلیم کا اوزار بنا کر اسے واعظ کی سرپرستی کی جکڑ اور نصیحتوں کی اکتاہٹ سے آزاد کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں اس وقت سب سے اہم اور دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ موثر اوزار سینما ہے۔ یہ حیران کن اور شاندار ا

ایجاد جس کامیابی اور تیزی سے انسانی زندگی کا حصہ بنی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سرمایہ دارانہ شہروں میں سینما روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے جیسے حمام، مے خانے، چرچ یا دیگر پسندیدہ یا نا پسندیدہ ادارے ہیں۔ سینما کے شوق کی وجہ مشغول ہونے کی خواہش، کسی نئی اور انہونی چیز کو دیکھنے کی خواہش اور اپنی بجائے دوسروں کے مصائب پر ہنسنے اور رو نا ہے۔ سینما ان ضروریات کو براہ راست، تصویری خوبصورتی اور زندگی سے بھرپور انداز میں پورا کرتا ہے اور ناظرین سے کوئی تقاضا نہیں کرتا، حتیٰ کہ انہیں خواندہ ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ اسی لیے ناظرین سینما سے اتنی والہانہ محبت کرتے ہیں اور یہ خیالات اور جذبات کاسدابہار سر چشمہ ہے۔ یہ ہماری سوشلسٹ تعلیمی توانائی کے اطلاق کے لیے ایک نکتہ بلکہ ایک وسیع میدان ہے۔
ابھی تک تقریباً چھ سالوں میں ہمارا سینما پر عبور حاصل نہ کر پانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کتنے سست رو اور غیر تعلیم یافتہ ہیں، یا بے باکی سے کہا جائے تو کتنے بیوقوف ہیں۔ یہ اوزار پکار رہا ہے کہ اسے استعمال کیا جائے۔ یہ پروپیگنڈا، تکنیک، تعلیم، صنعتی پروپیگنڈا، شراب کے خلاف پروپیگنڈا، صفائی کے لیے پروپیگنڈا، سیاسی پروپیگنڈا، یعنی کسی بھی طرح کے پروپیگنڈا کے لیے بہترین اوزار ہے۔ یہ ہر کسی کی پہنچ میں ہے اور پر کشش ہونے کے ساتھ ساتھ یادداشت میں بیٹھ جاتا ہے اور اسے آمدنی کا ذریعہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔

کشش اور تفریح کے لحاظ سے سینما پہلے ہی شراب خانے کا مد مقابل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ نیو یارک اور پیرس میں اس وقت زیادہ سینما گھر ہیں یا شراب خانے یا ان میں سے کس کی زیادہ آمدن ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ تفریح کے آٹھ گھنٹوں کو گزارنے کے لیے سینما شراب خانے کا مد مقابل ہے۔ کیا ہم اس بے مثال اوزار کے استعمال میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں؟ کیوں نہیں؟ زار کی حکومت نے چند ہی برسوں میں سرکاری شراب خانوں کا جال بچھا دیا تھا۔ اس کاروبار کی سالانہ آمدن ایک ارب طلائی روبل تھی۔ محنت کشوں کی حکومت ریاستی سینما گھروں کا جال کیوں نہیں بچھا سکتی؟ تفریح اور تعلیم کا یہ سازو سامان معمول کی زندگی کا حصہ بن سکتاہے۔ شراب کی لت کے خلاف استعمال ہوتے ہوئے یہ آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کیا ایسا عملی طور پر ممکن ہے؟ کیوں نہیں؟ بے شک یہ آسان نہیں ہے۔ مثلاًیہ کسی بھی حوالے سے ووڈکا کی اجارہ داری کو بحال کرنے کی کوشش کی نسبت زیادہ فطری اور مزدور سیاست کی تنظیمی توانائی اور صلاحیتوں سے زیادہ ہم آہنگ ہو گا۔

سینما کا مقابلہ صرف شراب خانے سے نہیں بلکہ چرچ سے بھی ہے۔ اور اگر ہم سوشلسٹ ر یاست سے علیحدہ ہونے والے چرچ کی جگہ سوشلسٹ ریاست اور سینما کو ضم کر سکے تو یہ مقابلہ چرچ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
روسی محنت کش طبقے میں عملی طور پر مذہبیت کا وجود نہیں ہے۔ در حقیقت ایسا ماضی میں بھی کبھی نہیں تھا۔ آرتھوڈاکس چرچ ایک روز مرہ کا معمول اور حکومتی ادارہ تھا۔ وہ کبھی بھی عوام کے شعور میں سرائیت نہیں کر سکا اور نہ اس کے عقائد اور احکامات لوگوں کے دلی جذبات کا حصہ بن سکے۔ اس کی وجہ پھر روس بشمول اسکے چرچ کی ثقافتی پسماندگی تھی۔ چناچہ ثقافتی طور پر بیدار ہونے پر روسی محنت کش چرچ کے ساتھ اپنے خالصتاً ظاہری تعلق کو بڑی آ سانی سے توڑ ڈالے گا، جو تعلق محض عادت کی بنیاد پر استوار ہوا تھا۔ کسان کے لیے یقینایہ زیادہ دشوار ہے، اس لیے نہیں کہ کسان کو چرچ کی تعلیمات سے زیادہ لگاؤ اور محبت ہے، بلا شبہ ایسا کبھی بھی نہیں تھا، بلکہ اس لیے کہ اس کی زندگی کا جمود اور یکسانیت چرچ کی سرگرمیوں کے جمود اور یکسانیت سے مطابقت رکھتے ہیں۔

محنت کشوں ( یہاں میری مراد پارٹی سے باہر محنت کشوں کی بڑی تعداد ہے) کا چرچ سے تعلق بڑی حد تک عادت کے کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے، خصوصاً عورتوں کی عادت سے۔ گھروں کی دیواروں پر مذہبی تصاویر اس لیے آویزاں ہیں کیونکہ وہ پہلے سے وہاں ہیں۔ مذہبی تصاویر دیواروں کو سجاتی ہیں، ان کے بغیر دیواریں ننگی ہوں گی اور لوگ اس کے عادی نہیں ہیں۔ محنت کش نئی تصاویر خریدنے کی زحمت نہیں کرے گا اور اس میں پرانی اتارنے کی ہمت نہیں ہے۔ ایسٹر کے کیک کے بغیر موسمِ بہار کا تہوار کیسے منایا جائے؟ اور ایسٹر کے کیک کو پادری سے بخشوانا ضروری ہے ورنہ وہ بے معنی ہے۔ اور جہاں تک چرچ جانے کا سوال ہے تو لوگ اس لیے نہیں جاتے کہ وہ مذہبی ہیں۔ چرچ بڑی خوبصورتی سے روشن ہوتا ہے، وہاں بہترین لباس پہنے مرد و خواتین ہوتے ہیں، اچھے اچھے گیت گائے جاتے ہیں، یہ سب سماجی اور جمالیاتی طور پر پر کشش ہے اور کارخانے، خاندان، روز مرہ کے کام کاج اور گلیوں بازاروں میں نہیں ملتا ہے۔ مذہب پر یقین ہے ہی نہیں یا عملی طور پر اس کا وجود نہیں ہے، بہر طور لوگ پادریوں کی عزت یا مذہبی رسومات کی جادوئی طاقت پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن انہیں اس سب کو ختم کرنے کی سرگرم خواہش بھی نہیں ہے۔

مشغلے، سرور اور تفریح کے عناصر چرچ کی رسومات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چرچ تھیٹر کے طریقوں سے دیکھنے اور سونگھنے کی حس (اگربتیوں کے ذریعے) کو استعمال کرتے ہوئے تخیل سے کھیلتا ہے۔ انسان کی ناٹک دیکھنے کی خواہش، غیر معمولی چیزوں کو دیکھنے اور سننے کی خواہش، روز مرہ زندگی کی یکسانیت سے فرار کی خواہش بہت پر زور اور نا قابل فراموش ہے۔ یہ بچپن سے بڑھاپے تک موجود رہتی ہے۔ عوام کو مذہبی رسومات کی عادت سے آزاد کروانے کے لیے محض مذہب کے خلاف پروپیگنڈا کافی نہیں۔ بے شک یہ ضروری ہے لیکن اس کے عملی اثرات با ہمت سوچ رکھنے والی اقلیت تک محدود ہیں۔ لوگوں کی اکثریت پر مذہب مخالف پروپیگنڈے کا کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اس کی یہ وجہ نہیں کہ مذہب سے انکا روحانی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بر عکس کسی طرح کا بھی روحانی تعلق موجود نہیں ہے۔ صرف ایک مجرد، جامد اور مکانیکی تعلق ہے جو شعور کے اندر سے نہیں گزرا۔ جیسے گلیوں میں گھومتا کوئی سیاح کبھی کبھی کسی جلوس یا رنگ برنگی تقریب میں شامل ہو جا تا ہے یا گانا سنتا ہے یا ہاتھ ہلاتا ہے۔

شعور پر رسومات کا مردہ بوجھ محض تنقید سے نہیں اتارا جا سکتا۔ زندگی کی نئی شکلیں، نئی تفریحات اور نئے اور زیادہ متمدن تھیٹر اس کی جگہ لے سکتے ہیں۔ یہاں پھر ہماری توجہ سینما کی طرف ہی جاتی ہے جو تھیٹر کی سب سے زیادہ جمہوری صورت ہونے کی وجہ سے سب سے طاقتور اوزار ہے۔ زرق برق لباس میں ملبوس پادریوں وغیرہ کی ضرورت کے بغیر سینما پردہ سکرین پر ایسے دیدنی مناظر پیش کرتا ہے جو ہزاروں سال کے تجربے سے لیس امیر ترین چرچ، مسجد یا یہودیوں کا معبد بھی نہیں دکھا سکتا۔ چرچ میں ہمیشہ ایک ہی ڈرامہ پیش کیا جاتا ہے اور سارا سال وہی چلتا رہتا ہے جبکہ سینما میں آپ بت پرستوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے ایسٹر کے تہوار اور ان مذاہب کی تاریخی ترتیب کو رسومات کی مماثلت کے ساتھ سیکھ سکتے ہیں۔ سینما تفریح اور تعلیم کے ساتھ تصویر کے ذریعے تخیل کو جلا بخشتا ہے اور آپ کو چرچ میں داخل ہونے کی ضرورت سے آزاد کر دیتا ہے۔ سینما نہ صرف شراب خانے بلکہ چرچ کا بھی بہت بڑا مد مقابل ہے۔ یہ ایک ایسا اوزار ہے جسے ہمیں ہر قیمت پر بروئے کار لانا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ طبقاتی جدوجہد

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply