نینا نے لینا کے بال جکڑے/ڈاکٹر مجاہد مرزا

“مثل برگ آوارہ “سے

 

 

 

 

جب میں اور نینا پاکستان سے لوٹ رہے تھے تو مجھے طیارے میں ہی ایک خیال آیا کہ نینا سے تعلق کو تین سال بیتنے کو آئے ہیں۔ اس ساتھ کو طول دینے سے فائدہ؟ ایسا نہ ہو کہ ساتھ دینا مجبوری لگنے لگے یا دوسرے لفظوں میں ڈیوٹی بن کر رہ جائے۔ میں نے بلا کم و کاست اس سوچ کا اظہار نینا سے کر دیا تھا اور ہم دونوں نے طے کر لیا تھا کہ چلو اس ساتھ کو ہنسی خوشی تمام کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے میل جول رکھنا تاحتٰی  کہ ٹیلیفون پر بات چیت کرنا تک ترک کر دیا تھا۔

سال ِ نو کی آمد آمد تھی۔ میں نے بیلاروسی لینا کو سال نو منانے کے لیے اپنے ہاں مدعو کر لیا تھا جو بخوشی رضامند ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے آنے کی تاریخ بتا دی تھی۔ اس کی ریل گاڑی کو صبح کہیں آٹھ بجے کے قریب پہنچنا تھا مگر میں ہمیشہ سے تساہل پسند مضطرب تھا کہ اتنی صبح کیسے اسے سٹیشن پر لینے جاؤں۔ ظفر نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں میں چلا جاؤں گا، اسے لے کر آپ کے ہاں چھوڑ جاؤں گا۔ چنانچہ ظفر گلاب کے پھولوں کا ایک گلدستہ لے کر گیا تھا اور کوئی ساڑھے نو کے قریب لینا کو ساتھ لے کر میرے ہاں پہنچ گیا تھا۔ میں لینا کے ساتھ مہذب مگر پُرتپاک طریقے سے ملا تھا۔ اس وقت تک تموجن یونیورسٹی جا چکا تھا البتہ مظہر موجود تھا جو اس رات میرے ہاں ہی ٹھہر گیا تھا۔

لینا بیلاروسی کو چھوڑ کر ظفر چند منٹ بعد رخصت ہو گیا تھا۔ لینا بڑے کمرے میں تھی۔ میں نے جا کر لینا کو بانہوں میں بھرا ہی تھا کہ اس نے “اوبھی ہوئی سانسیں” لینا شروع کر دی تھیں۔ :
میرے ذہن میں فوراً  ظفر اقبال کا یہ شعر آیا تھا:
ہتھ لاویاں دے نال ای سانہہ لینی ایں ابھے نیں
کی پٹواسے چمیاں، کی چھکواسیں ببے نیں

میں اس خاتون کے اس فوری رویے سے کچھ بوکھلا سا گیا تھا۔ ابھی آیا کہہ کر کچن میں گیا تھا جہاں مظہر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ میں نے ہنسی دباتے ہوئے بہت تحیر کے ساتھ اسے بتایا تھا، “یار وہ تو ہاتھ لگاتے ہی ایسی سانسیں لینے لگی جیسے کہیں سے دوڑ کر آئی ہو” مظہر نے حسب عادت زور دار قہقہہ لگا کر کہا تھا،” جناب ہاٹو ہاٹ آئی ہے، پیل دیں اور کیا”۔ اسے اس مقصد کے لیے ہی تو بلایا گیا تھا۔ بڑے کمرے میں دیوار کے ساتھ ایک سنگل پلنگ تھا جس کے سپرنگ بہت اچھلتے اور بہت چرچراتے تھے۔ ان کو فوری طور پر اچھالے اور چرچرائے جانے کا اہتمام کیا گیا۔ مگر خاتون تھی کہ نہ اچھلی تھی نہ چرچرائی تھی البتہ سپرنگوں کی اچھل پٹخ اور چرچراہٹ اس کی سانسوں کے زیر و بم کو ضرور معمول پر لے آئے تھے۔ شام کو میں لینا کو سیر کرانے کے لیے اسے، تب شہر میں موجود واحد شاپنگ مال “آئرش مارکیٹ” لے گیا تھا جہاں اس نے “یہ بھی لے دو، وہ بھی لے دو” کی تکرار شروع کر دی تھی مختصراً  یہ کہ موصوفہ نے آدھے گھنٹے میں سینکڑوں ڈالر کی خریداری کر ڈالی تھی۔

خریداری کے بعد بھی سڑک پر مچل مچل کر بچوں کی طرح ہاتھ چھڑا کر وہ کچھ اور خریدنے کی خواہش میں جب کسی دوسری دکان کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتی تھی تو میں اس کی انگلیوں کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنی انگلیوں میں جکڑتے ہوئے کہتا تھا “یہاں پھر جائیں گے” اور دل میں کہتا تھا ” تم نے اپنی خریداری کا کوٹہ کمپلیٹ کر لیا ہے نندنی”۔ مجھے رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کہ نینا نے تین برس کی شناسائی کے دوران ایک بار بھی کوئی چیز خریدنے کی فرمائش نہیں کی تھی۔ اگر کہیں بازار گئے بھی تب بھی اس نے چیزوں کی طرف دیکھا تک نہیں تھا۔ اور تو اور ایک بار اسی آئرش شاپ میں اسے کوئی نوے ڈالر کے ایئر رنگ پسند آ گئے تھے، باوجود اس کے کہ میں کہتا رہا کہ خرید لیتے ہیں، وہ “نہیں نہیں ، بہت مہنگے ہیں” کہتے ہوئے مجھے کھینچ کر دکان سے باہر لے آئی تھی۔

تیس
دسمبر 1994 کو میں نے سوچا تھا کہ نینا سے کوئی مخاصمت تو نہیں ہے۔ ہم دونوں نے رضامندی سے تعلق کو طول نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور بس۔ انسانی اور دوستانہ تعلق برقرار ہے تو کیوں نہ اسے نئے سال کی مبارک باد دی جائے۔ قریبی افراد کو مبارک باد زبانی کلامی نہیں دی جاتی بلکہ تحفے تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ میں نے نینا کو مبارک دینے کا ذکر لینا سے کیا تھا جس نے کہا تھا کہ تمہیں ضرور مبارک باد دینی چاہیے۔ لینا نے کہا تھا   چلو مرزا میں نینا کے لیے شراب کے تحفے لینے میں تمہاری مدد کرتی ہوں۔ اس نے اپنی خریداری کی عادت کے مطابق مہنگی مہنگی شرابیں خرید کرا دی تھیں۔ میں شراب کی بھری بوتلوں کا تحفہ لے کر نینا کے گھر پہنچا تھا۔ نینا اور اس کی بیٹی بنی ٹھنی بیٹھیں پہلے سے چسکیاں لے رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر میں نے بہانہ بنا کر اجازت چاہی تھی جس پر نینا نے جو ہلکے سے سرور میں تھی سنجیدگی سے کہا تھا کہ آج اگر گئے تو پھر کبھی نہ آنا۔ اس کی بیٹی نے کہا تھا کہ میری ماں تو اس فقرے کا بے محابا استعمال کرتی رہتی ہے۔ اگر تمہارا جانا ضروری ہے تو جاؤ اور میں چلا گیا تھا۔ ان دو چار دنوں میں جسمانی مستعدی پیدا کرنے کی خاطر لینا کے مسلسل انکار کے باوجود پاکستان سے نینا کی سگریٹ کی ڈبیہ میں چھپا کر لائی گئی چرس کی بچی کھچی مقدار سے دیے گئے دھویں سے اس کے بدن میں بجلیاں بھری جا چکی تھیں۔ اب مرزا صاحب بس چت لیٹا کرتے تھے، لینا اچھلتی رہتی تھی یعنی زبردست وقت گذر رہا تھا۔

جب میں گھر پہنچا تو کچن میں تموجن، شہزاد اور نینا اکٹھے بیٹھے تھے۔ میں نے بتانا شروع ہی کیا تھا کہ نینا اسے واپس نہیں آنے دے رہی تھی کہ میرے بھتیجے شہزاد نے میری بات کاٹتے ہوئے بتایا تھا،” چاچا جی، یہاں معاملہ گمبھیر ہو گیا ہے۔ نینا کا فون آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں تموجن کو روکتا اس نے لینا کی موجودگی کے بارے میں اسے بتا دیا ہے”۔ میں “اوہو” کہتا ہوا ٹوائلٹ میں گھس گیا تھا۔ ابھی میں فارغ ہونے کے بعد اپنی زپ بند کر رہا تھا کہ مجھے بیل بجتی سنائی دی تھی۔ میں نے چیخ کر کہا تھا “دروازہ مت کھولنا” لیکن میرے فرزند تموجن جو دروازے کے سامنے والے کمرے میں کھلے دروازے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، نے تنبیہہ کے باوجود دروازہ کھول دیا تھا۔ جب تک میں باتھ روم سے نکلا نینا لینا کے سنہری بالوں کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔ تموجن، شہزاد اور میں تینوں نے بڑی مشکل سے اس کی بند مٹھی کی انگلیاں کھول کر آنکھوں پہ بازو رکھے بالوں کی کھچاوٹ کے درد سے سسکتی ہوئی لینا کے بالوں کو چھڑایا تھا۔ نینا کا بیٹا ساشا اور داماد لیونیا جس کی کار پر سوار ہو کر وہ سب آئے تھے، دروازے کے سامنے پریشان کھڑے تھے۔ میں نینا کا بازو پکڑ کر اسے یہ کہتے ہوئے کہ “چلو بات کرتے ہیں” بڑے کمرے تک لے گیا تھا دروازہ بند کرتے ہی نبنا نے اپنا گھٹنا میری ٹانگوں کے درمیان مارنے کی کوشش کی تھی، میں نے جھکائی دی تھی یوں نینا کا گھٹنا وہاں نہیں لگا تھا جہاں وہ مارنا چاہتی تھی۔ مجھ کو یہ سوچ کر کہ اگر مقام خاص پر مجھے گھٹنا لگ گیا ہوتا تو میرا تو کام ہو گیا تھا، بہت غصہ آیا تھا اور میں نے نینا کے چہرے پر کھلے ہاتھ سے پورے زور کا تھپڑ رسید کیا تھا۔ وہ چکرا کر سپرنگ دار پلنگ پر گری تھی۔ میں نے دروازہ کھولتے ہی چیخ کر کہا تھا، “ساشا لے جاؤ اپنی ماں کو یہاں سے ورنہ گڑ بڑ ہو جائے گی” وہ دونوں روسی نوجوان بڑی مشکل سے اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ سبھی کی طبیعت کبیدہ ہو چکی تھی۔ شہزاد نئے سال کی تقریب منانے کے لیے تموجن کو اپنے ساتھ لے کے ہوسٹل چلا گیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد شراب پینے سے میرے اور لینا کے اوسان بحال ہوئے تھے۔ ہم نے نیا سال ایک دوسرے کی بانہوں میں گم ہو کر سوتے ہوئے منایا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply