پیالی میں طوفان (108) ۔ معاشرت/وہاراامباکر

ایک موم بتی اور ایک کتاب۔ توانائی اور انفارمیشن جن کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ ضرورت پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور صدیوں تک باقی رہ سکتے ہیں۔ یہ وہ دھاگے ہیں جو انفرادی انسانی زندگیوں کو جوڑ کر بہت بڑی شے کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ باہم تعاون کے رشتے میں منسلک انسانی معاشرہ ہے جو کہ اپنی پچھلی نسل کا تسلسل ہوتا ہے۔ توانائی ہمارے معاشرے میں بہتی ہے۔ اس لئے موم بتی کو سٹور تو طویل مدت کے لئے کیا جا سکتا ہے لیکن استعمال صرف ایک ہی بار۔ جبکہ علم جمع ہوتا ہے۔ ایک کتاب سے کئی ذہن سیراب ہو سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج سے دو ہزار سال پہلے بھی کتاب اور موم بتی تھی اور آج بھی ہے۔ یہ سادہ ٹیکنالوجی ہیں اور کام کرتی ہیں۔ ہم نے اپنے جدید دنیا کو توانائی ذخیرہ کرنے اور اسے استعمال کرنے کی انفارمیشن شئیر کرنے سے قائم کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب انسانی تہذیب کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں شہروں کا تصور آتا ہے لیکن تہذیب کی ابتدا ہمیشہ کھیتوں سے ہوئی ہے۔ کچھ بھی بنانے میں، دریافت کرنے میں، کوشش کرنے، ناکام ہونے اور پھر دوبارہ کوشش کرنے میں توانائی چاہئے۔ سورج سے آنے والی توانائی کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے لئے انسان نے پودوں کا سہارا لیا۔ انسان مٹی، پانی اور بیج ہلا سکتا ہے لیکن سورج کی روشنی کو شوگر میں بدلنے کا کام پودوں کا رہا ہے۔ جب ہم نے یہ سیکھ لیا کہ سورج کی روشنی کو پھانسنے کے لئے یہ چھوٹے سے سبز ڈیم ہماری مدد کیسے کریں گے تو یہ زرعی انقلاب اور پیچیدہ معاشرت کی ابتدا تھی۔ زمین کے نظاموں سے گزرتی یہ توانائی ہمیں اور ہمارے جانوروں کو کھلاتی رہی ہے اور اس سے ہمیں یہ صلاحیت ملی کہ ہم دنیا بدل سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری تہذیب اور معاشرت کے کچھ حصے اس دور کے ہیں، کچھ دہائیوں پرانے، کچھ صدیوں پرانے اور کچھ ہزاروں سال پہلے کے۔ سڑکیں، عمارات، نہریں۔ ور پھر تعاون اور تجارت کے وہ بڑے نیٹ ورک جو عظیم فائدے پہنچاتے رہے ہیں۔ یہ نیٹورک ہر فرد کو فائدہ دیتے ہیں۔ ایک فرد ایسی چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو کہ کسی بھی ایک فرد کی ذہنی اور جسمانی استطاعت سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور اس وجہ سے کبھی بھی انفرادی یا چھوٹے اور الگ رہنے والے گروہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا ایک جدید شہر عمارتوں کا جنگل ہے۔ ہر عمارت اپنے ڈیزائن اور فائدے کے لئے تعمیر کی گئی۔ لیکن ان سب کے پیچھے تانبے کے موٹے تاروں کا ایک جال ہے۔ اس بڑے جال سے شاخیں نکل کر انفرادی عمارت میں پہنچتی ہیں اور وہاں سے پھر شاخ در شاخ تقسیم ہوتی جاتی ہیں۔ فرش کے نیچے، دیواروں کے اندر۔ پھر ان کا ایک سرا بجلی کی ساکٹ سے نکلتا ہے۔ اس میں کوئی چیز پلگ کر دیں تو ایک چکر مکمل ہو جاتا ہے اور الیکٹران اپنی ہل جل شروع کر دیتے ہیں۔ تاروں کا یہ جال دو طرفہ ہے۔ اندر جانے والا سٹرکچر باہر آنے والے سے مل جاتا ہے۔ اگر ہم ایک شہر میں صرف ان تانبے کے تاروں کو دیکھیں تو یہ ویسے ہیں جیسے ہمارے جسم کی شریانیں اور رگیں۔ کہیں دور پیدا ہونے والی توانائی کو شہر کی دیواروں تک پہنچاتا ہوا نیٹورک جو ہماری معاشرت کے بھوکے دیو کی توانائی کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ ہم ان الیکٹرانز میں گھرے ہوئے ہیں جن کا ہمیں پتہ بھی نہیں اور یہ ہمارے لئے طرح طرح کے کام کر رہے ہیں۔
تاروں کے نیٹورک کے علاوہ بھی کئی اور نیٹ ورک پھیلے ہوئے ہیں۔ زمین کا اپنا سیارے کے سائز کا واٹر سائیکل ہے جو سمندر، دریاؤں، بارش اور پانی کے ذخائر کو ملاتا ہے۔ ہم اس میں بھی اپنے لئے نقب لگا کر اس کا رخ موڑ لیتے ہیں۔ یہ ہماری معاشرت کو سیراب کر کے باہر نکل جاتا ہے۔ بارش کو بند بنا کر روک لیتے ہیں۔ پھر پانی کے پائپوں کا بھی اسی طرح کا نیٹورک زیر زمین ہے جو ہمارے گھر کے نلکے پر آ کر ختم ہوتا ہے اور پھر سیوریج کے پائپ سے ہوتا کسی دریا میں یا ٹریٹمنٹ پلانٹ تک جا گرتا ہے۔ جب ہم نلکا کھول کر پانی استعمال کرتے ہیں تو اسی طرح کا ایک چکر شروع کر دیتے ہیں۔ پھر یہ پانی پائپوں میں دوڑتا ہوا ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس پانی کو زمین کے نیچے سے الیکٹرانوں کی حرکت نکالتی ہے جو گریویٹی کے مخالف توانائی دیتی ہے۔ گریویٹی کے زیر اثر یہ ٹینک سے نل میں آتا ہے اور گریویٹی کی وجہ سے نالی میں غائب ہو جاتا ہے۔
شہر میں یہ اور اس طرح کے بہت سے اور نیٹ ورک کام کرتے ہیں کیونکہ یہاں پر انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ٹھنسے پڑے ہیں اور یہ نیٹ ورک ان کو زندہ رکھتے ہیں۔ دوسرے نیٹورک خوراک کی تقسیم کے، مواصلات کے، ٹرانسپورٹ کے، تجارت کے ہیں۔ اور یہ تو صرف وہ چند مثالیں ہیں جن کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہیں۔ صرف یہ علم ہونا چاہئے کہ کہ دیکھنا کہاں اور کیسے ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply