دنیاکےبڑے بزنس اسکولوں میں تیسری دنیا کے کامیاب ترین اور منافع بخش ترین بزنس ماڈل پر تحقیق سے کامیاب کاروبار کی ایک نئی تکنیک سامنے آئی ہے۔ جو کچھ یوں ہے کروڑوں لوگوں کے وسائل ریاستی اداروں اور حکمران اشرفیہ اور ریاست کے تینوں ستونوں کے ساتھ مل کر ہڑپ کرو، چوتھے ریاستی ستون کو مہنگاخریدو، وہ آگے معاشرے کے مفادات کے رکھوالے صحافیوں اور دانشوروں کو سستا مہنگا خرید لیں گے،چالیس پچاس ہزار لوگوں کا تھرڈ پارٹی انٹرسٹ پیدا کرو ،اگر خدانخواستہ چاروں ستونوں میں سے مثلا ًکورٹ کچہری انتطامیہ یا کوئی جاگ اٹھا، تو کوئی مسئلہ نہِیں ، کیونکہ عوامی وسائل کے کسٹوڈین کی اکثریت اسطرح کے دو نمبر نابغوں کے ساتھ ، مہنگے وکیل بھی انکے اپنے تنخواہ دار ریاست کا چوتھا تھم(ستون) ، بالے ، شہتیروں سمیت بھی جیب میں، یاد رہے بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ بھی تیسری دنیا کے اس کاروباری ماڈل کو سپورٹ کرتی ہے کیونکہ اس ماڈل سے جو ملکی معیشت کی تباہی ہوتی ہے ۔وہ عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کو فائدہ پہنچاتی ہے لہذا عالمی معاشی دہشت گردی کے الزامات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ریڈار سے بھی یہ ماڈل محفوظ رہتا ہے لہذا کروڑوں ریاستی شہری تو اس بات سے بے خبر رہیں گے یا جانتے بوجھتے بھی کہ
” کتیاں چوراں نال رلی اے”( محافظ چوروں سے ملے ہوئے ہیں)
بےخبری میں سوئے رہیں گے،پھر بھی اگر پانی سر تک آتا نظر آیا ، آخری خود کش دستہ آگے بڑھایا جائے گا۔ یعنی ہزاروں تھرڈ پارٹی انٹرسٹ والے آسمان سر پر اٹھا لیں گے،گریبان چاک کر کے سڑکوں پر آجائیں گے ،خود سوزیاں شروع ہو جائیں گی، تو چاروں ریاستی ادارے ہزاروں کے مفاد میں اکھٹے ہو کر کروڑوں کے خلاف اور ہزاروں کے حق میں فیصلہ کریں گے اور اس طرح یہ بزنس ماڈل ہر لحاظ سے جائز ہو جائے گا اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا معاشی ترقی بھی ہوگی، اور جمہوریت کے فاتحین بھی خالی پیٹ، چیتھڑوں میں لپٹے ،کھلے آسمان تلے ایک موٹر سائیکل پر پورا پورا خاندان سوارہو کر , بسوں کی چھتوں پردھوپ سینکتے، پٹرول پمپوں پر لائنوں میں لگے، پانی کے لئے بلکتے ،تھانوں میں سسکتے ، پٹورار خانوں میں گڑگڑاتے،جمہوریت کی دھنوں پر مفلسی کا ننگا والہانہ رقص کرتے نظر آئیں گے اور تھرڈ پارٹی انٹرسٹ والوں میں سے بڑے مفادات والے انھیں سلائی مشینوں، خیراتی کھانوں، آٹے کے تھیلے اور خیراتی ڈسپنسریاں خیرات کرتے نظر آئیں گے۔اس بزنس ماڈل کا نچوڑ یہ دیکھا گیا جہاں جہاں یہ کاروباری ماڈل کامیابی سے دو تین دہائیاں چل گئے وہ ممالک پھر قصہ پارینہ بن گئے۔اس لئے دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک اس پر تحقیق کے بعد اسے اپنی نسلوں کو بطورِ “سبق عبرت” پڑھانے کا سوچ رہے ہیںِ۔
اعظم معراج کی زیر اشاعت کتاب اسٹیٹ ایجنٹ کا کتھارسس سے اقتباس
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں