یومِ پاکستان اور دفاعی نمائش کی اہمیت ۔۔۔ ڈاکٹر صدیق العابدین

پچھلے دِنوں شاہزیب خانزادہ صاحب کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ریاستوں کے درمیان ہتھیاروں کی خریدکی دوڑ پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ اس پروگرام میں کسی طرح ثابت کیا گیاکہ اسلحہ خریدنے کے ہیجان نتیجے میں کئی قومیں اپنی عوام کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور کیسے اسلحہ بیچنے والی اقوام ، اسلحہ خرید نے والے ممالک کی بہ نسبت ترقی کی دوڑ میں کہیں آگے ہیں۔

پوری گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ اقوامِ متحدہ کی تحقیقات کے مطابق ، اسلحہ خریدنے والے دس بڑے ممالک صحت، تعلیم، آمدنی، برابری، صنعتی ترقی ، غربت، ملازمت، انسانی سیکورٹی ، تجارت اور ماحولیاتی پائیداری کی شرح میں  پہلے پچاس ممالک میں بھی شامل نہیں ہے ۔

حالیہ کشیدگی اور جنگی ماحول کے تناظر میں یہ یقیناًمختلف سوچ تھی۔ جس کی پزیرائی ہونی چاہیے مگر ساتھ ساتھ کچھ حقائق کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔ اپنے پچھلے کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ آج بھی یہ موضوع قابل غور ہے کہ کیا مضبوط دفاع قوموں کی ترقی کے سفر پر ایک بوجھ ایک یا ترقی کی ضمانت؟اس ضمن میں آپ کی رائے جو بھی ہو مگر دونوں پہلو قابل غور ضرور ہیں۔

اسلحہ بیچنے والے پہلے دس ممالک میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین شامل ہیں ۔ جن کے سرگزشتہ پانچ سالوں میں اسلحہ بیچ کر ذرمبادلہ کمانے کا پچھتر فیصدسہرا جاتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا اسلحہ خریدنے میں پہلا نمبر ہے۔ جسے ابھی حالیہ کچھ مہینوں پہلے سعودی عرب نے اس فہرست میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کا نمبر نواں ہے جبکہ انسانی ترقی میں ہمارا نمبر پہلے ڈیڑھ سو ممالک میں بھی شامل نہیں۔ جبکہ اسلحہ بیچنے والے پہلے دس ممالک انسانی ترقی کی نمو میں پہلے تیس ممالک میں بھی شامل نہیں ہیں۔

مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان اعداد و شمار کی رو سے کیا یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلحے کے بیوپاری ممالک اسلحے کی کمائی سے حاصل زرمبادلہ اپنے عوام کی بہتر طرز زندگی پر لگانے کے قابل ہیں۔ مگر اسلحہ خریدنے والے بیشتر ممالک اس عیاشی کے متحمل نہیں کیونکہ ان کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع کی مد میں خرچ ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں جتنا معلوم ہوتا ہے؟

اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا ہر اسلحہ خریدنے والے ملک کے لیئے اس رجحان سے روگردانی کرنا ممکن بھی ہے یا نہیں؟

اس دنیا میں فی الوقت تین قسم کے ممالک بستے ہیں۔ ایک وہ جو پوری دنیا پہ اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے درپہ ہیں اور اسے اپنی بقا کے لیئے ضروری بھی سمجھتے ہیں۔ اس لیئے یہ رجحان یقیناًمنافع بجش ہے اور اس رجحان کو پروان چڑھانے کے اصل ذمہ دار بھی یہی ہیں ۔ یہ ممالک کسی نہ کسی طرح چھوٹی اقوام کو آپس میں الجھا کر نہ صرف متفرق اہداف حاصل کر رہے ہیں بلکہ اسلحہ سازی کے “ثمرات”سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔

دوسرے ممالک وہ جو کسی نہ کسی حوالے سے اندرونی اور بیرونی خطرات کا شکار ہیں اور چاہے اس کے ذمہ دار ان کی اپنی ناکام حکومتی پالیسیاں ہوں یا بیرونی شر انگیزی مگر خمیازہ ان کی عوام کو بالواسطہ یا بلاواسطہ بھگتنا پڑرہا ہے۔ کئی بہت سے اپنی بقا کے لیئے جدید اسلحہ پر دارومدار کرتے ہیں مگر دوسری طرف تعلیم ، ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی میں اتنے پیچھے ہیں کہ لامحالہ اسلحہ خریدنے پر مجبور ہیں اور اس فہرست میں ذیادہ تر مسلم ممالک ہی شامل ہیں۔

اسے بدقسمتی کہیئے یاشومئی قسمت کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے فارغ ہوتے ہی اسلحہ کے بیوپاری ممالک کا مشق ستم  مشرق وسطی اور دیگر مسلم ممالک ہیں۔ مسلم ممالک کو درپیش موجودہ بڑے مسائل جیسے مسئلہ فلسطین ، مسئلہ کشمیر اسی صدی کی ہیں۔ دوسری طرف تیل کی دریافت اور اس کے بطور ایندھن استعمال کرنے کا رجحان بھی گزشتہ سو سالوں میں ہی پروان چڑھا جس کے حصول کی جنگ میں مسلمانوں کو آج بھی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور مسلمان جہاد ، فرقہ واریت اور قومیت کے نام پر آج بھی اس میں شریک ہیں جبکہ حقیقتاً یہ جنگیں اقتدار کے حصول اور دولت کی رسہ کشی کا نتیجہ ہیں۔

تیسرے قسم کے خوش قسمت ممالک وہ ہیں جو اس تمام دوڑ میں غیر جانبدار ہیں اس کی وجہ محض ان کی کامیاب خارجہ یا داخلی پالیسیاں نہیں بلکہ بیشتر کو جغرافیائی یا نسلی امتیاز حاصل ہے۔

کچھ اقوام اتنی چھوٹی ہیں کہ ان کا وجود دنیا کے خطوط پر کوئی بڑا اثر چھوڑنے سے قاصر ہے ،چاہے وہ یورپ اور افریقہ کے کچھ دور دراز کے ممالک ہوں یا قطب شمالی کے ساتھ بسنے والے ممالک جن میں بڑی طاقتوں کی دلچسپی اس شدومد سے کبھی نہیں رہی اور مستقبل قریب میں  بھی اس کا کوئی امکان ہے۔ اس سب رجحان میں پاکستان کا معرض وجودمیں آنا اور آج تک بقاء کی کامیاب جنگ لڑنا خود اپنے آپ میں ہماری کامیاب پالیسیوں کا آئنہ دار ہے۔ اس مختصر تاریخ میں دوسری طرف کئی بھیانک غلطیاں اور حادثے بھی بکھرے نظر آتے ہیں مگر اس تیسری خاموش عالمی جنگ جس کا نشانہ کئی مسلم ممالک ہیں ہمیں ہمارے سیکورٹی ادارے، ایجنسیاں اور افواج کئی نازک موڑوں سے گزارلے آئی ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم جغرافیائی اور عسکری لحاظ سے غیر جانبدار رہنے کے نہ متحمل ہیں نہ بیرونی قوتیں کبھی ہمیں اس عیاشی کا اختیار دیں گی۔چنانچہ جدید اسلحہ کے حصول کے لیئے اسلحہ سازی اور اسلحے کی فروخت پر انحصار ہم جیسے غریب اور کم آمدنی والے ملک کے لیئے اسلحہ خریدنے کی دوڑ سے کہیں ذیادہ ضروری تھا اور اور یقیناحوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس بات کا ادر اک ہمارے فوجی اداروں کو بھی بخوبی رہا ہوگا۔ پاکستان آرڈننس فیکٹری واہ، کامرہ میں طیارہ سازی کی صنعت، اٹامک انرجی کمیشن، ٹیکسلامیں ٹینک سازی اور میزائل بنانے میں شامل کئی ملکی ادارے اس بات کو یقینی بنائے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس ناگزیر صورتحال میں ہم اسلحہ سازی اور فروخت کے ذریعے اپنا شمار آہستہ آہستہ بدرآمداد کرنے کی بجائے خودکفیل ہو کرکریں۔ اسی لیے میری گزارش ہوگی کہ نہ صر ف شدت پسندی کے رجحان میں خود اپنا کردار ادا کرنے پرہیز کریں بلکہ دوسری طرف روشن خیالی اور جدت پسندی کی رو میں حقیقت سے آنکھیں چراکر اتنے حساس موضوعات پر مشک ستم نہ کریں ۔

آخری بات یہ کہ اس دفاعی خود مختاری کا مطلب بھارت پہ جارحیت نہیں کیونکہ اس عالمی کشمکش میں بھارت ایک چھوٹا سا کردار ہے۔ ہمارے سول تعلقات بہتر ہونا ہم دونوں ممالک کے لیئے خوش آئند ہی سہی مگر ایک بات یاد رکھیں ملکوں کے تعلقات جذبات پر نہیں، نفع نقصان پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی دوست ملک اپنے فائدے کے لیئے آپ کا دشمن ہونے میں بلکل پس و پیش نہیں کرے گا۔ اسی طرح کوئی دشمن ملک آپ کا ساتھ دینے پر مجبور بھی ہو سکتا ہے۔ مگر حالات سے قطع نظربحثیت قوم پہلے اپنی یگانگت اور یکجہتی ہماری بقاء کے لیئے لازم و ملزوم ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 23مارچ اور یومِ دفاع کی پریڈ محض نمود نمائش کے لیئے ضروری نہیں بلکہ اسلحے کی فروخت اور زرمبادلہ کے مواقع پیدا کرنے کی ایک کو شش ہے۔ جن سربراہان مملکت کی شرکت متوقع ہے وہ متفرق پاکستانی سازو سامان بالخصوص JF17میں دلچسپی رکھتے ہیں اوران ممالک میں ترکی اور ملائشیاء جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں ۔ اگر کسی کی روشن خیال نازک طبیعت پر یہ بات گراں گزرے تو وہ قرآن کریم کی اُن آیات جن میں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، پڑھ لے امید ہے افاقہ ہو گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply