افلاطونی محبت/ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسانوں کی بھاری اکثریت اس بات پہ متفق ہے کہ یونانی تہذیب تاریخ کی سب سے عظیم تہذیب گزری ہے، اس تہذیب کے جنسی رجحان مگر آج اور ماضی بعید کے کئی معاشروں سے میل نہیں کھاتے۔ آج، افلاطونی محبت، کی اصطلاح اپنی ابتدائی تشریح کے بالکل متضاد معنی رکھتی ہے، افلاطونی محبت کا جدید مطلب کسی شخص سے جنسی تعلق رکھے بغیر محبت کرنا ہے جبکہ افلاطون کے نزدیک حقیقی محبت نہ صرف جسم و روح کے یکجان ہونے کا نام تھا، بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے ہم جنس پرستی کو وہ محبت کی معراج گردانتے تھے، اگرچہ افلاطون نے خود یہ اصطلاح استعمال نہیں کی، یہ بعد میں مفسرین کی کرم فرمائی سے ان کے نام منسوب ہوئی ، لیکن اپنے ڈائیلاگز میں افلاطون نے معززین کی گفتگو میں ہم جنس پرستی پہ بحث کو ایسے پیش کیا جیسے وہ کسی خوش ذائقہ پکوان پر بات کر رہے ہوں، انہی ڈائیلاگز میں یہ بحث بھی چھیڑی گئی کہ زیوس نے انسان کو تخلیق کرتے وقت تین فطرتوں کو بنیاد بنایا، مرد، عورت اور ان دو کا مرکب، اسی تناسب سے جنسی کشش کے تین پہلو رکھے گئے، مرکب اپنی مخالف جنس میں، مرد مرد میں اور عورت عورت میں کشش تلاش کرے گی، ہم جنس پرستی کا موضوع قاری کیلئے کراہت کا موجب ہوسکتا ہے کیونکہ تنقیدی فکر پہ لگے قفل آڑے آجاتے ہیں اور قاری جزبات کی رو میں بہہ جاتا ہے کہ یہ فعل غیر فطری اور قابلِ نفرت ہے، ناپختہ عمر میں ایسے موضوعات پر بحثیں بچے کی نفسیات کو بگاڑ سکتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اگر بچے کی نفسیات کو بگاڑا یا توڑا جا سکتا ہے تو سب سے پہلے یہ اقرار کرنا ہوگا کہ یہ نفسیات فطرت کی دین نہیں بلکہ سماج میں رائج اقدار کی مرہونِ منت ہے، جو بچے آدم خور قبیلے میں پرورش پا رہے ہیں ان کی اپنی نفسیات ہے، جو کسی مہذب خاندان کے چشم و چراغ ہیں وہ الگ نفسیات رکھتے ہیں، جیسے پانی برتن کے مطابق اپنی شکل بدلتا ہے ایسے ہی انسانی نفسیات اپنے ماحول کے مطابق ڈھلتی اور پروان چڑھتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کسی آدم خود قبیلے کے بچے کو سکھانے کی کوشش کریں گے کہ انسانوں کا گوشت کھانا اچھی بات نہیں تو اس قبیلے کے بزرگ آپ پر تنقید کے تمام جملہ حقوق محفوظ رکھتے ہیں کہ آپ بچے کی نفسیات بگاڑ رہے ہیں، آپ کا رویہ بھی بالکل ایسا ہوگا اگر کوئی آدم خور آپ کے بچے کو انسانی گوشت کھانے کی ترغیب دے، آپ یہی کہیں گے کہ یہ غیر مہذب انسان ہمارے بچے کو بگاڑ رہا ہے۔ آج اگر کوئی قدیم یونانی شخص قبر سے نکل کر ہمارے بیچ آن وارد ہو اور اس بات کی تبلیغ کرنے لگ جائے کہ ہم جنسیت سماج کیلئے فائدہ مند فعل ہے تو ہم یقینا اس شخص پہ تنقید کرتے نظر آئیں گے، بعینہ اگر ہم میں سے کوئی دو ہزار سال قبل یونان کی وادی میں جا ٹپکے اور ہم جنسیت کو بدفعلی قرار دے تو یونانی ہم پر سماج مخالف کا الزام لگائیں گے۔
یونان کی دوسری بڑی اشرافیہ یعنی فوج میں ہم جنس پرستی کو قصداً رائج کیا گیا کہ ہم جنس پرست میدان جنگ میں فطری جنس پرست سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں، جنگجو کیلئے سیاسی مقاصد یا موت کا خوف ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ، اس کیلئے زیادہ اہم اپنے محبوب کی حفاظت کرنا ہے جو میدان میں اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے لڑ رہا ہے، اور چونکہ وہ اپنے محبوب کا محبوب بھی ہے تو یہ عمل دوطرفہ ہوگا، اور دونوں ایک دوسرے کی حفاظت کیلئے جی جان سے لڑیں گے، فطری جنسیت کے افراد لڑتے وقت اپنے بیوی بچوں اور گھر گرہستی بارے فکر پالتے ہیں کہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو میرے بچوں اور کھیت کھلیانوں کا کیا بنے گا، ایسے میں یکسوئی سے لڑنا اس کیلئے ممکن نہیں رہتا، لیکن اگر جنگجو کا کل اثاثہ اس کی آنکھوں کے سامنے موجود ہو تو ایسے میں جنگجو پوری توانائی کے ساتھ ہر حملہ آور کیلئے قہر ثابت ہوگا۔
اس کے پیچھے گہری نفسیات کارفرما ہے کہ جنگجو کی تمام ضرورتیں اسی جنگی چھاؤنی میں پوری کی جانی چاہییں ، اگر اس کی ضروریات کا مرکز اس جنگی چوکی یا نظام سے باہر رہے گا تو جنگجو کی شخصیت منقسم رہے گی، اس نکتۂ نگاہ سے ہم جنس پرستوں کی فوج ہمیشہ فطری جنسیت کی حامل فوج پہ حاوی رہی، جنگ کے دوران مخالف فوج کے پانچ فیصد فوجیوں کو اگر مار گرایا جائے تو ایک منظم فوج کھلبلی مچاتے ہوئے بے ہنگم ہجوم میں بدل سکتی ہے، آج یہی کام سنائیپرز سے لیا جاتا ہے کہ چیدہ چیدہ افراد کو اگر وہ دور سے مارگرائیں تو فوج کا مورال زمین سے آلگے گا اور اسے ہرانا آسان ہوجاتا ہے، ایسا اس لئے ہے کہ ہر انسان سب سے پہلے اپنی جان کی فکر کرتا ہے کیونکہ اس کی جان سے کئی جانیں منسلک ہوتی ہیں لیکن ہم جنس پرستوں کی فوج پہ یہ اصول لاگو نہیں ہوتا کہ وہ اپنے محبوب کیلئے آخری سانس تک لڑے گا اور محبوب اگر اس کی آنکھوں کے سامنے مارا جائے تو جوابا یہی جنگجو دشمن کے خلاف وحشت کے انبار لگا دے گا ۔ تمام شاہی محافظ، تین سو سپارٹنز اور دیگر معروف بٹالینز خالص ہم جنس پرستوں کی رہیں، ایسے جنگجوؤں کو عیاری یا تکنیکی طور پر شکست دی جا سکتی ہے لیکن جنگی جزبے میں کوئی ان سے بہتر ثابت نہیں ہو سکتا۔ صرف یونانی ہی نہیں ، یہی رویہ جاپان میں رائج سمورائی جنگجووں میں بھی تھا کہ ہم جنس پرست میدان میں بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں جب ہم جنسیت کو بری نگاہ سے دیکھا جانے لگا تو جنگجووں کو بھنگ، چرس اور شراب کی جانب متوجہ کیا گیا کہ وقتِ لڑائی سپاہی کا دھیان بیرونی فکر سے پاک رہے۔
بات صرف جنگ یا سپاہی تک محدود نہیں، اس کے باہر بھی اگر غور کیا جائے تو روح و جسم کیے یہ جان ہونے میں جنسی کشش اور دل لگی کے علاوہ مزاج کی ہم آہنگی، ذوق کی آبیاری اور سماجی ،سیاسی، نفسیاتی پہلوؤں پر آراء و بحث کی گنجائش بھی ایک غیر معمولی کشش و انسیت کا باعث ہے، مخالف جنس میں مزاج و ذوق، علمی اور منطقی بحث و گفتگو کی بابت ہک آہنگی کا عمومآ فقدان رہا ہے، ایسے میں کشش کے دوسرے مراکز کی طرف توجہ کا جانا اچھنبے کی بات نہیں۔
اس مضمون کا مقصد ہم جنسیت کی تشہیر نہیں اور نہ ہی راقم الحروف اس ذوق کا حامی ہے، لیکن اس کے خلاف جو دلائل سننے پڑھنے میں آتے ہیں، عملی نکتۂ نگاہ سے ان دلائل کو مضبوط کرنے اور کچھ نیا لانے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply