نسخۂ کیمیا ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

تین مختلف اشخاص کی تین مختلف کیفیات ملاحظہ فرمائیے,

ایک وہ شخص ہے جو سمندر کے کنارے یا پھر کم گہرے پانی میں کھڑا بدن کے نچلے حصے کو بھِگو رہا ہے، یہ شخص تیراکی نہیں جانتا، اس لیے سمندر کی تہہ میں موجود خزانوں تک اس کی رسائی نہیں، لیکن باہری دنیا سے اس شخص کا رابطہ مضبوط ہے اور دنیا داری کے اصولوں سے واقف ہونے کی وجہ سے اپنی اور اپنے اقارب کی بقاء کا ضامن ہے۔
دوسرا شخص وہ ہے جو اچھا تیراک ہے، وہ سمندر کے گہرے پانیوں میں غوطہ زنی کر کے اندرونی خزانوں کو باہر نکال لانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس شخص کا بھی باہری دنیا سے رابطہ مضبوط ہے اور اصولِ دنیا داری سے واقف ہونے کی وجہ سے یہ سمندر کی تہہ سے لائے خزانوں کی مدد سے خود کو اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے کیونکہ یہ شخص اس خزانے کی اہمیت سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی بیش بہا قدر کو منوانے کا فن بھی جانتا ہے۔

لیکن ان دو کے علاوہ ایک تیسرا شخص بھی ہے، شاید فطرت کی نامہربانیوں، حالات و سماج کے مظالم یا جینیاتی و حیاتیاتی حادثات کی وجہ سے اس شخص نے جب ہوش کی آنکھ کھولی تو خود کو ایک بیکراں سمندر کے عین وسط میں پایا، ان میں سے کچھ تیراکی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک اپنی بقاء کیلئے جدوجہد نہیں کر سکتے اور زندگی کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اگرچہ ان کا جسم بحرِ سماج میں کئی سالوں تک تیرتا رہتا ہے، اور کچھ اچھے تیراک ہوتے ہیں، یہ سمندر کی تہوں سے قیمتی خزانوں کو اٹھا لاتے ہیں لیکن وہ ان خزانوں کو خشکی کے کناروں تک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں، اگر مسلسل جدوجہد اور خوش قسمتی سے وہ کسی ساحل تک پہنچ بھی جائیں تو اصولِ دنیا داری سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ اپنا قیمتی مال درست خریداروں تک نہیں پہنچا پاتے اور اس مال کی اہمیت و قدر نہ جاننے کی وجہ سے دوسروں کو بھی باور نہیں کرا پاتے ہیں اور یوں یہ محنت بڑی حد تک ضائع ہو جاتی ہے۔

یہاں ساحل سے مراد انسان کا شعور ہے، جب تک اس ساحل یعنی شعوری سوچ کا ٹھوس سہارا فرد کو میسر نہیں ، فرد کی زندگی بھنور میں پھنسی کشتی کی طرح تمام عمر ہچکولے کھاتی رہے گی، دوسرے الفاظ میں انسان کو اپنی طبیعت کا جھکاؤ دیکھ کر اپنے مقصد کا انتخاب کرنا چاہیے اور اس مقصد کے حصول کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لانے چاہئیں، باہری دنیا سے رابطہ یا اصولِ دنیا داری سے مراد درحقیقت انسان کی معاشرتی تعلیم ہے، یعنی اپنے پسندیدہ فیلڈ میں اچھی مہارت حاصل کرنا، اس کیلئے ایک لفظ، انسٹیٹیوشن، مناسب ترین ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کی بات سنی جا سکے، اگر آپ مخصوص تعلیم، مہارت یا تجربہ نہیں رکھتے تو آپ کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا، سمندر انسان کا لاشعور ہے ، اس کی تہوں میں موجود تمام خزانوں تک فرد اسی لاشعور میں غوطہ زن ہوکر رسائی پا سکتا ہے، یعنی یہ لاشعور اس کائنات میں موجود تمام معلومات، دریافتیں، ایجادات اور تخلیقات کے ساتھ ساتھ ماضی کے گزرے واقعات کو دیکھنے اور مستقبل میں جھانک کر پیش گوئی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کہ لاشعور کی بیکراں وسعتوں میں زمان و مکان کا کوئی تصور نہیں۔

انسانوں کی اکثریت کی حالت سمندر کے کنارے پنڈلی گیلی کرنے والے شخص جیسی ہے، جو شعوری سوچ کا ٹھوس سہارا تو رکھتے ہیں لیکن حقیقی خزانوں تک ان کی رسائی نہیں، ایسے افراد اگر موسیقی کی دنیا میں محنت و مشقت کریں تو عطاءاللہ عیسی خیلوی تو بن سکتے ہیں، لیکن بیتھوون نہیں بن سکتے، ادب کے میدان میں شعور کی مدد سے مقصد کے تعین اور محنت کے بعد آپ مستنصر حسین تارڑ تو بن سکتے ہیں لیکن لیو ٹالساٹائی بننے کیلئے آپ کو لاشعور کی گہری تہہ میں غوطہ لگانا ہوگا، فزکس کے میدان میں آپ جدوجہد کر کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقام پا سکتے ہیں لیکن آئن سٹائن بننا ممکن نہیں۔
روحانیت کی دنیا میں انبیاء اس اصول کی بہترین مثال ہیں، جو بحرِ لاشعور کے بہترین تیراک ہونے کے ساتھ ساتھ شعوری سوچ کے ٹھوس ساحل پر موجود اصولِ دنیاداری سے بخوبی واقف تھے، اسی لئے انہوں نے اس بیکراں کائنات سے خیر کے تمام خزانے چن چن کر انسانی معاشرے تک بہترین اسلوب میں پہنچائے، موجودہ دور کے اکثر علماء صرف شعور تک محدود ہیں اور حقیقی صوفیاء تیراک ہونے کے باوجود اصولِ دنیاداری یا شعوری سوچ سے ناواقف ہیں اسی لئے یہ دونوں گروہ فرد کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پا رہے ۔
اس پوری روداد میں سب سے مظلوم طبقہ وہ تیسرا گروہ ہے جو اندرونی خزانوں تک رسائی تو رکھتے ہیں لیکن انہیں خود اس بات کا ادراک نہیں کیونکہ شعور کا ساحل ان کی دسترس میں نہیں، اور سماج ایسے افراد کو ذہنی مریض تصور کرتا ہے یا پھر جنات کے حملے کا رونا رویا جاتا ہے۔

آپ روزمرہ کی بنیاد پر ایسے پیرانارمل واقعات دیکھتے یا سنتے ہونگے کہ ایک بچہ بیٹھے بٹھائے خود کو مہاتما بدھ کا شاگرد بتاتا ہے، کوئی دنیا کے دوسرے کنارے بولی جانے والی زبان مہارت کے ساتھ بولنا شروع کر دیتا ہے، کوئی ہزار سال پرانے واقعات حیران کن تفصیل کے ساتھ بتاتا ہے تو کوئی مستقبل کے کسی واقعے کی سو فیصد درست پیش گوئی کرتا ہے، یہ سب کیا ہے ؟
یہ فرد کی لاشعور کی تہہ میں غوطہ زنی ہے جہاں سے کبھی وہ ماضی کے جھروکوں میں جھانک لیتا ہے تو گاہے مستقبل کی کھڑکی کھول کر آنے والے منظر کو دیکھ لیتا ہے اور کبھی معلومات کا صندوق اپنے ساتھ اٹھا لاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادراک اور شعوری سوچ کے فقدان کی وجہ سے ایسے افراد اکثر ایلوژنز اور ہیلوسینیشنز کا شکار رہتے ہیں، انہیں کچھ ایسا نظر آتا ہے جو عام آدمی نہیں دیکھتا، وہ کچھ ایسا سنتے ہیں جو روایتی کان نہیں سنتے، دنیا ایسے لوگوں کو شیزوفرینیا کا مریض کہتی ہے، طب کے میدان میں بھی انہیں مریض ہی سمجھا جاتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو اگر شعوری سوچ کا ٹھوس ساحل دیا جائے، ان پر محنت کی جائے، انسٹیٹیوشن کے دائرے میں انہیں لایا جائے تو ایسے افراد بیش بہا خزانوں کے مالک ہونے کی وجہ سے انسانیت کیلئے بہترین سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں، اس کی بہترین مثال معروف امریکی ریاضی دان ڈاکٹر جون نیش ہیں، جو ساری عمر شیزوفرینیا سے لڑتے رہے، اچھی تعلیم، اپنے شعبے میں مہارت اور سماج کی مدد سے وہ نوبل پرائز کے حقدار ٹھہرے، اگرچہ ان کی ذہنی صحت کو دیکھتے ہوئے نوبل پرائز آرگنائزیشن آخری وقت تک تحفظات کا شکار رہی کہ تقریب کے دوران اسٹیج پر آکر ڈاکٹر صاحب کوئی “بکواس ” ہی نہ کر ڈالیں کہ جس سے آرگنائزیشن کی بدنامی ہو لیکن ان کے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply