قصّہ شہر بدری کا(4)-شکور پٹھان

آگے کی کہانی بیان کرنے سے پہلے کچھ صفائیاں اور وضاحتیں ضروری ہیں۔

یار لوگ میری یادداشت کی بہت تعریف کرتے ہیں اور سچ کہوں تو اتنی غلط بھی نہیں کرتے۔ میں اپنے بارے میں کبھی کسی خوش فہمی اورخوش گمانی میں مبتلا نہیں رہتا۔ جب کوئی تعریف کرتا ہے تو اندر ہی اندر بہت ڈرتا ہوں کہ مالک میرا پردہ رکھ لےاور تعریف کرنے والے کا گمان غلط ثابت نہ ہو۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ واقعات تو مجھے بہت اچھی طرح سے یاد رہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے وہی فلم چل رہی ہے لیکن ان کا تسلسل اور ترتیب ٹھیک سے یاد نہیں رہتی۔ اس سلسلے میں اکثر گڑبڑ کر جاتا ہوں۔ میں کوئی ڈائری وغیرہ تو لکھتا نہیں تھا اس لیے تاریخیں اور واقعات اکثر آگے پیچھے  ہوجا تے  ہیں۔ میرے سفر نامہ ہند میں بھی جو کہ خالصتاً یادداشت کی بنیاد پر لکھا تھا، اب نظر ثانی کرتا ہوں تو کچھ واقعات کی ترتیب اس طرح نہیں پاتا جس طرح وہ وقوع پذیر ہوئے۔ اب الحمدللّٰہ ایسے ذرائع میسر ہیں کہ تاریخوں کی ترتیب درست کی جا سکتی ہے۔

یہ قصّہ میں ذرا ٹھہر ٹھہر کر سنانا چاہتا تھا لیکن کل کی قسط کے بعد کچھ باتیں کھٹکتی رہیں کہ شاید وہ واقعات اس ترتیب سے نہیں تھے۔ اب میں نے 1975 اور 1976 کے کیلنڈر دیکھے تو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میں نے چچا کے دوستوں اور نئے سال کی شام کا جو ذکر کیا وہ دراصل ایک دن پہلے کے ہیں اور جمعہ کی صبح بازار میں جو خریداری وغیرہ کی وہ اس سے اگلے دن بلکہ دوسرے دن کی باتیں ہیں۔ جمعرات کو نئے سال کی چھٹی تھی اور جمعہ کو جنوری کی دوتاریخ تھی۔

ایک اور بات جسے کچھ دوستوں نے بھی محسوس کیا کہ میں جب تک کراچی کی داستان سنا رہا تھا تو مستقل نوکری کا رونا رو رہا تھا لیکن بحرین پہنچتے ہی صرف کھانے پینے اور فلمیں دیکھنے کی ہی باتیں کررہا ہوں تو اصل بات یہ ہے کہ بحرین پہنچنے کے فوراً بعد اوّل تو نوکری ملنے میں ویسے بھی کچھ وقت درکار تھا دوسرے یہ کہ اگر نوکری ہوتی بھی تو شاید میں فوراً کام پر نہ جاتا کہ بحرین پہنچنے کے دو دن بعد تین دن کی سرکاری چھٹی تھی۔ پہلی جنوری کو نئے عیسوی سال کی، اگلے دن جمعہ تھا اور ہفتے کو نئے اسلامی سال کی چھٹی تھی اور مزے کی بات یہ کہ نیا اسلامی سال بھی منایا جارہا تھا تو نو اور دس محرم کو عاشورہ کی چھٹی بھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واحد اثنين ثلاثة اربعة خمسة ستة سبعة ثمانية تسعة عشرة ۔
ون تھاؤزنڈ ٹو ہنڈریڈ اینڈ فورٹی فائیو
لکھو۔۔۔ألف ومائتان وخمسة وأربعون
چچا بولتے جارہے تھے اور میں لکھ رہا تھا۔
ہفتے کی صبح میں اور چچا ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ چچا مجھے عربی گنتی اور اعداد لکھنا سکھا رہے تھے۔ اگلے دن میرا یو بی ایل بحرین میں انٹرویو تھا۔ اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازے پر میری ہی عمر کا ایک گورا سا،تھوڑا سا گول مٹول اور کچھ پستہ قد سا لڑکا کھڑا تھا۔
“ بابو یہ یوسف ہے” اور چچا نے مجھے یوسف کے حوالے کردیا۔
اور پھر یوسف نے چچا کی امانت کو ایسے سنبھالا کہ وہ بحرین میں میری ضرورت بن کر رہ گیا۔ یوسف کراچی کا کوکنی تھا اور منوڑے کا رہنے والا تھا۔شاید دس منٹ بھی نہ گزرے ہوں کہ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ شاید ہم بچپن سے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم گھر سے باہر منامہ کے بازاروں میں گھوم رہے تھے۔ کیوں گھوم رہے تھے ؟ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔

البتہ یہ یاد ہے کہ ایک دکان پر رک کر یوسف نے دکاندار سے پوچھا “ رفیق! یہ کتنے کا دیا؟” دوسری دکان پر دکاندار کو آواز دی “ ہیلو صدیق” تیسری بار وہ کسی دکان والے کو “حبیبی “ کہہ کر پکار رہا تھا۔

“ یہ تمہارے دوست ہیں کیا؟”
“ کون “
“ یہ رفیق، صدیق، حبیب وغیرہ” میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
یوسف زور سے ہنسا ۔ “ ارے یار یہ ان کو بلانے کے مختلف انداز ہیں “۔
آگے رفیق اور صدیق کے علاوہ یا عمی، یا اخی اور یا ولد بھی ملے۔ لیکن سوائے القاب و آداب کے باقی ساری بات اردو میں ہورہی تھی۔ بحرین میں شاید ہی کوئی مقامی ہو جو اردو ( یا ہندی) نہ جانتا ہو۔ دکاندار، ٹیکسی ڈرائیور، پولیس والے، سرکاری اہلکار، ڈاکٹر نرسیں سب ہی اردو بولتے تھے اور میں نے تو چند ایک بحرینی ایسے دیکھے کہ اہل زبان کی طرح با محاورہ اردو بولتے تھے۔ انہوں نے ہندوستانی یا پاکستانی خواتین سے شادیاں کررکھی تھیں۔ بحرینی دینار اور فلس کے بجائے زیادہ تر روپیہ اور بیزات ( پیسے) کا چلن تھا۔

“تم فلمیں دیکھتے ہو” میں نے پوچھا
اور پھر جو بات شروع ہوئی تو لگتا تھا کہ یوسف صرف فلمیں ہی دیکھتا ہے یا اپنی نوکری کرتا ہے۔ اس نے فلموں کے متعلق مجھے بے حد کارآمد باتیں بتانا شروع کیں اور کچھ ہی دیر میں مجھے دلیپ کمار، پران، اجیت، راج کپور، دیوآنند وغیرہ کے متعلق قیمتی معلومات حاصل ہو چکی تھیں ( دراصل اس زمانے میں فلمیں ہی کل متاع حیات تھیں تو اور کیا بات کرتے)۔

نتیجہ یہ ہوا کہ شام کو ہم دونوں الحمرا سنیما میں دلیپ کمار اور وحیدہ رحمان کی “ دل دیا درد لیا “دیکھ رہے تھے۔ دوران فلم بھی یوسف مجھے آگاہ کرتا رہا کہ “ دیکھو جب دلیپ کمار غصے میں ہوگا تو اس کی پیشانی پر رگوں سے وائی Y بن جائے گا” اور میری ساری توجہ اب دلیپ کمار کی پیشانی پر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“ صبح جلدی اٹھنا اور اچھی طرح سے نہا دھو کر شیو وغیرہ بنا کر تیار رہنا” چچا نے ہدایت کی۔
یہ جنوری کی ابتداء تھی اور بحرین میں ٹھیک ٹھاک سردی تھی۔
“ تم روز نہاتے ہو ناں؟” چچا نے پوچھا۔” روز نہا کر کام پر جایا کرنا اور شیو بھی روز بنایا کرو” چچا نے حکم لگادیا۔
نہانے کی تو خیر تھی۔ کراچی میں سردیوں میں صبح نہیں تو دوپہر کو ہی نہا لیتے تھے لیکن شیو وغیرہ کی عیاشی ہفتے میں ایک یا دودن ہی کرتا تھا۔ بہرحال آج انٹرویو کے لیے جانا تھا۔
حسبِ حکم میں شیو وغیرہ بنا کر اور نئے کپڑے اور نیا سوئٹر پہن کر  اپنی موٹی سی فائل لئے چچا کا منتظر تھا۔ فائل میں میٹرک، انٹر اور بی کام کے سرٹیفکیٹ، ہر کلاس کے پہلے اور دوسرے سال کی مارکس شیٹ، کئی جگہ کی ملازمتوں کے جعلی اور سرکاری ملازمت کا اصلی سرٹیفیکیٹ ، کرکٹ اور ہاکی کے سرٹیفیکٹ، کلاس ون افسر کا تصدیق شدہ کریکٹر سرٹیفیکٹ ، ہاکی کے میچوں کی اخباری خبروں کی کٹنگ، ریڈیو کے کوئز مقابلوں کے دعوت نامے کی کاپیاں اور نجانے کیا کیا الا بلا اس فائل میں تھا۔

“ کیا کوئی مقدمہ لڑنے جارہے ہو؟” چچا نے فائل کی طرف دیکھا “ اس میں کیا ہے؟”۔
میں نے تفصیل بتائی، چچا کچھ حیران ہوئے ۔ پھر مسکرائے۔” چلو دیکھتے ہیں”۔

باب البحرین کے سامنے والی ٹیڑھی میڑھی اور تنگ سی سڑک پر “ یونائتید بنک لمیتید” کے بورڈ کے سامنے چچا نے مجھے اتار دیا۔
“ اندر عارف مقصود سے مل لینا۔ کہنا نور نے بھیجا ہے” چچا خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔

بنک کے چھوٹے سے ہال میں کیش  کاؤنٹر کے سامنے کھڑے ہوکر سوچتا رہا کہ عارف مقصود کے بارے میں انگریزی میں پوچھنا ہے یا عربی میں یا اردو میں ؟ ۔ یہاں پہلی بار کسی دفتر میں داخل ہوا تھا اور کئی اندیشے سر اٹھا رہے تھے کہ عربی تو آتی ہی نہیں، انگریزی بھی بس لٹھ مار سی ہے۔ اللہ عزت رکھ لے۔
“ تسی ہینج کرو کہ اے ٹوکن لے کر اس کاؤنٹر تے چلے جاؤ” مجھے کاؤنٹر کے پیچھے سے آواز آئی۔
“ ارے لیاقت وہ ٹی او ڈی اور سی اوڈی کا اسٹیٹمنٹ کمپلیٹ ہوگیا” دوسری آواز سنائی دی۔
“ ابھی لایا سر” اور میں نے اطمینان کی گہری سانس لی۔ کائنٹروں کے پیچھے سارے اپنے پاکستانی بھائی تھے اور دھڑلے سے اردو اور پنجابی بول رہے تھے۔ میری جان میں جان آئی۔

“ اسلام علیکم۔ مجھے عارف مقصود صاحب سے ملنا ہے “ میں نے دبی دبی آواز میں ایک نوجوان سے پوچھا جو ٹائی لگائے ہوئے تھا۔
“ ان سے کیا کام ہے؟”خشک سا جواب ملا۔
“ وہ جی ملنا ہے جی” میں منمنایا۔
“ وہ اے وی پی ہیں۔ تمہیں پتہ ہے؟” نوجوان نے درشت لہجے میں پوچھا۔
“ نہیں جی۔۔ہاں جی” عارف مقصود سب سے بڑے منیجر ہیں یہ تو پتہ تھا لیکن اے وی پی کیا ہوتا ہے ، یہ مجھے نہیں معلوم تھا۔
“ کوئی اپائنٹمنٹ ہے؟۔ کیوں ملنا ہے” نوجوان شاید کوئی کلرک تھا اور وہ بھی شاید عارف مقصود سے آسانی سے نہیں مل سکتا ہو۔ بغیر تصدیق کے وہ مجھے اندر بھیجتے ہوئے گھبرا رہا تھا۔
“ جی انٹرویو ہے، ان کے ساتھ” میں نے اندھیرے میں تیر پھینکا۔ چچا نے ملنے کو کہا تھا۔ انٹرویو وغیرہ کی تو کوئی بات نہیں تھی۔ وہ تو میں نے فرض کرلیا تھا کہ انٹرویو ہے۔
“ انٹر ویو ہے؟ “اس نے حیرت سے مجھے دیکھا پھر مڑ کر ہال کے ایک کونے میں بڑی سی میز کی طرف مڑا۔میز پر منیجر کی تختی لگی ہوئی تھی۔

“ امتیاز صاحب اسے عارف صاحب سے ملنا ہے، کہہ رہا ہے انٹرویو ہے”
سوئیٹر اور قمیض کے نیچے بغلوں میں بہتا پسینہ مجھے واضح طور پر محسوس ہورہا تھا۔ اللہ جانے عارف مقصود کون اور کتنے بڑے ہیں کہ ان سے ملوانے میں اس قدر تردّد ہے۔
“ انٹرویو ہے؟ کس نے بھیجا ہے” امتیاز صاحب کی آواز میں نسبتًا نرمی اور شائستگی تھی۔
“ جی نور صاحب نے۔۔ نور پٹھان صاحب نے۔ وہ بحرین گیس والے “
“ اوہ نور بھائی نے بھیجا ہے، اچھا، “ انہوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں شیشے کے پیچھے کیبن میں سیاہ سوٹ میں ملبوس کوئی صاحب فون پر مصروف تھے۔
“ دو منٹ رک جائیں۔ عارف صاحب فون سے فارغ ہوجائیں تو چلے جائیے گا”۔ میں نے شکر کا سانس لیا اور ٹائی والے نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ بھی مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد میں سیاہ سوٹ والے کے سامنے بیٹھا تھا۔ یہ ایک چھریرے جسم والے، اسمارٹ سے صاحب تھے۔ سر کے بال اور مونچھیں سفید تھیں لیکن وہ نہیں جو بڑھاپے کے باعث سفید ہوجاتی ہیں بلکہ وہ جنہیں نزلہ مار دیتا ہے۔
“ کب آئے” انہوں نے نرمی سے پوچھا
دوچار ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا “ کہاں پڑھتے تھے کراچی میں “۔
“ جی گورنمنٹ کامرس میں “ میں نے بتایا۔
“ اوہ، گورنمنٹ کامرس میں، واہ۔ حسین جو کیش پر بیٹھے ہیں وہ بھی وہیں کے پڑھے ہوئے ہیں “ انہوں نے کیبن کے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“ اچھا ایک کام کریں اوپر اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں چلے جائیں وہاں مبین صاحب ہیں وہ سمجھا دیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ آل دا بیسٹ” انہوں نے خوشگوار انداز میں کہا۔
“ یہ سرٹیفیکٹ وغیرہ دیکھیں گے” میں نے فائل کی طرف اشارہ کیا۔
“ نہیں کوئی ضرورت نہیں ۔۔ٹھیک ہے” انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔
میں ان کا شکریہ ادا کرکے اوپر چلا گیا۔

بنک کی جس ملازمت کے لئے میں حکومتی پارٹی کے اہم رکن کی سفارشی چٹھی لے کر اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر مینائی صاحب کے پاس گیا تھا اور جس چٹھی کو انہوں نے ڈسٹ بن میں ڈال دیا تھا۔ جس ملازمت کے لئے صابو بھائی کے ساتھ یو بی ایل کے ہیڈکوارٹر میں سارا دن خوار ہوا تھا اور جس نوکری کے لیےمسلم کمرشل بنک میں تحریری امتحان، انٹرویو اور فائنل انٹرویو میں کامیابی کے باوجود اس لئے منتخب نہیں ہوا کہ میرا ڈومیسائل کراچی کا تھا۔ بنک کی وہی نوکری بغیر کسی کوشش کے صرف ایک سوال “ کہاں پڑھتے تھے؟” کے جواب میں مل گئی تھی۔

اللہ جانے نور صاحب کے تعلق کی وجہ سے، گورنمنٹ کامرس کی وجہ سے یہ نوکری ملی لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کا اجر ضرور چچا کو اور عارف مقصود کو جاتا ہے ( عارف مقصود اب مرحوم ہوچکے ہیں اور وہ انور مقصود حمیدی کے فرسٹ کزن تھے، خدا غریق رحمت کرے)۔ لیکن نہ چچا، نہ عارف مقصود اور نہ ہی گورنمنٹ کامرس کی تعلیم، یہ تو بس صرف اور صرف اوپر والے کا کرم ہوتا ہے بندے کی کیا حیثیت ہے۔

ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

4جنوری 1976سے جو سفر بحرین میں یوبی ایل باب البحرین برانچ سے شروع ہوا اس کا اختتام 25 جولائی 2018 میں جاکر ہوا۔ رہے نام اللہ کا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply