کیا مصر کے مفتی اعظم یہ سب نہیں جانتے؟/نذر حافی

یہ 24 جون 2023ء کی بات ہے۔ ہم کوئی پرانا قصّہ نہیں لکھ رہے۔ مسٹر مودی نے امریکہ کے بعد مصر کا دورہ کیا۔ مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبد الکریم علام نے اس دوران مسٹر مودی کی تعریف میں زَمِین و آسْمان کے قُلابے مِلائے۔بلاشبہ ہم ساری دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ ہمیں مکالمے کی اہمیت سے بھی انکار نہیں۔ ہم مفتی اعظم مصر کی ہندوستانی وزیراعظم سے ملاقات کے ہرگز مخالف نہیں بلکہ جس بات پر ہم معترض ہیں، اُسے سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔ اس ملاقات کا جو محتویٰ منظرِ عام پر آیا، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ اس کے تکلیف دہ ہونے کی وجہ اُس کا خلافِ حقیقت ہونا ہے۔ مفتی اعظم مصر نے مسٹر مودی کی تعریف میں جو کچھ کہا ہے، اس سے کروڑوں ہندی و پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں کی براہِ راست دل آزاری ہوئی۔ اگر مصر کا کوئی شاعر، بیوروکریٹ یا کسی اور شعبے کا کوئی آدمی ایسا کرتا تو اور بات تھی، لیکن مفتی اعظم کا مسٹر مودی کے بارے میں داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا مسلمانوں اور ہندوستان میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہے۔

اس بے جا تعریف کے بارے میں پاکستان سے مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب کا کہنا ہے کہ مصر کے چار روزہ دورے پر آئے ہوئے بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کی مصر کے مفتی اعظم نے جس طرح تعریف کی ہے، وہ بہت قابل افسوس ہے۔ مفتی اعظم مصر نے کہا ہے “مودی بھارت میں مختلف مذہبی طبقات میں بقائے باہمی اور ہم آہنگی بڑھانے کے لیے قابل تعریف کام کر رہے ہیں۔” مفتی صاحب نے فرمایا کہ میں مودی کی دانشمندانہ قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میں مودی کے تدبر کو خراج تحسین ہیش کرتا ہوں۔” جب سے میں نے یہ بیان پڑھا ہے، یقین جانیے دل بہت غمگین ہے۔ اےکاش! مفتی صاحب حقائق پر مبنی بیان دیتے۔ مودی کی تعریف کرنے سے پہلے اپنے مظلوم بھارتی مسلمان بھائیوں کی حالت زار کو دیکھ لیتے۔ کشمیر کے مظلوم مسلمان آخر مفتی اعظم کو نظر کیوں نہیں آئے۔ مودی حکومت نے سکھوں کے گردواروں کو نظر آتش کروایا، عیسائیوں کے چرچوں کو مسمار کروایا اور انہیں آگ لگوائی۔ کیا مصر میں بھی ایسی ہی بین المذاہب ہم آہنگی ہے، جیسی بھارت میں ہے!!!! مجھے اس بیان پر بڑا دکھ ہوا ہے۔

ابھی تک مفتی گلزار نعیمی صاحب کے علاوہ کسی اور اہم شخصیت کی طرف سے مفتی مصر کے ان کلمات پر اظہارِ افسوس نہیں کیا گیا۔ ہم قارئین کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ مفتی اعظم مصر نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے بھارتی وزیراعظم سے دوسری مرتبہ ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا ہے، جو بہترین اور دلچسپ رہا۔ قبل ازیں ان سے نئی دہلی میں صوفی کانفرنس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔ پتہ نہیں مسٹر مودی میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ جس کی وجہ سے مفتی اعظم مصر کو مسٹر مودی سے ملاقات اپنے لئے اعزاز محسوس ہو رہی ہے! مودی کے دیگر ظالمانہ اقدامات اپنی جگہ، لیکن کیا مفتی اعظم دسمبر 2019ء میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف لارڈز کی کارروائی سے بھی لاعلم ہیں؟ مسٹر مودی نے پڑوسی ممالک کے غیر مسلم تارکین وطن کی شہریت قبول کرنے کے بل کی منظوری دی۔ یہ بِل بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو پسماندگی میں دھکیلنے کیلئے منظور کرایا گیا۔ یہ سراسر اس ملک کے آئین میں بیان کردہ مساوات کے اصولوں اور مسلمانوں کی توہین ہے۔ مسلمانوں کی یہ توہین انتہاء پسند “مودی” کے حکومتی کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس استبدادی بل کو 105 کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔

اس کے علاوہ نریندر مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مسلمانوں کی شناخت کو مٹانے کیلئے کئی علاقوں کے اسلامی ناموں کو ختم کر دیا ہے۔ آپ بطورِ نمونہ صرف چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں کہ الہ آباد شہر کا نام صرف اس لئے تبدیل کرکے پریاگ یا پریاگ راج رکھا گیا، چونکہ یہ نام 435 سال پہلے ایک مسلمان حکمران نے چنا تھا۔ اسی طرح ہندوستان کے ایک انتہائی مشہور مقام فیض آباد کا نام تبدیل کرکے ایودھیا رکھ دیا گیا۔ مودی نے آگرہ، احمد آباد اور تاج محل کا نام بھی تبدیل کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ رہی بات کشمیر کی تو جو کچھ مودی نے کشمیریوں کے ساتھ کیا، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مودی سرکار نے ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے نہتے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی، جغرافیائی اور مذہبی صورتحال کو بدلنے کیلئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر دیا گیا۔

اس کے بعد تیزی سے غیر مسلموں کو کشمیر میں بسایا جا رہا ہے اور کشمیریوں کو فلسطینیوں کی مانند اُن کی اپنی زمینوں سے بے دخل کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک بڑی جیل میں تبدیل ہوچکا ہے اور یسین ملک سمیت ساری کشمیری قیادت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ مودی سرکار کے بعد کشمیریوں کیلئے ہر روز روزِ سیاہ ہے۔ ویسے تعجب ہے کہ مفتی اعظم نے بھارتی جھنڈے کے سامنے کھڑے ہو کر بھارتی وزیراعظم کے تدبر کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے ہندوستان جیسے ایک بڑے ملک کیلئے مسٹر مودی کو ایک مناسب حکمران قرار دیا اور ان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو سراہا۔ ایسی تعریفیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا مفتی اعظم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں اوسطاً ہر سات کشمیریوں کیلئے ایک مسلح فوجی اہلکار تعینات ہے۔ کیا دنیا میں مقبوضہ کشمیر سے زیادہ ملٹرائزڈ ریاست کوئی اور بھی ہے۔؟ مقبوضہ کشمیر میں کئی سالوں سے بدترین لاک ڈاون ہے، انسانی حقوق اور چادر و چار دیواری کے تقدس نام کی کوئی چیز نہیں، میڈیا، صحافت، پریس مواصلات، انٹرنیٹ و ٹیلی فون اور ذرائع ابلاغ وغیرہ سب کچھ ٹھپ ہے۔ مقامی لوگوں کے باغات، فصلیں اور تجارت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ مودی سرکار نے نوّے ہزار شہداء کی وارث، ریاستِ جموّں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، لیکن دنیا ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ حتی کہ مفتیانِ دین بھی مودی سرکار کے قصائد پڑھتے نظر آتے ہیں۔ جو غلط کے خلاف نہیں بولتا، وہ بھی دراصل غلط میں شریک ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ مصر کے مفتی اعظم اتنے لاعلم کیوں ہیں اور پاکستان و ہندوستان اور کشمیر کے مفتیانِ دین اتنے بے حس کیوں۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply