پارلیمان کی نجکاری ۔۔آصف محمود

’’پی آئی اے خریدو ، سٹیل ملز مفت میں لے جاؤ ‘‘ جناب مفتاح اسماعیل کا یہ اعلان بتا رہا ہے تجربے کاروں کو جمہوریت کو بہترین انتقام بنا کر دنیا کو دکھا دینے کی کتنی جلدی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پی آئی اے اور سٹیل ملز ریاست کے ادارے ہیں یا مفتاح اسماعیل صاحب کواپنے والد گرامی سے وراثت میں ملے ہیں اورخاندانی جاگیر کا مالک ہونے کے ناطے انہیں اس بات کی مکمل آزادی ہے وہ چاہیں تو ان اداروں کا ستیا ناس کریں اور جی میں آئے توسوا ستیا ناس؟

حیران ہو کر میں نے سوچا یہ مفتاح اسماعیل کون ہیں اور وزیر اعظم کے خصوصی مشیر کا منصب انہیں کیسے عطا فرما دیا گیا؟ معلوم ہوا نوے کی دہائی میں صاحب آئی ایم ایف کے لیے کام کرتے تھے پھر ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے پاکستان تشریف لے آئے اور مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے۔ صاحب بسکٹ ، آلو کے چپس اور پلاسٹک کا کاروبار کرتے ہیں لیکن انہیں حیران کن طور پر 2013 میں پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کا رکن بنا دیا گیا۔ پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے کہ صرف ایک ماہ بعد یعنی نومبر 2013میں انہیں سوئی سدرن گیس کے بورڈ آف ڈائرکٹر کابھی رکن بنا دیا گیا۔

تماشا دیکھیے ، پی آئی کے سابق چیئر مین اس وقت وزیر اعظم ہیں اور پی آئی اے بورڈ آف ڈائرکٹرز کے سابق رکن ان کے خصوصی مشیر۔وزیر اعظم پی آئی اے کے کاروباری حریف بھی ہیں اور انہوں نے نجی ایر لائن پی آئی اے چیئر مین کے منصب سے الگ ہو کر اس وقت کھولی تھی جب وہ پی آئی اے کے کاروباری رازوں سے واقف ہو چکے تھے۔ ہم کیسے مان لیں یہ محض اتفاق ہے کہ ان اداروں کا ستیا ناس کیا جا رہا ہے جب کہ ہم دیکھ رہے ہیں نواز شریف صاحب کا کاروبار سٹیل ملز کا کاروباری حریف ہے اور شاہد خاقان عباسی کی نجی ایر لائن پی آئی اے کی کاروباری حریف۔دنیا میں کہیں بھی ’’ مفادات کے ٹکراؤ‘‘ کے قانون کو یوں پامال نہیں کیا جاتا جیسے ہمارے ہاں کیا جا رہا ہے اور اس پر سوال اٹھایا جائے تو کہا جاتا ہے حدادب، گستاخ ، تم جمہوریت کے خلاف سازش کر رہے ہو۔تمہیں معلوم نہیں تہتر کے آئین کے تناظر میں فیصلہ سازی ہمارا حق ہے۔

ایک اہم ترین سوال یہ ہے مسلم لیگ ن کی حکومت کو ان دو اداروں کی نجکاری کی اتنی جلدی کیوں ہے؟ صرف دو ماہ کا ان کا اقتدار باقی رہ گیا ہے۔ ڈھنگ کا کوئی کام تو ان سے ہو نہیں رہا لیکن پی آئی اے اور سٹیل ملز کے پیچھے یہ ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ اصولی طور پر اب جب ان کی حکومت کی مدت ختم ہونے کو ہے انہیں یہ معاملہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اور اس کے کارندے ایک پراسرار سرعت کا شکار ہیں ۔ جانے کیوں وہ اس معاملے کو جلد از جلد نبٹا دینا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کیوں؟ کیا بندر بانٹ تو نہیں ہونے جا رہی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گھوسٹ نجکاری کر کے حکمران طبقہ خود ہی ان اداروں کو ہضم کرنا چاہتا ہے؟ اس خدشے کا اظہار کئی اہم سیاسی شخصیات کر چکی ہیں کہ نجکاری کے نام پر ان اداروں کو اونے پونے داموں بیچا جائے گا اور حکمران خود ہی خریدار ہوں گے ۔ قانونی تقاضے پورا کرنے کے لیے البتہ کسی کو سامنے لایا جائے گا اور بظاہر اس سارے عمل میں حکمران کہیں نظر نہیں آئیں گے۔

جو طرز حکومت ہمارے سامنے ہے اس میں ان خدشات کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔کیسے مان لیا جائے کہ نجکاری کا عمل شفاف ہو گا؟ ابھی صورت حال یہ ہے کہ میٹرو سے لے کر آشیانہ ہاوسنگ سکیم جس منصوبے کو نیب نے پرکھا اس میں کرپشن کا بھوت بر آمد ہوا۔ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر ایک کارٹل سا بنا لیا گیا ہے اور کسی پر قانون نافذ ہونے لگے تو شور بپا کر دیا جاتا ہے۔ جس حکومت کے وزیر خزانہ کے ذاتی اثاثوں میں 91 گنا اضافہ ہو جائے اور قانون سے بچنے کے لیے وہ مفرور ہو جائے اس حکومت پر کیسے اعتبار کیا جائے کہ وہ نجکاری کے عمل کو شفاف رکھ پائے گی۔ ان کی بے تابیاں بتا رہی ہیں معاملہ کچھ اور ہے۔

اقربا پروری بھی اپنے عروج پر ہے اور سوکھے ہوئے پھولوں کی طرح میرٹ بھی اب صرف کتابوں میں ملتا ہے۔ کشمالہ طارق یہاں وفاقی محتسب ہیں اور نیب جس کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے اس علی جہانگیر کو امریکہ میں سفیر بنا دیا گیا ہے۔ چند تقرریاں جن سے میرٹ پر نہ ہو سکیں کیا وہ بھاری مالیت کی نجکاری کے عمل میں گنگا نہانے سے اجتناب فرمائیں گے؟ حکومت کی مدت بھی ختم ہو رہی ہے اور اس کے اکابرین خوفناک کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ آف شور کمپنیوں والی سرکار نجکاری کرے گی تو انجام نوشتہ دیوار ہے ۔ یہ نجکاری نہیں اتوار بازار ہو گا
۔
ان کے ذاتی کاروبار تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کریں لیکن ریاستی اداروں کا بیڑہ غرق ہو جائے ،یہ کیا معاملہ ہے؟ارشاد ہوتا ہے ادارے چلانے حکومت کا کام نہیں۔سوال یہ ہے کہ حکومت کا آخر کام کیا ہے؟ ادارے آپ سے نہیں چل رہے، ہسپتال آپ بہتر نہیں بنا سکے، تعلیم آپ نے پرائیویٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی، تھانوں میں آپ نے ذاتی غلام لا بٹھائے ، پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ کھانے کو خالص خوراک، ادویات ہیں تو ناقص۔آپ کا کام کیا صرف بھاری رقوم خرچ کر کے ایوان میں پہنچنا اور پھر سود کے ساتھ اس غریب سے وصولی کرنا رہ گیا ہے ؟

تاہم اگر نجکاری ہی واحد حل ہے تو ایک اور تجویز پر کیوں نہ غور فرما لیا جائے۔ کیوں نہ ہم اپنی پوری پارلیمان کی نجکاری کر دیں ۔ مہذب معاشروں میں بہت سے دولت مند ہوں گے جن کے اندر کا شیطان چاہتا ہو گا کہ وہ اس زمین پر فرعون کی صورت وقت گزاریں اور کوئی قانون ان کو چھو نہ سکے۔ ایسے کئی لوگ مل جائیں گے جو یورپ کی قانون کی حکمرانی سے اکتا کر اپنی دولت کے بل بوتے پر قانون کو قدموں تلے روندنے کی خواہش رکھتے ہوں گے۔ ہمارے تمام سفارت خانے دنیا بھر میں اعلان کریں کہ اتنی رقم ہمیں دیجیے ہم آپ کو آپ کے خوابوں کی دنیا میں لے جائیں گے۔ ایسی دنیا میں جہاں قانون اور ضابطے آپ کے قدموں میں پڑے رہیں گے۔ آپ سڑک پر نکلیں آپ کے آگے دندناتے ہوئے عجیب صورتوں کے لوگ خلق خدا کو دھتکارتے ہوئے آپ کے لیے سڑکیں خالی کراتے چلیں گے۔ آپ کا بد صورت قافلہ اسلام آباد جیسے شہر میں کسی کو روند دے یا آپ کا گارڈ سر بازار کسی کو گولی سے اڑا دے کوئی آپ کو ہاتھ تک نہ لگا سکے گا۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں خلق خدابے شک کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتی رہے لیکن آپ کا استحقاق کبھی مجروح نہیں ہو گا۔ آپ جی بھر لوٹ مار کیجیے جیسے ہی قانون نے آپ کی طرف دیکھا وہیں جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی، اسے کالی کھانسی نزلہ زکام تپ دق اور تشنج ہو جائے گا۔ایسے مزے ہوں گے کہ کوئی آپ سے کوئی سوال نہیں کرے گا ، الٹا مفت میں آپ سب کو اپنے اپنے حصے کے بے وقوف مل جائیں گے جو آپ کے لیے ایک دوسرے سے الجھتے رہیں گے۔

ذرا تصور کیجیے دنیا میں کتنے ہی دولت مند اور جرائم پیشہ لوگ ہوں گے جو ایسے خوابناک ماحول کے مزے لینے کے لیے دولت کے انبار آپ کے قدموں میں رکھ دیں گے۔ جناب مفتاح اسماعیل صاحب ، ذرا حساب لگا کر تو دیکھیے چار صوبائی اسمبلیاں ، ایک قومی اسمبلی اور ایک سینیٹ ۔ نجکاری میں ہر سیٹ کی قیمت اگر صرف ایک کروڑ بھی رکھی جائے تو قومی خزانے میں کتنا مال آ جائے گا۔ اور اگر وزیر اعظم کے خصوصی مشیر اوروزرائے کرام کے منصب جلیلہ کی بھی نجکاری کر دی جائے تو پھر تو ہماری معاشی خوشحالی دنیا کے لیے ایک روشن مثال بن جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو جناب مفتاح اسماعیل ، کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلے کے؟کیا یہ آواز لگا دی جائے کہ جو قومی اسمبلی کی ایک نشست خریدے گا اسے وزیر اعظم کے مشیر خصوصی کا عہدہ مفت میں دے دیا جائے گا؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply