آپ کرسچن کیوں نہیں ہوجاتے؟/طفیل مزاری

ذرا تصور کریں کہ امریکہ میں کوئی شو ہو رہا ہے اور اس میں ایک ایسی مسلمان شخصیت مدعو ہے، جس کا شریک حیات عیسائی ہے اور میزبان اچانک اس سے یہ سوال کردے کہ آپ کرسچن کیوں نہیں ہو جاتے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کا جواب یہی ہو گا کہ امریکی معاشرے میں ایسے بیہودہ سوال کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔

چلیں زیادہ دور نہیں جاتے، اپنے جیسے پڑوسی ملک بھارت کی ہی مثال لے لیتے ہیں۔ جہاں کسی پروگرام میں شاہ رخ خان، عامر خان، سیف علی یا نصیر الدین شاہ جیسی کوئی شخصیت مہمان ہے اور کوئی ہندو میزبان گوری خان، کرن راؤ، کرینہ کپور یا رتنا پاٹھک کا حوالہ دے کر ان سے یہ سوال کردے کہ آپ کا ہندو بننے کا کیا ارادہ ہے؟ اور جواب میں جب وہ اپنا مذہب تبدیل کرنے سے انکار کردے تو ہندو میزبان اپنی بھدی سی طنزیہ مسکراہٹ سے اسے یہ دعا کردے کہ بھگوان آپ کو صحیح دشا دکھلائے تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟

نادر علی نامی یوٹیوبر کو میں نہیں جانتا تھا، لیکن جب مجھے میرے بیٹے عباس نے یہ وڈیو دکھائی تو میں حیران رہ گیا۔ پوڈ کاسٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سنیتا مارشل بہت عمدگی سے سوالوں کے جواب دے رہی ہیں اور پھر اچانک اس پر ذاتی نوعیت کے سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے۔

سنیتا کیا آپ کرسچن ہیں؟
جی
آپ کے شوہر مسلمان ہیں؟
جی
بچے کیا فالو کر رہے ہیں؟
اسلام
آپ کا کیا ارادہ ہے؟
میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

یہاں تک پہنچتے سنیتا نے اپنے عقیدے، بچوں کے مذہب اور فیملی کے متعلق پوچھے گئے انتہائی ذاتی نوعیت کے سوالوں کو ہینڈل تو کر لیا، لیکن بعد میں جب نوبت ”ہاں، تو، پھر“ جیسے الفاظ پر آن پہنچی تو وہ اپنے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے کافی غیر آرام دہ صورت حال میں نظر آئیں۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں میڈیا کے سامنے مذہب کے متعلق بات کرتے ہوئے ذرا سی لغزش کی سزا وہ بخوبی جانتی تھی۔

عین ممکن ہے کہ اگر وہ کسی غیر ملک میں ہوتی تو منکر نکیر بنے میزبان کے غیر ضروری سوالوں کے جواب دینے کے بجائے اس کو کھری کھری سنا دیتی کہ تم ہوتے کون ہو؟ جو مجھ سے میرا یا میرے بچوں کا عقیدہ پوچھ رہے ہو، یا الٹا خود اس سے یہ سوال کر دیتی کہ تم کرسچن کیوں نہیں ہو جاتے؟ لیکن کیا کیجئے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جہاں قدم قدم پر خدائی فوجدار جیتے جی آپ کو قبر کے عذاب کا مزہ چکھانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

اس ملک میں انسانی حقوق، مذہبی رواداری اور ماحول کی گھٹن کا اندازہ کیجئے کہ جس عورت کے شوہر کو اپنی بیوی کے عقیدے پر کوئی اعتراض نہیں، کہ اسے یہ تعلق استوار کرنے کی اجازت اس کا مذہب دیتا ہے۔ اسے پوری دنیا کے سامنے کوئی تیسرا شخص اپنی کسوٹی سے پرکھنے کی کوشش کرتا ہے، اسے آزمائش سے دو چار کرتا ہے، جانے انجانے اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہے اور آخر میں اس بھٹکی ہوئی عورت کو ہدایت کی دعا دے کر مطمئن ہوتا ہے۔

سنیتا مارشل سے زیادہ ہدایت کی ضرورت ان جیسی زومبیز کو ہے جو اپنا کردار سدھارنے کے بجائے ہر وقت دوسروں کے عقیدوں کی جانچ پڑتال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ستانوے فیصد مسلمانوں کے ہوتے ہوئے ملک کا جو حال ہوا ہے، بقیہ تین فیصد کے اس طرح عقائد بدل کر جو ہو گا وہ سبھی جانتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خوش آئند بات یہ ہوئی کہ سوشل میڈیا پر متحرک باشعور لوگوں نے ایسی باتوں کی کھل کر مذمت کرنا شروع کردی ہے، یہی وجہ ہے کہ جامعات میں ہولی منانے سے روکنے والی خالہ اور غیر ضروری سوال کرنے والے اس جہالت کے نمونے کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ آگہی، علم اور شعور کی یہ شمع جب تک جلتی رہے گی، پاکستان کے آگے بڑھنے کی امید بھی برقرار رہے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply