یہ موضوع دلچسپ بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ اس پر لکھنے کی ضرورت محسوس ہو گی، لیکن چلیں، لکھنے میں ہرج ہی کیا ہے۔
نبی کریمﷺ کے دور میں عربوں کے ہاں دو طرح کے سکے رائج تھے۔ دینار، بازنطینیوں کا سکہ تھا جس کا وزن 4.25 گرام سونے کے برابر ہوا کرتا تھا۔ درہم ایرانیوں کا سکہ تھا جو 3 گرام چاندی کے مساوی تھا۔ ان دونوں کا باہم ایکسچینج ریٹ غالباً 1:10 تھا، یعنی ایک دینار کے بدلے دس درہم۔ عربوں نے خود اونٹ کے چمڑے کے سکے چلانے کی کوشش کی تھی، اور یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے۔ مگر جلد انہیں ترک کر دیا گیا تھا۔
آپ ﷺ نے کوئی اسلامی کرنسی ایجاد کرنے کی ہرگز کوشش یا ہدایت نہیں فرمائی۔ انہی بازنطینی اور ایرانی سکوں پر مملکت کا کاروبار چلتا رہا۔ قرآن اور حدیث میں کرنسی کے جائز یا ناجائز ہونے کا قطعی کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ تصور، جیسا کہ آپ آگے پڑھیں گے، بہت بعد کی انتہائی ناقص ایجاد ہے۔ اور اس کی بنیاد صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے۔
حضرت عمر رض کے دور میں تین چار مختلف اوزان کے دینار رواج پا گئے تھے۔ ان میں ایک باغلی دینار تھا جو بازنطینی دینار سے بھی بھاری تھا۔ ایک طبری دینار تھا جو بازنطینی سے ہلکا تھا، اور شاید ایک افریقی دینار بھی۔ ان سب کا عام استعمال ہوتا تھا۔ حضرت عمر نے ان کا اوسط وزن لے کر جو غالباً ساڑھے تین گرام بنتا تھا، نیا دینار جاری کرنے کا حکم فرمایا۔ یہ جاری ہوا بھی مگر جلد ختم ہوگیا۔ ایسا ہی تجربہ حضرت عثمان غنی رض اور حضرت علی رض کے دور میں بھی ہوا۔ ان کے جاری کردہ سکّے بھی زیادہ عرصہ سرکولیشن میں نہ رہ پائے۔
جسے باقاعدہ طور پر پہلا اسلامی یا مسلم سکّہ قرار دیا جا سکتا ہے وہ عبد الملک بن مروان نے جاری کیا تھا۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی تھی کہ رومن سلطنت سے جو کپڑا درآمد ہوتا تھا، رومیوں نے اس میں مسیحی مذہبی علامات کا استعمال شروع کر دیا۔ جب مروان کو پتہ چلا تو اس نے مصر میں تیار ہونے والے کپڑے میں جو روم جایا کرتا تھا، اسلامی یا عرب عبارتیں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس پر سننے میں آیا کہ رومن حکومت اپنے سکّوں پر پیغمبر اسلام کی توہین پہ مبنی عبارت لکھوانے کی دھمکی دے رہی ہے۔ یہ ظاہر ہے تشویشناک صورتحال تھی کیونکہ یہی سکّہ اسلامی مملکت میں بھی رائج تھا۔ تو یوں اسلامی درہم کا ظہور ہوا۔
بعد میں آنے والی تمام حکومتیں اور خلافتیں بھی معمولی ردوبدل کے ساتھ اپنی کرنسی جاری کرتی رہیں۔ ان سب کی بنیاد وہی بازنطینی فارمولا تھا۔
مطلب یہ کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے تابعین تک کرنسی جائز اور ناجائز نہیں ہوتی تھی۔ کرنسی صرف کرنسی ہوا کرتی تھی۔
پھر وہ دور آیا جس میں ہر سوراخ میں انگلی دینا، یعنی دنیا کے ہر مسئلے کو دین کا مسئلہ بنا دینا لازمی سمجھا جانے لگا۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک سے زائد مواقع پر اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی فرمائی تھی اور لوگوں کو ہر بات میں حلال اور حرام پوچھنے سے منع کیا تھا۔
اور سوری، یہاں ایک اور بات بھی ذہن میں رکھیں جس کا میں اوپر تذکرہ بھول گیا۔ دور نبوت اور دور خلافت میں، بلکہ ہندوستان میں تو بیسویں صدی تک، کرنسی کے ساتھ ساتھ بارٹر سسٹم یعنی اشیاء کا اشیاء سے تبادلہ بھی مروج تھا۔
تو فقہائے کرام نے کیا کیا؟ انہوں نے صحیح مسلم کی ایک حدیث اٹھائی۔ جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا
” سونے کا بدلہ سونا، چاندی کا بدلہ چاندی، گندم کا بدلہ گندم، کھجور کا بدلہ کھجور اور نمک کا بدلہ نمک ہے۔ ایک جیسے کیلئے ایک جیسا اور برابر کیلئے برابر۔ اور سودا ہاتھ کے ہاتھ ہو۔ پس اگر ان اقسام میں فرق ہو تو جیسے چاہو ہاتھ کے ہاتھ سودا کر لیا کرو۔”
اس حدیث اور دو تین قرآنی آیات کو لے کر، جن میں درہم اور دینار کا محض برسبیل تذکرہ ذکر ہوا، فقہاء نے مندرجہ ذیل اصول مرتب فرمائے۔
1- سونے اور چاندی کے علاوہ گندم، کھجور، جو اور نمک بھی کرنسی کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔
2- چونکہ ان سب اشیاء کی اپنی ایک قدر ہے، اس لئے کرنسی کی بھی اپنی قدر ہونا لازمی ہے۔ یعنی کوئی شے اگر بذات خود intrinsic value نہیں رکھتی تو وہ کرنسی نہیں کہلائے گی۔
3- کرنسی کو ہر جگہ اور ہر مقام پر تبادلے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔
4- اسے اشیاء کے علاوہ خدمات کی ادائیگی کا ذریعہ بھی ہونا چاہیے۔
5- اس کی قدر مستقل ہونی چاہیے۔ یہاں مستقل سے مراد یکساں نہیں ہے۔ یعنی جیسے سونے اور چاندی کے سکے طویل عرصے تک اپنا وزن یا قدر برقرار رکھتے ہیں۔
6- اور یہ کہ کرنسیوں کے باہم تبادلے میں ان کی قیمت یکساں ہونی چاہیے۔
اب آپ اوپر بیان کردہ حدیث دوبارہ پڑھیں تو آپ کو خود سمجھ آ جائے گی کہ نبی کریم ﷺ “بارٹر ٹریڈ” کے اصول اور طریقہ کار بیان فرما رہے تھے اور یہ حضرات اس میں سے کرنسی کے ضوابط نکال رہے ہیں۔
کرنسی پہ بحث کرنے والی نمایاں ہستیوں میں امام تیمیہ، امام قیم، امام ابو حنیفہ اور امام یوسف شامل ہیں۔ آخری دونوں حضرات کا خیال تھا کہ کرنسی کا باہم تبادلہ یا ٹریڈنگ بعض شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ پہلے دونوں اسے درست نہیں سمجھتے۔
اب چونکہ کرنسی تو پہلے سے چلتی آ رہی تھی، فقہاء اور مجتہدین نے محض اس کی خصوصیات اور شرائط بیان فرمائیں تو ان سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، تاوقتیکہ عثمانی خلافت کے آخری دور میں علما کا پیپر کرنسی سے واسطہ پڑا۔
ہم نے چونکہ بارٹر سسٹم میں سے کرنسی کی خصوصیات کا استنباط کر رکھا تھا تو اب ہمارا باؤلا ہونا تو بنتا تھا۔ چنانچہ ترک علما نے بڑھ چڑھ کر پیپر کرنسی کے خلاف فتوے دیے۔
ہندوستان میں دلچسپ پیشرفت یہ ہوئی کہ ہمارے پڑوسی چین میں پیپر کرنسی کا استعمال کافی پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔ تو باہمی تجارت میں چینیوں اور ہندوستانیوں نے سکوں اور کرنسی کا غالباً ایکسچینج ریٹ بھی وضع کر رکھا تھا۔ تو یہاں عملی ضروریات فقہی تعلیمات پر حاوی ہو گئیں۔ آپ کو ہندوستانی علماء کے پیپر کرنسی پر فتوے نسبتاً کم ملتے ہیں۔
جامعہ الازہر نے 1900 میں یہ فتویٰ دیا کہ چونکہ پیپر کرنسی کے پیچھے بھی ضمانت کے طور پر سونا ہوتا ہے تو اس کا استعمال جائز ہے۔ غالباً اسی فتوے میں یا اس کے بعد کرنسی کیلئے “لیگل ٹینڈر” والی پخ بھی لگائی گئی۔ ‘اسلاف’ کے دور میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہ لیگل ٹینڈر نوآبادیاتی آقاؤں کی فرمائش تھی۔ جو بعد میں سرد جنگ کے دور میں بھی کام آئی۔
اس وقت تک تقریباً پوری اسلامی دنیا یورپ کی کالونی بن چکی تھی اور پیپر کرنسی پوری طرح رائج ہو چکی تھی تو سب نے جھٹ پٹ یہ فتویٰ اپنا لیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔
مزے کی بات یہ کہ پیپر کرنسی نہ صرف تیسری اور چوتھی کے علاوہ تمام شرائط کی نفی کرتی ہے بلکہ اس میں بہت بڑا پہلو سود کا بھی ہے۔ یعنی فرض کریں کہ بیس ڈالر مالیت سونے کے بدلے امریکا سو ڈالر مالیت کا نوٹ جاری کرتا ہے۔ یہی نہیں نارمل بنکنگ ٹرانزیکشنز کے نتیجے میں بھی روپیہ تخلیق پاتا ہے۔ جس کے پیچھے سوائے سود کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ تو علمائے کرام کیلئے سود حرام ہے مگر اس کی پیداوار کرنسی جائز۔
بلکہ اب تو پیپر کے پیچھے کسی سونے چاندی کے ذخائر کا تصور بھی تقریباً ختم ہو چکا۔ مثلاً پاکستانی روپیہ کے پیچھے مختلف پیپر کرنسیوں کی ایک باسکٹ ہے۔ اور وہ بھی خدا جانے ہے کہ نہیں۔ جن حضرات کو خوش فہمی ہے کہ سٹیٹ بنک “حامل ہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا” وہ زرا ہزار کا نوٹ لے کر جائیں اور دیکھیں انہیں سٹیٹ بنک “کیا” ادا کرتا ہے۔
اب بھی اسلامی دنیا میں کچھ علمائے کرام پیپر کرنسی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ اور بات کہ استعمال وہ بھی کرتے ہیں۔ انہیں کم از کم استقامت کی داد تو بنتی ہے۔ سودی کرنسی سے جیبیں بھر کر کرپٹو کرنسی پر فتوے لگانے والے تو ان سے بھی گئے گذرے ہیں۔
بنوری ٹاؤن والوں سے کوئی پوچھے کہ جن شرائط اور اصولوں کی بنیاد پر انہوں نے کرپٹو کو ناجائز قرار دیا ہے۔ بعینہ انہی اصولوں اور شرائط کی خلاف ورزی کرتی پیپر کرنسی ان کیلئے کس بناء پر جائز ہے؟
مجھے یقین ہے کہ وہ یہاں اضطرار گھسیٹ لائیں گے۔ سال چھ ماہ اور گزرے تو کرپٹو پہ بھی اضطرار لاگو کرنے کا سمے آ جائے گا۔
کرنسی جائز، ناجائز نہیں ہوتی۔ اس کا استعمال جائز یا ناجائز ہو سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں