• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پیالی میں طوفان (92) ۔ ٹی وی اور سرن لارج ہیڈرون کولائیڈر/وہاراامباکر

پیالی میں طوفان (92) ۔ ٹی وی اور سرن لارج ہیڈرون کولائیڈر/وہاراامباکر

اگر آپ بجلی کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مقناطیس کی ضرورت ہے۔ اگر آپ مقناطیس کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بجلی کی ضرورت ہے۔ یہ انیسویں صدی کی دریافت تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مقناطیس اور بجلی ایک ہی فینامینا کا حصہ ہیں۔ برقی فیلڈ اور مقناطیسی فیلڈ حرکت کرتے الیکٹرون کو دھکیل سکتے ہیں لیکن الگ طریقے سے۔ برقی فیلڈ اس کو فیلڈ کی سمت میں دھکیلے گا۔ مقناطیسی فیلڈ اس کو سائیڈ کی طرف۔
الیکٹرون کی دھار پیدا کرنا اچھی بات ہے لیکن پرانے ٹی وی کا اصل ہوشیار حربہ اس بات کو کنٹرول کرنا تھا کہ یہ جائے گی کہاں پر۔ اور اس کے پیچھے بجلی اور مقناطیسیت کا یہ گہرا کنکشن تھا۔ جب الیکٹرون مقناطیسی فیلڈ سے گزرتے ہیں تو یہ ایک سائیڈ کو دھکیل دئے جاتے ہیں۔ جتنا مضبوط فیلڈ ہو، اتنی زیادہ زور سے۔ تو پھر اگر مقناطیسی فیلڈ کو تبدیل کیا جائے تو الیکٹرون بیم کی سمت کو تبدیل کر کے اس کو مرضی کی جگہ پر مرکوز کیا جا سکتا ہے۔ CRT ٹیلی ویژن میں بنیادی فوکس کرنے کا کام بڑا مقناطیس کرتا تھا۔ اور سکرین کے قریب لگے ہوئے الیکٹرومیگنیٹک کو سگنل کنٹرول کرتا تھا۔ یہ الیکٹرون بیم کو سکرین پر افقی دھکا دیتے تھے۔ ایک وقت میں ایک لائن۔ اور جہاں پر یہ ٹکراتی تھی، وہاں پر روشن نشان بن جاتا تھا۔ ایک اچھی تصویر بنانے کے لئے سکرین پر 405 لکیریں سکین کی جاتی تھیں۔ ہر سیکنڈ میں پچاس مرتبہ۔ اور الیکٹرون بیم کا ٹھیک وقت میں آن یا آف ہونا ایک پکسل بنا دیتا تھا۔
اور یہ ٹی وی پر آنے والی متحرک تصویر کا راز تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بے حد نفیس برقی رقص ہے۔ٹھیک وقت میں ٹھیک جگہ پر ٹھیک روشنی ٹی وی پر دنیا کا عکس دیتی ہے۔ اور اس کے لئے بہت سی چیزوں وک ٹھیک جگہ اور ٹھیک وقت پر ہونا ہے۔ اس لئے پرانے ٹی وی بہت سے ڈائل اور ناب رکھتے تھے۔ ان سے تصویر کو ایڈجسٹ کیا جاتا تھا تا کہ صاف نظر آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدیوں سے ہنرمندوں کی عزت ان کی مصنوعات سے کی جاتی رہی ہے۔ اور وہ لوگ جو ان مصنوعات کو خود نہیں بنا سکتے تھے، وہ ہنرمندوں کی کاریگری کو سراہ سکتے تھے۔ الیکٹرونکس کی دنیا میں اب یہ بدل چکا ہے۔ الیکٹرونکس انجینر کی بنائی چیزوں کو دیکھنا اور انہیں کام کرتے دیکھنا اب ناممکن ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینوا میں سرن کی لیبارٹری کا لارج ہیڈرون کولائیڈر 2012 میں ہگز بوزون کی دریافت سے مشہور ہے۔ یہ بالکل اسی اصول پر کام کرتا ہے جو کیتھوڈ رے ٹیوب کا ہے۔ جو ذرات اس میں حرکت کرتے ہیں، وہ صرف الیکٹرون ہی نہیں۔ الیکٹرک فیلڈ کسی بھی چارجڈ ذرے کو ایکسلریٹ کر سکتا ہے اور اس کا راستہ میگنیٹک فیلڈ سے موڑا جا سکتا ہے۔ لارج ہیڈرون کولائیڈر کی آنتوں میں پروٹون بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ اور ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب قریب ہوتی ہے۔ اور اس رفتار کی وجہ وجہ سے انتہائی طاقتور مقناطیسوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ سترہ میل کا دائرہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنیادی طور پر سرن کے لارج ہیڈرون کولائیڈر میں چارجڈ ذرات کی دھار کو ویکیوم میں کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی سیٹ اپ کچھ عرصہ پہلے تک گھروں میں عام تھا۔
آج ان بھاری CRT ٹی وی کی جگہ فلیٹ سکرین نے لے لی ہے۔ 2008 وہ پہلا سال تھا جب فلیٹ سکرین ٹی وی کی فروخت CRT سے زیادہ ہو گئی تھی۔ اور یہ وہ ٹیکنالوجی تھی جس نے موبائل اور لپی ٹاپ عام کئے تھے۔ یہ نئی سکرین بھی الیکٹرون کے ذریعے کنٹرول ہوتی تھی لیکن پہلے سے بہت پیچیدہ طریقے سے۔ سکرین بہت چھوٹے سے خانوں میں تقسیم ہے۔ اور ان کا الیکٹرک کنٹرول یہ بتاتی ہے کہ اس نے روشنی خارج کرنی ہے یا نہیں۔ اگر اس کی ریزولیوشن 1280×800 ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ انفرادی نقطے ہیں۔ ہر ایک الگ الگ آن اور آف ہوتا ہے اور اس کے لئے بہت چھوٹی وولیٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ایک سیکنڈ میں ساٹھ مرتبہ اس کو اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
یہ تال میل کا حیران کن کارنامہ ہے۔ لیکن آپ کا لیپ ٹاپ جو باقی کام کرتا ہے، اس کے مقابلے میں ہیچ ہے۔
مقناطیسی فیلڈ الیکٹرون کو دھکیلتا ہے اور اس وجہ سے کرنٹ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا آپس میں صرف یہی تعلق نہیں۔ برقی کرنٹ خود سے مقناطیسی فیلڈ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply