عمران ہاشمی باعمل مسلمان ہے/ثاقب لقمان قریشی

حمائمہ ملک ہماری شوبز انڈسٹری کی مشہور ترین اداکاراؤں میں سے ایک ہیں۔ 2014ء میں حمائمہ کو بالی وڈ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ راجہ نٹ ور لال میں حمائمہ کو مرکزی کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ عمران ہاشمی اس فلم کے ہیرو تھے۔ فلم کو بولڈ مناظر کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یوٹیوب چینل کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میںحمائمہنے انکشاف کیا ہے کہ عمران ہاشمی بہت باکردار انسان ہیں۔ انھیں قرآن پاک کی آیات زبانی یاد ہیں۔ حمائمہ اور عمران اکثر اکیلے بیٹھ کر تلاوت قرآن پاک کیا کرتے تھے۔
چند روز قبل یوٹیوبر نادر علی خان نے سنیتا مارشل کا انٹرویو کیا۔ انٹرویو کے دوران نادر نے سنیتا سے مذہب کی تبدیلی اور انکے بچوں کے مذہب سے متعلق سوالات کیئے۔ جس پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نادر علی نے سوشل میڈیا پر سنیتا مارشل کے ساتھ اپنی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا پوڈکاسٹ کے دوران کسی کا دل دکھانے یا تکلیف پہنچانے کا ارادہ نہیں تھا۔
نادر علی نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ انہیں صرف اداکارہ کے اسلام قبول کرنے کے ارادے کے حوالے سے جاننے کا تجسس تھا۔ اگر ان کے لفظوں سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ معافی چاہتے ہیں۔
سال قبل پاکستان کے چوٹی کے اداکار نعمان اعجاز نے انٹریو کے دوران انکشاف کیا کہ انکی کامیابی کی وجہ باوضو ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
اپریل 2022ء ہماری فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا نام اداکار شان اپنے ٹویٹ میں شعیب اختر کو سچن ٹنڈولکر کو جنم دن مبارک کہنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
نو مئی کو کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کرنے والی خدیجہ شاہ کو جب عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو محترمہ سفید لباس کے ساتھ ہاتھ میں تسبیح لیئے نظر آتی ہیں۔
دین کو ہر معاملے میں گھسیٹنے کا رواج تو عرصہ داز سے چل رہا ہے۔ لیکن پچھلے چار پانچ سالوں میں اسکی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان نوجوان نسل کے ہیرو ہیں۔ خان صاحب نے نئے پاکستان کے نام سے اپنی سیاسی مہم کا آغاز کیا۔ خان صاحب کا سٹائل اور نعرہ نوجوان نسل کو خوب بھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نوجوان نسل کی آخری امید بن گئے۔ 2018ء کے الیکشنز بھی وہ اسی نعرے کے تحت جیتے۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے کچھ عرصہ بعد خان صاحب کو کسی نے دین کے چورن کا مشورہ دیا۔ پھر خان صاحب نے سفید شلوار قمیض اور ہاتھ میں تسبیح لینا اور ریاست مدینہ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا اور اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کیلئے دین کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ خان صاحب کی شخصیت میں بدلاؤ کو دیکھتے ہوئے انکے وزراء نے بھی ہر معاملے میں دین کا بے جا استعمال شروع کر دیا۔
وزیراعظم، وزراء، ملک کے اہم عہدوں پر فائز شخصیات، اداکار، کھلاڑی یا کوئی بھی ایسا شخص جو مشہور و معروف ہو اسکی زبان سے نکلا ہر لفظ معنی رکھتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف ملک میں اسکے چاہنے اور نہ چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ تو دوسری طرف انکی باتیں عالمی میڈیا پر کوٹ ہوتی ہیں۔
جمعے کے دن ہر مسجد میں کم از کم سو سے زائد نمازی نماز جمعہ ادا کرنے آتے ہیں۔ میں اکثر لوگوں سے سنتا ہوں کہ ہم جمعہ کی نماز فلاں مسجد میں ادا کرنے جاتے ہیں۔ میرا سوال ہوتا ہے کیوں؟ جواب ملتا ہے کہ اس مسجد کے امام صاحب دینی مسائل پر بڑی سنجیدگی سے بات کرتے ہیں۔
آپ غور کریں جن علاقوں کی مساجد میں بہترین علماء خطاب کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی سوچ ہی دوسرے لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔
مساجد کی صورت میں ہمارے پاس ایسی سورس موجود ہے کہ اگر حکومت ان سے مدد مانگے تو چند ماہ میں ملک میں بڑی بڑی معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر حکومت تمام مکاتب فکر کے علماء کی مدد سے جمعہ کے خطبے کے دوران اپنے گھروں، گلی، محلوں کی صفائی پر لیکچر دلوا دے تو ایک دن میں ہمارا پورا ملک صاف ہوسکتا ہے۔ گھریلو تشدد، لڑکیوں کی تعلیم، معیشت میں خواتین کے کردار کی ضرورت پر صرف ایک ماہ تک لیکچر دلوا دے تو چند ہفتوں میں خواتین کے حوالے سے معاشرتی سوچ میں بڑی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ حکومت علماء کی مدد سے ایسے بہت سے کام کرسکتی ہے۔
علمائے کرام کے وسیع حلقے کی وجہ سے بہت کچھ ممکن ہے۔ اگر عالم نفرت باٹنے والا ہو تو وہ ایسی نسل تیار کرے گا جو اقلیتوں اور دوسرے فرقوں کا جینا محال کر دے گی۔
ہم نے اوپر شوبز انڈسٹری کی جن شخصیات کا ذکر کیا ہے یہ عام لوگ نہیں بلکہ ملک کی معروف ترین شخصیات ہیں۔ یہ ہر معاملے میں دین کو کیوں گھسیٹ رہے ہیں کیونکہ ہمارے قومی لیڈر ایک دوسرے کو میر صادق اور میر جعفر قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایک چین ہے جو چلتے چلتے ہماری نسلوں کو تباہ کر رہی ہے۔
اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے الفاظ معنی رکھتے ہیں۔ اس لیئے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنی چاہیئے۔ کھلاڑی اور شوبز کی شخصیات کسی بھی ملک کیلئے سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قومی معاملات پر ان لوگوں کے احمقانہ بیانات سے ہمارے اخبارات بھرے ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کیلئے کوئی کورس تیار کیا جائے جس میں انھیں ٹریننگ دی جائے۔ انھیں انکے کام اور الفاظ کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے۔ سفارتکاری کے گر سکھائے جائیں تاکہ ملک کا روشن خیال چہرہ دنیا کو دکھا سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply