استاد، محض استاد یا روحانی استاد۔۔ فارینہ الماس

مولانا رومی کے لئے ان کے روحانی استاد شمس تبریز کی جدائی یوں تو بہت شدت غم کا باعث تھی لیکن وہ انہیں کبھی بھی خود سے جدا نہ سمجھتے اور جونہی ان کی یاد سے دل میں ٹیس اٹھتی ، وہ اپنے استاد محترم کے سکھائے گئے علم کو اک طویل مراقبے میں دہرانے لگتے انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے وہ ان کے آس پاس ہی کہیں موجود ہیں۔ استاد کا رتبہ اس کے دیے گئے علم آگہی سے متعین ہوتا ہے ۔ اس کے سکھانے کے اصول اور آداب روح میں گھر کر لیتے ہیں ۔اور پھر وہ دور رہ کر بھی دور نہیں ہوتا ۔ایسے استاد کا احترام سوچ سمجھ کر یا تکمیل آداب سمجھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے تقدس کے خیال سے ہی نگاہیں خود بخود جھک جاتی ہیں ۔سچا استاد امام نسائی ہی کی طرح ہوتا ہے کہ جس کی تعظیم میں خلیفہءوقت کی اولاد بھی اپنے خاندان کے جاہ و جلال کو فراموش کر کے استاد محترم کے جوتے سیدھے کرنے کو اپنے لئے شرف عظیم سمجھے۔ ارسطو کو اس کا شاگرد سکندر اعظم بھی ایسی اہمیت دے کہ کہہ اٹھے کہ ” ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر اعظم وجود میں آئیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو کو وجود میں لا نہیں سکتا“۔

ماضیءقریب سے اگر حقیقی استاد کی کوئی مثال دینا مقصود ہو تو ” مس سلیون“ کی مثال بہترین ہے۔جس نے اپنی قوت گویائی و سماعت سے محروم ایک انتہائی پر تشدد اور جذباتی طور پر بپھری ہوئی شاگردہ کو علم عطا کیا۔اس کے سامنے لفظوں کو ان کے احساس میں پروکر پیش کیا۔ اسے ریت پر پانی میں ڈوبی انگلیوں سے لکھنا سکھایا ۔پانی کی بوندیں اس کی ہتھیلیوں پر ٹپکا کر اسے بارش کا لمس عطا کیا۔اسے اپنے ہاتھوں سے درخت اور پودوں کو چھو کر فطرت کے رنگ و بو سے متعارف ہونے کا موقع دیا۔اس کی حیرت اور تجسس کو تسکین دینے کی خاطر اس کے ہاتھ پر مرغی کے سینچے گئے انڈے سے چوزے کا جنم تک ممکن بنایا۔وہ لڑکی جسے دنیا ہیلن کیلر کے نام سے جانتی ہے اب اپنے من اور شعور کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھ سکتی تھی۔اپنی استاد کی محنتوں اور محبتوں ہی کی بدولت وہ علم کے کئی مدارج طے کر پائی ۔اسی استاد کے دئے گئے حوصلے اور جرائت سے خودشناسی و خود فہمی کی طاقت ملی ۔جس سے وہ اپنی محرومیءذات کو پچھاڑ پائی۔اس نے کئی کتابیں بھی تخلیق کیں اور دنیا کو سمجھایا کہ بصارت و سماعت کی محرومی کوئی محرومی نہیں ،لیکن احساس و تخیل کی محرومی سب سے بڑی محرومی ہے۔

کسی بھی قوم کا حقیقی تحفظ ، اسلحہ سازی سے کہیں بڑھ کر اساتذہ کے ہاتھوں اس کی کردار سازی میں ہے۔لیکن ایسے اساتذہ جو علم کو ایک ناگوار بوجھ بنا کر فرد کی انفرادی روح کو کچلنے کا باعث نہ بنیں۔جواپنے شاگرد کو اس کی باطنی تحقیقی تحریک کو پانے میں مدد دیں۔ انہیں ان کی ذات کی کمزوریوں کا احساس نہ دلائیں لیکن ان کمزوریوں کو ان کی طاقت میں بدلنے کے قابل بنائیں۔اپنے شاگرد سے وہ خاص رشتہ استوار کریں کہ وہ تمام عمر اپنے اخلاقیات،روحانیات و عقلیات کو اپنے استادوں کی دین ہی سمجھ سکیں۔ ایسے اساتذہ پھر نظر کے سامنے رہیں یا نہ رہیں ان کی یاد ہمیشہ شاگرد کے حافظے میں زندہ رہتی ہے۔

حقیقی استاد لفظوں کے معنی ہی نہیں بتاتا بلکہ ان لفظوں کو محسوس کرنے اور ان کے مفہوم کا ادراک خود سے کرنے کی جرائت بھی دیتا ہے۔ وہ شاگرد کو خود شناسی کا علم بھی دیتا ہے۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا التفات و تحسین اپنے شاگرد کو وقت کا سکندر اعظم بنا ڈالے ، یا اس کے الفاظ تحقیر شاگرد کے حوصلوں کے ہاتھ پاؤں توڑ کر اسے ہمیشہ کے لئے احساس بے وقعتی کے پاتال میں دھکیل دیں۔

ایسا نہیں ہوسکتا کہ زمانہءطالبعلمی میں ہمیں سبھی اساتذہ ایک جیسے ہی ملیں ۔ کچھ اساتذہ وہ ہوتے ہیں جو محض کتابوں پر نشان لگوا کر سبق یاد کرواتے ہیں ۔اگلے دن سنائے جانے والے سبق میں لفظوں کا رتی بھر بھی ہیر پھیر انہیں ناگوار گزرتا ہے پھر وہ کہتے ہیں ”کل اسے ٹھیک سے یاد کرنا“۔ ہم اگلے دن سزا کے خوف سے اسے ٹھیک سے یاد کر بھی لیتے ہیں ۔لیکن پھر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد وہ سبق بھول جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہم وہ اساتذہ بھی بھول جاتے ہیں۔کیونکہ ان کی یاد محض اس کتابی سبق کی یاد سے مشروط ہوتی ہے اور بس۔۔۔

کچھ اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہماری مہارتوں اور دلچسپیوں پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ سکول کی ایک ایسی ہی استاد کی یاد آج کئی برس بیت جانے کے بعد بھی میرے شعور میں تازہ ہے ۔ان کا چہرہ مہرہ اور شخصیت میری یادادشت میں اچھی طرح محفوظ ہے۔جب بھی وہ یاد آتی ہیں ، عجیب سا احساس تشکر میرے چہرے پر پھیل جاتا ہے۔ سر ،خودبخود ان کی تعظیم میں جھک جاتا ہے وہ اسکول میں انگلش پڑھایا کرتی تھیں ۔ایک دن اسکول کے ایکٹویٹی بورڈ پر لگی میری ایک نظم ان کی نظروں سے گزری ۔ کسی اور استاد نے اسے نوٹس نہ کیا تھا لیکن انہوں نے اسے اس کی کمزوریوں کے باوجود سراہا ۔ اور پورے سکول میں اس کی خوب دھوم بھی مچا ئی ۔ ایک استاد کی اتنی التفات وتحسین کا نشہ آج بھی مجھے مسرور کر دیتا ہے۔مجھے یہ تو یاد نہیں کہ وہ انگلش کس درجہ کی پڑھاتی تھیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ اگر وہ اس دن میری حوصلہ افزائی نہ کرتیں تو شاید تخلیق سے میرا رشتہ ایام اولین میں ہی دم توڑ دیتا۔

کچھ اساتذہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے جذبوں،امیدوں اور خیالوں کے ساتھ یاد رکھے جاتے ہیں جب وہ یاد آتے ہیں تو ان سے پہلے ان کا لہجہ،آواز اور سوز کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔ایسی ہی ایک ٹیچر مجھے بہت شدت سے یاد آتی ہیں۔ان کے والدین بنگلہ دیش سے نقل مکانی کر کے پاکستاں آ بسے تھے۔ ان کا لہجہ، انداز گفتگو اور لباس جو ہمیشہ ساڑھی ہی ہوتا وہ آج بھی میں فراموش نہیں کر پائی ۔ وہ ہمیں سکول میں پاکستان سٹڈیز پڑھایا کرتی تھیں اور اکثر کتاب سے ہٹ کر تاریخی باتیں بتایا کرتی تھیں۔وہ باتیں جو اس وقت تو سمجھ میں نہیں آتی تھیں لیکن کہانیوں کی صورت یاد تو رہ جاتی تھیں۔کہانیاں تو اور بھی اساتذہ سنایا کرتے تھے ۔لیکن وہ ٹیچر مجھے اس لئے یاد ہیں کہ ان کی کہانیاں محض کہانیاں نہ تھیں ،بلکہ وقت کی بہت بڑی سچائیاں تھیں۔وہ اکثر مشرقی پاکستان کا بہت دکھی دل سے ذکر کیا کرتیں۔بنگالیوں سے برتے گئے ناروا سلوک کے بھی قصے سنایا کرتیں ۔وہ کہا کرتیں کہ ” پاکستان بنایا گیا تھا ہندو،سکھ ثقافت سے مسلم ثقافت کو جدا ثابت کرنے کے لئے۔ اور کہا جاتا تھا کہ برصغیر میں آباد سبھی مسلمان ایک جدا ثقافت،مذہب اور تہذیب کے حامل ہیں ۔پھر ایسا کیا ہوا کہ بنگالیوں کی تہذیب کو مسلم تہذیب سمجھنے کی بجائے بنگالی تہذیب و ثقافت قرار دے دیا گیا ۔انہیں نفرت سے خود سے جدا کرکے کاٹ پھینک دیا گیا۔ اور سکھوں سے مہمان نوازی اور رواداری کا رویہ اختیار کیا گیا ۔ وہ انڈین سکھ جو آج بھی گرونانک کے استھان لاہور شہر کو فتح کرنے کا خواب دیکھتے ہیں“ اس وقت تو یہ باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں پھر جب عمر کے مدارج طے کئے تو تمام تاریخ اپنی اس بنگالی ٹیچر کی دی گئی سوجھ بوجھ سے ہی سمجھنی شروع کی۔

کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ بہت مختلف ہوتے ہیں ۔شاگرد سے دوریاں بنائے رکھنے کو اپنا وصف بناتے ہیں۔ایک عجیب سا احساس تفاخر ہوتا ہے ان کے رویے میں۔کچھ تو صرف لیکچر ہی دیتے ہیں ۔اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ محض لیکچر کے ہی پیسے لیتے ہیں ۔لیکن تحقیقی علم میں شاگرد کی معاونت انہیں خاصا دشوار لگتا ہے۔ان کا وقت بکا ہوتا ہے اسی لئے اس بکے ہوئے وقت میں سے ان کے لئے شاگرد کے لئے خصوصی وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔وہ شاگرد کی قابلیت کو باہر لانے کے لئے اسے متجسس بنانے کی بجائے محض اپنی لیاقت جھاڑتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک ایسے ہی استاد کو میں نے اسی مفہوم میں یاد رکھا ہوا ہے۔ جو اپنے انگلش میں لکھے گئے آرٹیکلز کا مجھ سے اردو ترجمہ کروایا کرتے۔ اور اردو اخبارات میں چھپوالیتے ۔بدلے میں میری ایک آدھ اسائنمنٹ پر نظر ڈال لیتے۔ پھر گھنٹہ بھر کی گفتگو میں اسائنمنٹ پر بات کے سوا ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے۔ ایک دن میں نے غلط سلط ترجمہ کرکے دے دیا جس کا انہیں تو بہت صدمہ پہنچا لیکن مجھے ان کے کمرے میں زبردستی کے بٹھائے جانے کی کوفت سے نجات مل گئی۔

ایسا نہیں کہ یہ استاد قابل نہیں ہوتے لیکن ایسا ضرور ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو قابل بنانے کی مشقت نہیں کرتے ۔ جبھی تو پاکستان کی اعلیٰ ڈگریوں کا ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی مقام مرتبہ ہی نہیں۔استادکو اپنے شاگردوں سے بھی کئی شکایات ہوں گی اور انہیں بھی ضرور کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن تدریس کے پیشے کو مقدس بنانے میں خود اساتذہ کو ہی پہل کرنا ہو گی۔ اپنے رویے کو بدلنا ہو گا ۔

وہ طالب علموں میں نصاب کی قدر تو پیدا کررہے ہیں لیکن زندگی کی قدر پیدا کرنا بھول جاتے ہیں ۔اگر وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھے برے حالات میں ثابت قدم اور پر عزم رہنے کا درس دیتے تو آج طالب علم مایوسی و ناکامی میں خود کشی کرتا دکھائی نہ دیتا ۔وہ شاگرد کی انفرادی انسانی روح کو کچل کر اسے تعصب،نفرت اور ظلم پرستی تو سکھا سکتے ہیںلیکن محبت،صبر اور رواداری نہیں۔استاد کے لئے روحانی استاد کا رتبہ پانا اتنا آسان نہیں ۔آج کے شاگرد کو اپنے استاد سے تعلم کے ساتھ ساتھ کچھ توجہ، محبت اور شفقت ہی تو درکار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امام ابو حنیفہؒ سے ان کے ایک شاگرد امام یوسف نے پوچھا کہ ” استاد کیسا ہوتا ہے“ آپ ؒنے فرمایا”استاد جب بچوں کو پڑھارہا ہو تو اسے غور سے دیکھو اگر ایسے پڑھا رہا ہے کہ جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو وہ استاد ہے اور اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو وہ استاد نہیں “

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply