والد مرحوم کی یاد میں/رانا خالد

کل میں تنہائی سے ڈر کر
اس کو ڈھونڈنے نکلا
صاحبو! کل میں “The Father” فلم دیکھ رہا تھا اس فلم کے ہیرو کو Dementia بیماری تھی اور بیماری کی وجہ سے وہ جن نفسیاتی مسائل، انسانی رویوں سے گزرتا ہے بہت ہی خوبصورت انداز سے فلمایا گیا ہے، انتھونی ہوپکنز کو اس فلم میں جاندار ایکٹنگ پر اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ صاحبو! “The Father” فلم دیکھنے کے بعد مجھے میرے باپ کی یاد نے آ لیا کیونکہ مجھے ایسے لگا جیسے یہ فلم میرے باپ کی زندگی کے آخری سات سالوں پر بنائی گئی ہو، میرے باپ کو بھی Dementia بیماری تھی اور ہمیں اس بیماری بارے 2015 میں اس وقت پتا چلا جب والد صاحب ایک دن اچانک چکرا کہ گرے اور بے ہوش ہو گئے ہم ان کو لے کر لاہور جنرل ہسپتال کی طرف نکل پڑے کہ اچانک میرے دیرینہ دوست صائم ریان ایڈووکیٹ کی فون کال آئی کہ ابو جان کو فاروق ہسپتال لے جائیں کہ صائم کے بہنوئی جو کہ جنرل ہسپتال نیوروسرجری کے ہیڈ تھے وہ شام کو فاروق ہسپتال میں سروسز دیتے تھے،   ہم فاروق ہسپتال میں ڈاکٹر انور چوہدری سے ملے جو ڈاکٹر کے روپ میں ایک فرشتہ تھے آپ لاہور میں نیورو سرجری میں بہت بڑا نام ہیں، میں والد صاحب کو لے کر ان سے ملا انہوں نے معائنہ کرنے کے بعد کچھ ٹیسٹ لکھ کر دئیے اور ہسپتال میں داخل کر لیا، رپورٹس کے معائنہ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے بڑے راز سے بتایا کہ ابو جان کو Dementia ہے، ساتھ ہی بیماری کی stages بھی بتا دیں  کہ شروع میں ابا جان تازہ تازہ واقعات کو بھولیں گے پھر وہ چیزوں کے نام بھولیں گے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے پیاروں کے  نام بھولیں گے ایک سٹیج ایسی بھی آئے گی کہ وہ violent ہو جائیں گے ۔ڈاکٹر صاحب نے کہا یہ آپ لوگوں کے رویوں اور صبر کا امتحان ہو گا۔

2015 سے لے کر 2022 تک ابو ان سب stages سے گزرے ان امتحانی حالات میں جو خدمت میری ماں، میرے بڑے بھائیوں، میرے بھتیجے عمر زاہد نے اور میری بھانجی ہادیہ نے کی وہ الفاظ میں ناقابل بیاں ہے۔  میرے والد کی زندگی کا بڑا حصہ سعودیہ میں محنت مزدوری کرتے گزرا ہے، جب وہ سعودیہ کو خیر باد کہہ کر پاکستان آ گئے تو میں اس وقت پنجاب لا ءکالج میں لیکچرر تھا، انکے الفاظ میں ان کو میرا ماسٹر بننا پسند نہ  آیا بلکہ وہ مجھے چھیڑنے کیلئے ماسٹر کہتے تھے۔   میری زندگی میں نے مرضی سے گزاری،اپنی مرضی سے قانون پڑھا،اپنی مرضی سے محبتیں اور نفرتیں کیں ،خوب کھایا پیا،سیاحت کی اور اپنی مرضی سے شادی بھی کی لیکن نوکری اپنی مرضی کی نہ  کر سکا کیونکہ میرا باپ مجھے فیملی کا پہلا گزٹڈ سرکاری آفیسر دیکھنا چاہتا تھا جبکہ مجھے ٹیچنگ کا نشہ لگ چکا تھا،  اس بات پر  وہ میرے ساتھ ناراض ہو گئے ان کو راضی کرنے کیلئے میں نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں سرکاری نوکری کا مقابلے کا امتحان پاس کر لیا لیکن تقدیر کے رنگ نرالے جب مجھے اپائنٹمنٹ لیٹر ملا تو ابو کو Dementia نے آ لیا۔

میں نے اسلام آباد جوائننگ دے دی اور سوہان محمدی ٹاؤن میں گھر ہائیر کروا لیا، والد صاحب میری نوکری کے بعد پہلی دفعہ جب مجھے ملنے آئے تو بہت خوش تھے کہ انکا بیٹا انکے خوابوں کے  عین مطابق فیملی کا پہلا گزٹڈ سرکاری آفیسر تھا ،تو صاحبو! میری زندگی کے انتھونی ہوپکنز کا اسی دن سے بُرا وقت شروع ہو گیا، صبح ان کو ہشاش بشاش گھر چھوڑ کر دفتر آ کر اپنے معمول کی فائلوں میں مگن ہوگیا تو اچانک دوپہر دو یا اڑھائی بجے میری بیوی کی کال آئی کہ ابو صبح 9 بجے کے گھر سے روزے کی حالت میں نکلے تھے اور واپس نہیں آئے، میں بیگم سے ناراض ہوا کہ  تم اتنی دیر سے مجھے بتا رہی ہو، ابو کو ہر طرف ڈھونڈنا شروع کر دیا سارا محمدی ٹاؤن سوہان اور مرگلہ ٹاؤن چھان مارا وہ نظر نہ  آئے۔ اچانک میرے اندر سے آواز آئی کہ ڈھوک کالا خاں بازار میں بھی ڈھونڈنا چاہیے جب میں وہاں گیا تو ڈھوک کالا خاں میں ایک گلی میں سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا ابو جان آپ ادھر کیسے اور گھر کیوں نہیں آ رہے وہ مجھے کہتے ہیں کون سا گھر؟ اور تم کون ہو؟ تم اقبال ہو؟ جب انکے منہ سے یہ الفاظ سنے کہ تم کون ہو؟ تو  زمین میرے پیروں کے نیچے سے سرک گئی اور آسمان مجھے ڈولتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔۔کیونکہ ڈاکٹر انور چوہدری نے کہا تھا ایک دن آئے گا کہ ابو جان گھر اور نام پہچان بھولنا شروع ہو جائیں گے ،  میرے والد کو میری سرکاری افسری کیا یاد رہتی وہ تو میرا نام بھی بھول گئے۔

2015 سے لے کر 2022 تک انہوں نے مجھے اقبال ہی کہا میرے کان ترس گئے کہ وہ مجھے خالد کہیں یا چھیڑنے کیلئے ماسٹر ہی کہیں۔   اس دن کے بعد ڈاکٹر کی پیشین گوئی کے عین مطابق وہ باقی ساری stages سے بھی گزرے ،وہ violent بھی ہو جاتے تھے وہ گھر سے غائب بھی ہو جاتے تھے لیکن ایک چیز ان میں کمال تھی جیسے ہی کوئی مہمان گھر میں آتا تھا وہ اس کو بہت اچھے سے ملتے تھے چائے پانی پوچھتے تھے ،اس کے سامنے ایسا رویہ رکھتے تھے کہ جیسے اس کو بہت اچھی طرح سے پہچانتے ہوں اور انکی میموری بالکل ٹھیک ہے۔ مطلب ابا جان کو اپنی dignity کا بہت خیال تھا۔ وہ خود سے کتنی بڑی جنگ لڑ رہے تھے کہ ان کو اپنے پیاروں بارے کچھ یاد نہیں تھا لیکن وہ اپنی Dignity برقرار رکھنے کیلئے ایسے رویہ رکھتے تھے جیسے ان کو سب یاد ہے اور وہ بالکل نارمل ہیں ان کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ سب کا سہارا ہوں۔

صاحبو! میرے والد کو دو شخصیات سے بہت پیار تھا ایک ہیں والد صاحب کی پھپو کا بیٹا طارق سلہریا ایڈووکیٹ اور دوسرے ہیں ہم مہاجروں کے سیاسی لیڈر میاں رشید منہاس۔ والد صاحب مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ دو بندے مجھے بہت عزیز ہیں، کیونکہ ہم مہاجر ریاست کشمیر سے جب ہجرت کر کے  آئے تھے تو پاکستان کے مکین ہمیں پناہ گزین کہتے تھے تو ہم پناہ گزینوں کو مکین بنانے میں ان دو بندوں کا بڑا ہاتھ ہے، ویسے بھی میاں رشید صاحب آٹھ دفعہ ایم ایل اے، دو دفعہ ایم این اے اور ایک وقت میں پانچ وزارتیں رکھنے والے منفرد بڑے قد کاٹھ کے سیاستدان ہیں ۔میاں صاحب بھی ابو کو بڑا بھائی کہتے تھے۔  میاں رشید سے محبت کا واقعہ میں یہاں ضرور بیان کروں گا کیونکہ میاں صاحب بھی وہ واقعہ اکثر اپنی نجی محفلوں میں بیان کرتے ہیں۔ ۔۔

“واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن اچانک میاں رشید صاحب ہمارے گھر (گاؤں) تشریف لائے اور فرمائش کی کہ ان کو ابو جان سے ملنا ہے میں نے میاں صاحب سے عرض کی والد صاحب نہیں مل سکتے کیونکہ وہ اب سب کچھ بھول گئے ہیں کسی چہرے کو نہیں پہچانتے کوئی نام ان کو یاد نہیں، گالیاں بھی آخر میں دینا شروع ہو گئے تھے اور violent بھی ہو جاتے تھے لیکن میاں صاحب بضد تھے کہ انکو ضرور ملنا ہے، میں نے کہا وہ مجھے نہیں پہچانتے آپ کو بھی نہیں پہچانیں گے خیر میاں صاحب کے  کہنے پر میں ان کو لے کر والد صاحب کے کمرے میں چلا گیا ابو نے میاں صاحب سے ہاتھ ملایا ان کو گلے لگایا تو میاں صاحب نے پوچھا کہ میں کون ہوں ابو نے میاں کا بوسہ لیا اور کہا کہ تم میاں رشید منہاس ہو ۔یہ سنتے ہی ہم سارے ششدر رہ گئے ،کہ یہ کیا کرشمہ ہو گیا ،نام کیسے یاد آ گیا؟ میاں صاحب نے میری طرف دیکھا اور فرمایا خالد صاحب میرا اور تیرے ابو کا دل کا رشتہ ہے، اور یاد رکھنا دل کا رشتہ دماغ کے رشتے سے بڑا ہوتا ہے۔”

صاحبو! وہ دن اور آج کا دن میں اپنے والد کے دوستو کی بہت عزت کرتا ہوں مجھے وہ نظر آ جائیں میں ان کے سامنے بچھ جاتا ہوں ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا ہوں ان کا ہاتھ چومنا چاہتا ہوں لیکن روایتی ججھک کے سبب چوم نہیں  پاتا، میرے باپ کے عشق کے سبب مجھے ان سے عشق ہے۔

میرا باپ بڑے دل والا تھا وہ پرانے وقتوں میں سعودیہ گیا چاہتا تو پیسے بچا سکتا تھا لیکن اس نے پیسے نہیں رشتے بچائے اور بنائے۔  میاں رشید صاحب والی بات میرے دل کو جھنجوڑ گئی کہ دل کا رشتہ دماغ کے رشتے سے بڑا ہوتا ہے میں سوچ میں پڑ گیا کہ میرا باپ میرا نام کیوں بھول گیا وہ مجھے میاں رشید کی طرح پہچانتا کیوں نہیں کیا میرا ان سے دل کا رشتہ نہیں بن پایا تھا ؟کیا اب وہ کبھی مجھے اپنے روٹھے وجود کے ساتھ گلے لگا کر ماسٹر نہیں کہے گا؟۔۔۔ میری بے قراری بڑھتی جا رہی تھی کہ کسی دن ابا مجھے گلے لگائے مجھے محسوس ہو کہ وہ مجھے پہچانتے ہیں وہ مجھ سے ناراض نہیں، پھر وہ دن صاحبو آ گیا ،جنوری 2022 میں گاؤں ابا کو دیکھنے گیا ہوا تھا دو دن گاؤں رہنے کے بعد جب میں نے واپس اسلام آباد آنا تھا تو اس دن اچانک ابو میرے کمرے آئے میرے بیڈ پر میرے ساتھ لپٹ گئے مجھے سینے سے لگا کر خوب چوما اس لمحے ہم دونوں کے آنسو رواں تھے ۔آ ج سوچتا ہوں وہ ملاپ کے آنسو تھے یا جدائی کے، کیونکہ وہ میری اور میرے باپ کی آخری جپھی تھی ،مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میرا باپ آج سات سالوں کے بعد آخری بار نیند سے جاگا ہے، صرف مجھے پہچاننے کیلئے۔۔ صرف مجھے سینے سے لگانے کیلئے، پھر   23 جنوری 2022صبح سات بجے میرا باپ مجھے چھوڑ کر اپنے اللہ کے حضور پیش ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپکے والد زندہ ہیں تو انکے سینے سے لپٹ جاؤ ان کو چومنے سے نہ  ججھکو، ان سے ایسی جادو کی جپھی ڈالو کہ ان کے اندر سما جاؤ، یا ان کو اپنے اندر سمو لو، پھر وہ کبھی نہیں مریں گے۔۔ ہمیشہ تمہارے اندر زندہ رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply