شہباز شریف جیسا بھائی/نجم ولی خان

بہت سارے لوگ میاں نواز شریف کو اس لئے خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ وہ ملکی تاریخ کے واحد سیاستدان ہیں جنہیں سیاسی عدم استحکام کا شکار بیچارے ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ بھی درست، وہ کسی بھی مارشل لا کو شکست دے کر وزارت عظمیٰ تک پہنچنے والے بھی واحد فرد ہیں اور دلچسپ کہ انہیں بار بار نکالنے والے مقتدر حلقے ایک مرتبہ پھر ان کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ یہ سچ بھی ہے کہ اس وقت عوامی سطح پر ایک ایسے کیرز میٹک لیڈر کی اشد ضرورت ہے جو سیاسی سطح پر استحکام لا سکے کیونکہ ’قاسم کے ابا‘ کا نام لینے سے روکنے سمیت سیاسی تبدیلی کے باقی طریقے حتمی اور دیرپا نہیں۔ مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل کے اجلاس میں ایک مرتبہ پھر نواز شریف پر ایک مرتبہ پھراعتماد کا اظہار، پارٹی کے تاحیات قائد ہونے کی دوبارہ توثیق کر دی گئی ہے۔نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے اور وطن واپسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بھی دور کر دی گئی ہے یعنی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب وہ تاحیات نااہل نہیں رہ سکتے۔ اسی تسلسل میں یہ بھی کہوں گا کہ اس ترمیم کا فائدہ عمران خان کو بھی ہوگا کیونکہ وہ حالات کی اسی چکی میں پسنے جا رہے ہیں جس میں وہ دوسروں کو پیستے اور پسواتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف، ناانصافی کرتے ہوئے،تاحیات نااہلی کو پانچ سال تک محدود کرنے کی ترمیم کو اسی طرح غلط کہہ رہی ہے جس طرح وہ نیب کے ڈریکونین لاز میں بہتری کی مخالفت کرتی رہی مگر ان تمام ترمیمی قوانین کا فائدہ عمران خان، بشریٰ بی بی اور ان کے ساتھی ہی اٹھاتے نظر آ ئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل کے اجلاس میں شہباز شریف کی تقریر سنی۔ وہ پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد کہہ رہے تھے کہ ان کی ’پگ‘ نواز شریف کی امانت ہے، وہ جب آئیں گے یہ پگ وہ ان کے حوالے کر دیں گے یعنی پارٹی کی صدارت اور وزارت عظمیٰ تک۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ان کی دعا ہے کہ نواز شریف فوری طور پر وطن واپس آئیں، انتخابات میں حصہ لیں اور چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں۔ میں شہباز شریف کی تقریر پر ہرگز حیران نہیں ہوا حالانکہ ملکی سیاسی تاریخ پر کا تھوڑا سا فہم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ اقتدار کتنی بڑی اور کتنی بُری شے ہے۔ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست اور فراست   کا معترف ہوں مگر یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ جب بیگم نصرت بھٹو علیل تھیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں انہیں پارٹی قیادت سے ہٹاتے ہوئے عہدہ خود سنبھال لیا تھاکیونکہ ان کے خیال میں کچھ ’انکلز‘ ان کی والدہ کو استعمال کررہے تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر جیسے درویش حکمران کے قصوں سمیت برصغیر کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں بھائیوں نے بھائیوں اور بیٹوں نے باپوں کی کمر میں اقتدار کی خاطرچھرا گھونپا۔ میں چوہدری پرویز الٰہی کا منفی ذکر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ اس وقت مشکل کا شکار ہیں لیکن اس مثال کے بغیر میرا کالم ادھورا رہ جائے گا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے وزارت اعلیٰ کے لئے اپنی فیملی کے سربراہ اور بھائی کے طور پر جانے والے روایت پسنداور صلح چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ان کی سربراہی میں لیا ہوا حلف توڑ دیا حالانکہ ہمیں شیخ رشید جیسے لوگ ہمیشہ سے بتاتے آئے کہ نون
میں سے شین نکلنے والی ہے، وہ کبھی نہیں نکلی مگر وہ بھائی بھی الگ ہو گئے جن کے درمیان سے ہوا تک گزرنے کی خبر نہیں آتی تھی۔ نون میں سے شین نکالنے والوں میں بھی حروف تہجی میں سے کچھ ایسا نہیں رہا جو نکلنے سے باقی رہ گیا ہو۔
یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ پرویز مشرف نے شہباز شریف کو ایک سے زائد مرتبہ وزیراعظم بننے کی پیش کش کی مگر شرط یہ تھی کہ بھائی کا ہاتھ اور ساتھ چھوڑ دو مگر میں نے ربع صدی سے زائد کے عرصے میں یہی دیکھا اور بار بار دیکھا کہ شہباز شریف نے نواز شریف کواتنی ہی عزت دی جتنی وہ اپنے والد کو دیتے تھے، ان کے سامنے اف تک نہیں کرتے تھے۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی آمد پرادب سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں نے عطاء الحق قاسمی، مجیب الرحمان شامی اور دوسرے معتبر ناموں کے ساتھ محفلوں میں دیکھا کہ نواز شریف، شہباز شریف کو ایسے ڈانٹ دیتے ہیں جیسے کوئی والد اپنے بیٹے کو جبکہ آج دور یہ ہے کہ باپ بھی بیٹے سے سختی سے بات کرے تو وہ منہ لال،آنکھیں نکال کر کھڑا ہو جاتا ہے۔شہباز شریف نے بھائی کی محبت میں ایوان وزیراعظم پر جیل کی کوٹھڑی کو ترجیح دی۔ اب یہ بھی کوئی راز نہیں کہ قمر جاوید باجوہ نے بھی عمران خان سے پہلے شہباز شریف کو ہی پیشکش کی تھی مگر شرط وہی تھی جو ایک باوفا اوربااصول شخص کے لئے ناقابل قبول تھی۔میں اکثر سوچتا ہوں اور کہتا بھی ہوں کہ وہ لوگ کتنے تنگ نظر، کوتاہ بین اورکم ظرف ہیں جو سوشل میڈیا پر خود کو نواز شریف کا وفادار ظاہر کر کے شہباز شریف پر صرف تنقید ہی نہیں بلکہ باقاعدہ حملے کرتے ہیں۔ یہ نواز شریف کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں جو شہباز شریف جیسے بھائی پر سوال اٹھاتے ہیں جس کی وفاداری، اطاعت اور محبت اب ایک استعارے کی طرح استعمال ہونی چاہئے۔ ہر نماز کے بعد یہ دعا ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو شہباز شریف جیسا بھائی دے۔
میں میاں نواز شریف کی خوش قسمتی کی بات کر رہا تھا اور میری نظر میں ان کی اصل خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں میاں شریف جیسا محنتی،د انا اورمدبر والد ملے، بیگم شمیم اختر جیسی معاملہ فہم اورشاندار والدہ ملیں، مریم نواز جیسی بہادراور باصلاحیت بیٹی ملی اور شہباز شریف جیسا جانثار، وضعدار اور تابعداربھائی ملا۔نواز شریف جب مشکل میں ہوئے تو شہباز شریف ان کی مدد کے لئے حاضر ہوئے، موجود ہوئے۔ جب سیاست اور حالات کی تپش بڑھی تو شہباز شریف، نواز شریف کے لئے ’قرۃ العین‘ بنے یعنی ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔ بھتیجی کواڈیالہ سے جاتی امرا گھر پہنچایا توبھائی کو کوٹ لکھپت سے لندن۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ شریف فیملی کے لئے درد کا صحرا تھی،آگ کا دریا تھی اور ایسے صحرا میں نخلستان، ایسے دریاپر پل شہبا ز شریف بنے۔ میں اس تنقید کے ساتھ ضرور جاؤں گا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت اپنے اصل معنوں میں نہیں جس کی متعدد اندرونی و بیرونی وجوہات ہیں۔ ہم اسے ضرور ڈسکس کریں گے کہ ملک میں جمہوریت مانگنے والے اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کیوں نہیں لاتے مگر بات سیاست کی ہی نہیں ہمارے سماج کی بھی ہے۔ ہماری سوشل ویلیوز اور فیملی بانڈز کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کے ایک امیر ترین اور طاقتور ترین خاندان کی طرف سے ایسی روایات کا برقرار رہنا خوش آئند ہے،ہمارے جیسے لوگ جو اخلاقیات کے زوال اورخاندانی نظام کے ٹوٹنے سے ایک بڑے طوفان کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں ان کے لئے شہباز شریف کی وفاحوصلہ افزا ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply