اے تحیر عشق۔۔۔۔روبینہ فیصل

ایک ناول جس میں ایک صدی کی داستان ہے۔۔۔
کچھ لوگوں کے چہرے ایسے صاف شفاف اور پاکیزہ ہو تے ہیں کہ زندگی میں اگر انہوں نے کوئی غلط کام کر بھی لیا ہو تو وقت سمندر کی لہروں کی طرح اسے اپنے ساتھ یوں بہا لے جاتا ہے اور ریت اسی طرح ٹھنڈی میٹھی سی نرم گرم حالت میں ویسے کی ویسی رہتی ہے اور دل کی معصومیت، ہر حال میں پو ری شخصیت پر حاوی رہتی ہے۔ایسے انسان آج کل کے دور میں ملنے مشکل ہیں اور وہ بھی ٹورنٹو جیسے تیز طرار اور ہشیار شہر میں مگر ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہمارے حلقہ احباب میں ایک بالکل ایسا انسان موجود ہے۔

میں ” اے تحیر عشق “کے خالق جناب رفیع مصطفے صاحب کی بات کر رہی ہوں۔ ان سے میری پہلی ملاقات ایک اور نفیس اور ہر دل عزیز شخصیت جناب حسین حیدر کے دولت کدے پر ہو ئی تھی۔ تب رفیع صاحب نے اپنے انگریزی ناول Tales from Birehraکا کچھ ابتدائی حصہ سنایا تھا۔ اور تب وہ ناول نہیں تھا بس وہ کچھ لکھ رہے تھے ہجرت کا کرب انڈیا سے پاکستان اور پاکستان سے کینیڈا۔۔ان ہجرتوں کابھیگا بھیگا درد تمام عمر کامیاب سے کامیاب مہاجر کے دل میں بسیرا کئے رہتا ہے۔میں نے ان کی وہ تحریر سنتے ہی اپنے مخصوص برجستہ پن سے کہاتھا ” اسے ناول بنا لیں ” اور بعد میں حسب معمول دل میں شرمندگی محسوس کی کہ وہ اتنے قابل انسان ہیں میں کیا اور میری اوقات کیا ،یو نہی خواہ مخواہ بولی۔۔ تب وہ انتہائی شفیق انداز سے مسکرا دئیے تھے اورمجھے اپنی گھبراہٹ میں لگا کہ وہ مسکراہٹ بھی طنزیہ ہے۔ مگر ایسا کچھ نہیں تھا، وہ ان چند نایاب لوگوں میں سے ہیں جو چھوٹوں کی بات کو بھی احترام سے سنتے اور قابل ِ عمل ہو تو اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر کر بھی گزرتے ہیں۔۔ اور آپ کا مشورہ انہوں نے مانا یہ بھی مان لیتے ہیں، یہ نہیں کہ کر کے ڈٹ جائیں کہ ہم ہی عقل کل ہیں۔۔۔ یہ رویہ بہت عام ہے کہ آپ کی رائے یا مشورے یا کسی عمل کو دیکھ کر عین بین ویسے ہی کریں گے مگر آپ کو شکریہ تو دور کی بات یہ شک تک نہیں پڑنے دیں گے کہ آپ کی ذات سے انہوں نے کچھ لیا ہے۔۔ کسی کے مشورے کو مان کرنہ ماننا،میرے نزدیک چھوٹے پن کی بات ہے تو ایک طرف تو ایسے ایسے ماہر احسان فراموش لوگ ہیں اور دوسری طرف رفیع مصطفے جیسے نفیس لوگ بھی ہیں جنہوں نے میرے منہ سے نکلے سرسری جملوں پر عمل پیرا ہو کر، مجھے خاص طور پر بتایا کہ روبینہ یہ جو ناول لکھ رہا ہوں آپ نے کہا تھا کہ ہجرت کی اس کہانی کو آگے تک جانا چاہیے  تو یہ موٹیویشن وہیں سے آئی ہے۔

یہ اعلی ظرف لوگوں کی ادائیں ہیں۔ وہ کون لوگ تھے جو بچوں کی ایسی اعلی تربیت کر گئے۔۔تو اس کا جواب مجھے ان کے ناول” اے تحیر عشق” پڑھ کر مل گیا۔ گو کہ انہوں نے ابتدائیے میں یہ کہا ہے کہ یہ ان کی سوانح عمری نہیں مگر اس ناول میں جو ذوق، جو اعلی قدریں اس خاندان کی نظر آئی ہیں ان کا عکس رفیع صاحب کی شخصیت میں صاف نظر آتا ہے۔اُن سے میری ملاقاتیں کچھ زیادہ نہیں ہیں،مگر ایسے شفاف لوگوں کو جاننے کے لئے ایک عمر نہیں چاہیے  ہو تی۔ میں جب جب ان سے ملی تو لگا ناول کے مرکزی کردار بلا ل سے ہی مل لیا۔۔ وہی لحاظ، وہی ادب، وہی ایک پورے زمانے کی تہذیب دکھاتا پر وقار چہرہ۔۔رشتوں کا لحاظ اور اپنی نفسانی خواہشوں کو قربان کر کے سماج اور خاندان کے اصولوں پر چلنا گو اُس زمانے میں کوئی مافوق الفطرت بات نہیں تھی۔ باغی اس زمانے میں بھی ہو نگے، نہ ہو تے تو آج کے  دور کے ایسے اتھرے اوربا غیانہ رویے کہاں سے جنم لیتے، بیج تو بہت پہلے بو دئیے جاتے ہیں نا۔۔۔

رفیع صاحب کی سادہ شخصیت کی طرح یہ ناول بھی بالکل سادہ سی زبان میں ایک سادہ سی کہانی ہے۔ جس میں تقسیم ہند کے وقت بدلتے حالات نے کس طرح لوگوں کی زندگیوں پر جسمانی اور نفسیاتی اثر ڈالا اورکس طرح مہاجروں نے اُس ہجرت کا کرب اٹھایا جس کی منزل ویسی نہیں تھی جس کا خواب ان کی آنکھوں میں جگایا گیا تھا۔ سنہرے خواب کی ڈروانی تعبیر لوگوں کے آگے کھڑی تھی۔ اپنی املاک چھوڑ کر وہ ایک غیر دھرتی پر مذہب کے نام پر کھپاتو دئیے گئے تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے جن حقوق کی حفاظت کے لئے یہ ملک بنایا جا رہا حقوق کی وہ حفاظت انہیں یہاں مل پائے گی یا نہیں؟۔۔۔۔۔پاکستان میں پہلے سے موجود لوگوں کو لگا یہ لوگ کہاں سے آگئے ہیں،جانے والوں کی جائدادوں، زمینوں پر تو ہمارا حق تھا، یہ کہاں سے آگئے۔۔ یہ کہاں سے آگئے کا سوال آج بھی سندھی وڈیروں اور پہلے سے موجود شہریوں کی نفسیات میں شامل ہے جس نے ہجرت در ہجرت کو ضروری بنا دیا تھا۔اس ناول کی سادہ زبان اور ایک خاندان کی سیدھی سادی کہانی نے مجھے تاریخ کا وہ گہرا سبق سکھا یا جسے تاریخ کی بے تحاشا کتابیں کھنگال کر بھی مجھے نہیں مل سکاتھا۔

بلال کی چھوٹی بہن معصومیت سے جب بھائی سے پوچھتی ہے کہ برچھا لگتا ہے تو درد تو ہو تی ہوگی، ننھا بلال جواب میں کہتا ہے ہاں مرنے تک، مر جاو تو پھر درد نہیں ہو تی۔معصوم جملوں کے اس تبادلے میں کیا کیا دکھ نہیں چھپا ہوا۔
تقسیم کے وقت مہاجروں کا دو طرفہ کرب تھا۔ بڑی ہمت سے انہوں نے پاکستان کو اپنی تعلیم، مہارت اور ہنر سے سنوارنے کا عزم کیاتھا۔ اس ناول میں موجود بلال کے ابو اور ماموں کا کردار،نئے ملک میں معاش کی جد و جہد کی وہ مثالیں ہیں جن لوگوں نے ہندوستان میں سب چھوڑنے کے بعد نئے ملک میں اپنی محنت سے اپنا جہان پھر سے آباد کیاتھا، اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی۔ روبینہ،زرینہ، مومنہ اور شگفتہ کے کردار ایسی لڑکیوں کے کردار ہیں جنہوں نے تعلیم کو اپنی شخصیت منوانے کا ذریعہ بنا یا۔

مومنہ کا کردار ایک ایسی لڑکی کا ہے، جو کہ نقاب میں رہتی ہے اور یہ ایک ایسا علامتی کردار ہے جو عورت کی آزادی کوچار چاند بخشتا ہے،یوں کہ اگر عورت جسم اور چہرے کی نمائش نہ بھی کرے اور علم کے زور پر مرد کے مقابل آجائے تو آزاد ہی ہو گی ۔بے جا نفسانی خواہشوں کی تکمیل کو جنسی آزادی کا نام دے کر جو نعرے لگائے جاتے ہیں وہ صرف عورت کی شناخت ختم کر کے آزادی کے نام پر اپنے لیے آسانی سے دستیاب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس ناول میں لڑکیاں وکیل اور ڈاکٹر بن رہی ہیں گو کہ اپنی خواہشیں بھی رکھتی ہیں مگر ان کو قابو کر کے معاشرے کو ایک استحکام دیتی نظر آتی ہیں۔ جنسی آزادی کا شخصی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہو تا۔۔ اسے ایک دوسرے کے ساتھ نتھی کر کے مرد نے درحقیقت اپنی جنسی خواہش کو پو را کر نے کی ایک اور کوشش کی ہے۔ آزادی کا تعلق ایک فرد کی اپنی ذات سے نہیں ہو تا، فرد کی آزادی ارد گرد موجود لوگوں سے وابستہ ہو تی ہے۔۔ رفیع مصطفے صاحب کی اپنی شخصیت دیکھ کر اس ناول کے مرکزی کردار کو سمجھنے میں بہت آسانی  ہو تی ہے۔ وہ بزدل نہیں بلکہ با اخلاق اور بہادری کی وہ قسم ہے جو اپنے نفس کے گھوڑے کو مار کر گرا دیتے ہیں اور خواہشوں کے اس میدان جنگ میں سر خرو کھڑے ہو تے ہیں۔۔ نفس کے آگے شکست کھانے والے کہاں کے بہادر ہو تے ہیں، وہ تو انسان کی کمزور ترین قسم ہے۔

ایک ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی تھی، ایک ہجرت پاکستان سے باہر۔۔اس ناول میں دونوں کرب موجود ہیں۔
بلال،آکسفورڈپڑھنے کی غرض سے آیا ہے مگر باپ اپنی بیماری چھپا رہا ہے تاکہ بیٹا تعلیم مکمل کر لے اور اس کے پہنچتے پہنچتے باپ کی روح پرواز کر چکی ہو تی ہے اور بیٹے کے ہاتھ صرف پچھتاوا ہے کہ کیوں باپ سے اتنے سال ملنے نہیں آیا۔۔
اپنے کئیریر اور خود کی تکمیل کے لئے انسان قریبی رشتوں میں ایسے زمینی اور ذہنی فاصلے پیدا کر لیتا ہے کہ بعد از موت سوائے پچھتاوؤں کے کچھ نہیں رہ جاتا۔
ہجرتوں کے دکھ اوروقت کا ستم جس میں بچے بڑے اور بڑے بوڑھے ہو جاتے ہیں، خواہشوں کی تکمیل اور ادھورا پن۔۔ ان سب نے مجھے تو رلا دیا۔۔ اور میں نے رفیع مصطفے صاحب کو ایک میسج لکھا کہ” آپ بہت برے ہیں آپ نے مجھے رلا دیا۔۔۔۔ ”

نام کتاب: اے تحیر عشق

مصنف: رفیع مصطفیٰ

ناشر: فضلی بکس

مزید معلومات کے لئے:

لاہور: کتاب سرائے۔ 0300-9401-474

Advertisements
julia rana solicitors london

کراچی: فضلی سنز۔ 0336-2633-887

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”اے تحیر عشق۔۔۔۔روبینہ فیصل

  1. تبصرہ پڑھ کر ناول پڑھنے کا اشتیاق اور بڑھ گیا ہے۔ تبصرے ہی سے اس کی کہانی کی اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے کیونکہ برصغیر کے عام آدمی کی زندگی کا بہت کچھ اب تک تشنۂ اظہار ہے۔

  2. زبردست اور رواں تبصرہ بلکہ ایک مکمل مضمون جس میں ناول، ناول نگار کی شخصیت، حالت حاضرہ، موجودہ معاشرتی اور سیاسی کشمکش اور بہت سی باتوں کا نہایت مہارت سے احاطہ کیا گیا ہے پڑھ کر مزا آگیا

    1. بہت شکریہ حیدر صاحب ۔۔۔۔
      فیصل عظیم اور رضوان نوازش
      ڈاکٹر خالد آپ ہمارے لئے ایک مسلسل انسپایریشن ہیں ۔

  3. روبینہ فیصل صاحبہ۔اس مضون کے پڑھنے سے
    رفیع مصطفیٰ صاحبب کےبارے میں گراں قدر معلومات ہو یں اور ان کی ناول کے بارے میں بھی۔ جس سے کتاب پڑھنے اور مصنف سے ملنے کو خواہش ہوٸی۔
    اس کے علاوہ آ پ کی انکسار ی ، اعلیٰٰ ظرفی اور ٕ روشن خیالی کے بارے میں مزید اضافہ ہوا ۔میں اکثر آپ کے مضامین پڑھتا رہتا ہو ں۔شاد رہیں۔

Leave a Reply