ریاست مقدم ہے یا انا پرستی

یہ جملہ سن سن کر میرے کانوں کی میل بھی باہر آچکی ہے کہ “جمہوریت سے مراد جمہور کی حکمرانی ہے”۔ صاحبان دانش کہیں جمہور کے معنی خاندانی نوازشات اور بندربانٹ تو نہیں؟ یا پھر جمہور کے معنی شخصی اناؤں کی تسکین تو نہیں؟ میں نے جو جمہور کے معنی پڑھے تھے، ان معنوں اور موجودہ نظام کا درمیانی تعلق دور دور تک ظاہر نہیں ہوتا ۔ سیاسی جماعتوں کے ورکرز مجھے نظام میں تبدیلی کی خواہش کےعلمبردار کم اور غلام زیادہ نظر آرہے ہیں۔جن کا مقصد صرف اور صرف اپنے قائدین کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور ان کی انا کی تسکین کرنا ہے۔موجودہ صوتحال میں مجھے اس ریاست کا خیر خواہ بھی کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ ہر بندہ اپنی سمت میں بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑا چلا جارہا ہے۔

احتجاج جمہوریت کا لازمی جزو ہے لیکن اس کے ساتھ حکومت کی برداشت اس کی سیاسی بصیرت اور جمہوری سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم موجودہ حکومت کا رویہ آمرانہ ہے، طرز عمل غیر مہذب اور غیر شائستہ ہے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھ لیجیے، جب جب کرپشن کے خلاف تحریکیں چلیں، حکومت کے خلاف محاذ آرائیاں ہوئیں، تب تب سیاسی بصیرت اور جمہوری سوچ ہی نے فتح پائی۔ لیکن ابن الوقت حکمرانوں میں اس کی خاصی کمی ہے۔ برصغیر میں کرپشن کے خلاف سب سے بڑی تحریک گزشتہ برسوں ہندوستان میں چلی۔ انا ہزارے نے پرامن تحریک چلائی جس کا مقصد لوک پال بل کی منظوری تھا۔ اس تحریک نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ انا ہزارے نے بھوک ہڑتال کی، عوام نے ان کا ساتھ دیا۔ سول سوسائٹی، این۔جی۔اوز نے مکمل تعاون کیا۔ اس مثال کو بیان کرنے مقصد اس وقت کی کانگریسی حکومت کے سیاسی تدبر اور جمہوری سوچ کو بیان کرنا ہے۔

سابق صدر غلام اسحاق خان نے اپنی وفات سے قبل ایک جملہ کہا تھا “نوازشریف کو کبھی اقتدار میں مت لانا، نہیں تو یہ شخص صوبوں کو آپس میں لڑوائے گا، جس سے پاکستان ٹوٹ جائے گا۔” یہ جملہ آج کی صورتحال میں مکمل طور پر درست ثابت ہورہا ہے۔ نون لیگ کا رویہ مکمل آمرانہ ہوچکا ہے۔ جس کی سب سے بڑی اور تاریک مثال وزیراعلی پرویز خٹک کے قافلے کو روکنا اور پھر سرکاری وسائل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔ ایک طرف پختونوں کا منتخب نمائندہ اپنی قیادت کے حکم پر اسلام آباد آرہا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس کا کریک ڈاؤن۔ ہم کیا پیغام دے رہے ہیں؟ پنجابی تو پہلے ہی بدنام ہیں، اوپر سے اس طرح کے ہتھکنڈے ۔۔۔ کہاں کی جمہوریت کہاں کی حکومت؟ فرد واحد اپنے احتساب سے بچنے کے لیے پورےملک کو جنگ میں دھکیل رہا ہے۔ تاریخ کبھی اس کو معاف نہیں کرے گی۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply