کیا غیرت انسان کی جان سے زیادہ قیمتی ہے؟۔۔زبیر حسین

غلام سرور خان مہمند پشاور کے ایک مشہور تاجر اور صنعت کار ہیں۔ انہوں نے ١٩٨٩ میں اپنی ١٩ سالہ بیٹی سمیہ سرور کی شادی اپنی بیوی ڈاکٹرسلطانہ کی بہن کے بیٹے ڈاکٹر عمران صالح سے بڑی دھوم دھام سے کی۔ گورنر، چیف منسٹر، اور اہم سیاسی شخصیات سمیت ایک ہزار افراد نے شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ دوسرے بیٹے کی پیدائش سے پہلے حاملہ سمیعہ خاوند کی بدسلوکی اور تشدد سے تنگ آ کر والدین کے پاس چلی گئی۔ ڈاکٹر عمران نے انھیں فون کرکے بتا دیا کہ اب وہ سمیعہ کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ سمیعہ طلاق لینا چاہتی تھی لیکن والدین نے صاف کہہ دیا کہ طلاق لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی نظروں میں طلاق خاندان کی عزت اور غیرت کا قتل تھا۔ نہ صرف سمیعہ کے والدین اور بہن بھائی بلکہ چاچے ماموں بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔

کچھ عرصے بعد سمیعہ کو ایک آرمی کیپٹن نذیر مرزا سے محبت ہو گئی۔ وہ قانون کا مطالعہ کر چکی تھی اور اسے علم تھا کہ طلاق کے راستے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ یوں بھی اس کا خاوند برسوں پہلے اسے چھوڑ چکا تھا۔ مارچ ١٩٩٩ میں جب اس کے والدین حج پر گئے ہوئے تھے وہ لاہور چلی گئی اور تشدد کا شکار عورتوں کی واحد پناہ گاہ دستک میں پناہ لے لی۔ پھر اس نے وکیل حنا جیلانی کی مدد سے خاوند عمران سے طلاق لینے کا مقدمہ دائر کر دیا۔

سمیعہ کے والدین حج کرکے واپس آئے تو انہوں نے سمیعہ اور حنا جیلانی کو پیغام بھیجا کہ وہ اب طلاق کے لئے بیٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ ایک بار بیٹی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ سمیعہ کو باپ کا اعتبار نہیں تھا۔ البتہ وہ ماں سے ملنے کے لئے تیار ہو گئی۔ ملاقات حنا جیلانی کے آفس میں ہونا تھی۔ وعدے کے مطابق اکیلے آنے کی بجائے ڈاکٹر سلطانہ ایک داڑھی والے پہلوان نما بندے کو ساتھ لے آئی۔ حنا جیلانی نے اعتراض کیا تو کہنے لگی کہ حبیب الرحمن میرا ڈرائیور ہے اور اس کے سہارے کے بغیر میں چل نہیں سکتی۔ قصہ مختصر حنا جیلانی کے احتجاج کے باوجود ڈاکٹر سلطانہ اور حبیب آفس میں گھس گئے۔ حبیب نے گن نکالی اور سمیعہ کے سر میں گولی مار دی۔ سکیورٹی گارڈ نے حبیب کو وہیں مار دیا۔ سمیعہ کا چاچا یونس جو باہر انتظار کر رہا تھا سمیعہ کی ماں کے ساتھ حنا جیلانی کی ایک معاون وکیل کو بھی اغوا کرکے ٹیکسی میں بھاگ گیا۔ معاون وکیل کا کہنا ہے کہ سفر کے دوران سمیعہ کی ماں ایسے پُرسکون تھی جسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ وہ عورت تھی جو چند لمحے قبل اپنی بیٹی کو خون میں لت پت چھوڑ آئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے یہ کہانی ایک کتاب The Honor Code میں پڑھی۔ اس سے قبل ایسی کچھ کہانیاں خالدہ بروہی کی کتاب I Should Have Honor میں بھی پڑھ چکا ہوں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا خاندان کی غیرت ایک جیتے جاگتے انسان کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ اس کائنات میں زندگی سے زیادہ قیمتی کوئی شئے نہیں۔ کسی بھی انسان کو خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں کسی دوسرے انسان کی زندگی کا چراغ گل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ والدین بچوں کے خالق نہیں کہ ان کے زندہ رہنے یا مرنے کا فیصلہ کریں۔ اہل مغرب اس حقیقت کو جان گئے ہیں۔ وہ اپنے بالغ بچوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے۔ معلوم نہیں کب پاکستانی والدین فرسودہ اور جاہلانہ قبائلی روایات اور رسومات سے باہر نکلیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply