شادی چاہے محبت کی ہو یا بزرگوں کی طرف سے طے کردہ، دونوں صورتوں میں جسمانی تعلق بنیادی اور ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ اور جسمانی تعلق ایک انتہائی پرائیویٹ یعنی نجی معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں کم و بیش چالیس فیصد افراد غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی بِتا رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا کوئی مستقل ذریعۂ آمدنی نہیں ہے بلکہ انہیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ دوسرے وقت کا کھانا کس ذریعے سے نصیب ہو گا۔ ایسے خاندانوں کے ہاں ایسے کسی گھر کا تصور ناپید ہوتا ہے جہاں باتھ روم، ڈرائنگ روم اور بیڈ روم جیسی سہولت دستیاب ہوں۔ان کا ٹائلٹ کھیت ہوتے ہیں۔ گندے نالے یا سرکاری نلکے باتھ روم کا کام دیتے ہیں اور جھونپڑی یا جھونپڑی نما کمرہ ان کا مکمل گھر ہوتا ہے۔ ان بے چاروں کے ہاں تو ازدواجی تعلق جانور کی سطح سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاں تعلیم، تہذیب اور سوک سینس کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔
جہاں تک لوئر مڈل کلاس کا تعلق ہے ان کو بھی جھونپڑی یا دڑبہ نما گھر دستیاب ہوتا ہے جو ایک دو چھوٹے سائز کے کمرے، غلسخانہ، بیت الخلاء اور چھوٹے سے صحن پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اکثر پانچ سے زیادہ افراد پر مشتمل خاندان رہائش پذیر ہوتا ہے۔ باورچی خانے کے لئے برآمدے یا صحن میں جگہ بنائی گئی ہوتی ہے اور برتن دھونے کے لیے صحن میں کھُرا بنا ہوتا ہے۔الماریاں اکثر ناپید ہوتی ہیں۔ جہیز میں ملنے والی لوہے کی ایک بڑی پیٹی میں نئے کپڑے اور بستر اور بچیوں کے جہیز سنبھالے جاتے ہیں۔ اسی چھوٹے سے گھر میں بیٹوں کی شادیاں بھی ہوتی ہیں اور انہیں عارضی طور پر برائے نام ایک کمرہ مل جاتا ہے جہاں کچھ دنوں کے لیے نئے جوڑے کو کھل کھیلنے کا موقع نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی رات گئے۔
جسمانی تعلق ایسا معاملہ ہے جو انتہائی درجے کی پرائیویسی کا تقاضا کرتا ہے۔ یعنی ایک ایسا ماحول جہاں جوڑے کو اس بات کا خدشہ نہ ہو کہ کوئی انہیں دیکھ یا سن رہا ہے۔ مگر ہمارے ہاں شبِ زفاف میں عجب صورتحال ہوتی ہے۔ گھر کے سارے کونے کھدرے دور پار سے آئے ہوئے مہمانوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اور پھر ہر کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ حجلۂ عروسی میں کیا سرگرمی ہونے جارہی ہے۔ کم و بیش گھر کا ہر باہوش فرد کیا مرد اور کیا عورت، اس ہونے والی سرگرمی کو سوچ کر اپنا تخئیل بنا اور سجا رہے ہوتے ہیں۔ دولہا دولہن کو شائد یہ لگتا ہے کہ وہ ایک ایسی چوری کرنے جارہے ہیں جس کی سب کو پہلے سے خبر ہے۔ زندگی کی سب سے پُرجوش ترین سرگرمی کے لیے یہ ماحول بالکل مناسب نہیں ہے، مگر کیا کیا جائے یہ حالات کا وہ جبر ہے جسے برداشت کئے بنا کوئی چارہ بھی نہیں۔ اس صورتحال کو منٹو نے اپنے افسانے ’ننگی آوازیں‘ میں بہت خوبصورتی سے دکھایا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں