جماعت اسلامی ہی کیوں؟

جماعت اسلامی کا صوبہ خیبر پختونخواہ کی سطح پر اجتماع عام اپنے اختتام کو پہنچا. جہاں جماعت اسلامی صرف ایک صوبے کی سطح پربلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد میں اپنی فکر سے متاثر مرد وخواتین کو جمع کرکے نازاں ہے وہیں میڈیا کی طرف سے اس اجتماع کو خاطر خواہ کوریج نہ ملنا بھی ایک حقیقت ہے. مختلف حلقوں نے میڈیا کی اس جانبداری کی طرف توجہ دلوائی ہے. ہم بھی جماعت کی تاریخ کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا جماعت اسلامی اس ملک میں عوامی پزیرائی حاصل کر پائے گی؟


26اگست 1941 میں محض چند درجن نفوس سے شروع ہونے والا جماعت اسلامی کا نظریاتی قافلہ آج برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں افراد کا ساتھ حاصل کر چکا ہے. اس وقت جماعت اسلامی اپنے نام سے نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا, بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی کام کر رہی ہے.


جماعت اسلامی اپنی تنظیم سازی اور نظم وضبط میں ایک استعارے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے. آج ہمیں وطن عزیز میں جماعت جیسا جمہوری طرز عمل اور احتساب کا مظبوط نظام کسی اور جماعت میں نہیں ملتا. جماعت کی تاریخ سید مودودی, میاں طفیل محمد, قاضی حسین احمد, سید منور حسن اور اب سراج الحق تک اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں افراد کا چناؤ موروثیت, ذات پات, برادری, مالی حیثییت وغیرہ سے یکسر ہٹ کر خالصتاً اس بات پر منحصر ہے کہ اس فرد میں تقوٰی ,دین سے محبت اور جماعت میں اسکی کارکردگی کس حد تک مؤثر ہے.


آج جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے لئے جماعت اپنے قیام سے لیکر آج تک پوری تندہی سے کوشاں ہے, قیام پاکستان کے بعد دستور سازی کے موقع پر قرار داد مقاصد منظور کرانے کی بات ہو, قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے کی تحریک ہو, آمریت کے خلاف مادر ملت کی حمائت ہو,سوشلزم ,کمیونزم وسرمایہ دارانہ نظام کا فکری محاذ پر مقابلہ ہو, بنگلہ دیش نہ منظور تحریک ہو,73 کے آئین کی اسلامی دفعات ہوں, تحریک نظام مصطفٰے ہو, سرخ ریچھ کو افغانستان میں شکست دینے کی بات ہو, جہاد کشمیر ہو, مشرف آمریت کا مقابلہ ہو, عدلیہ بحالی تحریک ہو, گو امریکہ گو ہو یا آج کرپشن سے پاک اسلامی اور خوشحال پاکستان ہو, جماعت اسلامی کا مثبت تاریخی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں. آج بھی جماعت اسلامی کے راہنماؤں کو اس ملک سے محبت کی پاداش میں بنگلہ دیش میں تختہ دار پر لٹکایا جا ہے.


خدمت خلق کے میدان میں جماعت اسلامی کے زیر انتظام چلنے والی خدمت خلق کی تنظیمیں بشمول ریڈ فاؤنڈیشن, حرا فاؤنڈیشن, غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ, آغوش کفالت یتامٰی منصوبہ اور سب سے بڑھ کر الخدمت فاؤنڈیشن تعلیم, صحت, قرضہ حسنہ کی فراہمی, دستکاری سکولوں, پینے کے صاف پانی کی فراہمی, مفت قانونی امداد,کفالت یتامٰی و مساکین, زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات میں مدد کے حوالے سے ملک بھر میں سب سے بڑے خدمت خلق کےنیٹ ورک کا روپ دھار چکی ہیں. جماعت اسلامی وکلا, اساتذہ, طلباء, مزدوروں الغرض معاشرے کے ہر طبقے میں بھی اپنی برادر تنظیمات کے زریعے تبدیلی کیلیے کوشاں ہے.


جماعت اس ملک کی سیاست میں منفرد اسلو ب کی حامل جماعت ہے جو بلدیات سے لیکر اوپر کے ایوانوں تک اپنے تربیت یافتہ مخلص کارکن کو ہی حق نمائندگی کے لئے پیش کرتی ہے. پاکستانی کی جمہوری تاریخ میں بلدیاتی و بالائی ایوانوں میں جماعت اسلامی کی طرف سے پیش کردہ سینکڑوں افراد حق نمائندگی حاصل کرتے رہے ہیں, ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تین بار جماعت اسلامی کے مئر منتخب ہوئے, مرکزی و صوبائی حکومتوں میں بھی مختلف ادوار میں جماعت کے وزراء کی کارکردگی مثالی رہی. ان سب ذمہ داران کا دامن ہر قسم کی کرپشن کے داغوں سے پاک رہا اور عوامی خدمت میں بھی انھوں نے سرکاری خزانہ کو عوام کی امانت سمجھتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے انتہائی دیانتداری سے استعمال کیا, اس حوالے سے جہاں بابائے کراچی کہلانے والے کراچی کے دوبار منتخب مئر عبدالستار افغانی جب مئر شپ چھوڑتے ہیں تو وہی چھوٹا سا میڈیکل سٹور اور پرانا گھر ہی انکی پہچان رہتا ہے, کراچی کے بجٹ کو چار ارب سے 44ارب تک پہنچا دینے والے جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اللہ خان کےدور میں جب کمیشن سے پاک کلچر فروغ پاتا ہے تو کروڑوں روپے میں مکمل کئے جانے والے پراجیکٹس کی لاگت پہلے سے بہتر معیار کے ساتھ لاکھوں روپے قرار پاتی ہے اور کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بنتا ہے. آج نعمت اللہ خان کی خدمات کا اعتراف انکے بد ترین مخالف بھی کرتے ہیں.


جہاں وطن عزیز نے پچھلے دنوں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے کے سیکرٹری خزانہ کی کروڑوں روپے کی شرمناک کرپشن پکڑی جاتی ہے, وہیں اسی ملک کےصوبے پختونخواہ کے سابق وزیر خزانہ کے دور میں لاہور کا سرکاری دورہ محض چند سوروپے میں مکمل ہو جاتا ہے اور یہی مرد قلندر مرد حق جسے دنیا سراج الحق کے نام سے جانتی ہے جب سرکاری دورے پر جرمنی پہنچتا ہے تو رات کسی فائیو سٹار ہوٹل میں گزارنے کی بجائے اپنے سرکاری اہلکاروں کو لے کر مقامی اسلامک سینٹر میں گزارتے ہیں تاکہ قومی خزانے کی بچت ہو اور وزیر خزانہ ہوتے ہوئے پشاور میں چھوٹے سے کرائے کے گھر میں بغیر کسی پروٹوکول رہتے ہیں, اپنے دفتر اور گھر میں محض اس لیے ائر کنڈیشنر استعمال نہیں کرتے کہ جبتک لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو جاتی میراضمیر AC استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا.


آخر میں مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوال کا ذکر ہےکہ"اپنی اتنی پرانی اور شاندار تاریخ کے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی انتخابات میں خاطر خواہ کارکردگی کیوں نہیں دکھا پاتی ؟"


اس سوال کا جواب میری نظر میں یہ ہے کہ موجودہ انتخابی نظام جماعت اسلامی کی انتخابی طاقت کا کبھی بھی مکمل آئینہ دار نہیں بن سکتا, ایک تو جماعت اپنے ہی زیادہ تر غریب اور مڈل کلاس کارکن کو ٹکٹ دینے کی پالیسی کی وجہ سے ہر حلقے میں امیدوار کھڑا نہیں کر پاتی,دوسرا جہا ں جما عتی امیدوار ہو تے بھی ہیں وہا ں بہت سے لوگ جما عت کو پسند کرنے کے با وجود محض اسلئے ووٹ نہیں دیتے کہ مطلوبہ انتخابی وسائل کی عدم موجودگی میں انھوں نے کو نسا کامیاب ہونا ہے. اس سیا سی نظام میں سیا سی جما عتیں اپنے منشور کی بجا ئے با اثر امید واروں کی محتاج ہیں,خواہ یہ امید وار کیسے ہی کر دار کے مالک کیوں نہ ہو ں. عمومی طور پر یہ با اثر امیدوار الیکشن کو منا فع بخش کاروبار کی طرح لیتے ہیں, یعنی لاکھوں لگاؤ اور کروڑوں کما ؤ. ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت اس فرسو دہ انتخابی نظام کو بدلنے کے لئے ہم خیال جماعتوں کے ساتھ ملکر بھر پور مہم چلائے.متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات اس نظام کا بہترین متبادل ہوسکتے ہیں. علاوہ ازیں عوام الناس میں بلا شبہ اسلام سے روائتی محبت موجود ہےلیکن وہ مختلف سیاسی جما عتوں کے درمیان مذہبی وغیر مذہبی کی تفریق نہیں پاتے, ہمارے عوام جتنا کچھ روائتی قسم کے مذہبی ہیں اتنا مذہب کا تڑکا ہر جما عت لگا تی ہے. عوام الناس میں اسلامی حکومت کے اصل پہلو, بے لاگ اور یکساں انصاف, غریب پروری, سود سے پاک قرض حسنہ, صدقات, مشا رکہ اور مضاربہ وغیرہ پر مبنی معیشت, مکمل ہر قسم کی مذہبی تقسیم کے بغیر رواداری پر مبنی ریاستی سہو لیات, حیا اور پاکیزگی کی بنیاد پر نمو پانے والے معاشرے کا فروغ, مرد و خواتین کے لئے یکساں تعلیمی مواقع, خود داری پر مبنی خا رجہ پا لیسی, معاشرے کے کمزور اور پسے ہو ئے طبقات کی فلاح کے لئےریاست کی طرف سےسہولیات کی فراہمی جیسے پہلوؤں کو نما یا ں کر نے کی ضرورت ہے. ترکی میں طیب اردوگان کا سیاسی کام جماعت کےلئے بہت حد تک اچھا ماڈل ثا بت ہو سکتا ہے.

Facebook Comments

احسن سرفراز
بندگی رب کا عہد نبھانے کیلیے کوشاں ایک گناہگار,اللہ کی رحمت کاامیدوار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply