دماغ کی صلاحیت(3،آخری حصّہ)-انور مختار

ہمارا دماغ ہمیں بتاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے، کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہے، کیا سوچنا اور کیا بولنا چاہیے۔یہ دماغ ہی ہے جو سڑکوں یا گلیوں میں پھرتے اجنبیوں کے چہروں کو یاد رکھتا ہے اور ہمیں فکروں سے بچاتا ہے۔ انسانی دماغ میں تقریباً سو ارب خلیات ہوتے ہیں جبکہ ایک دماغی خلیے کے دیگر دماغی خلیات کے ساتھ ایک ہزار سے دس ہزار تک رابطے ہوتے ہیں اور ان خلیات کے درمیان پیغامات کی منتقلی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہو جاتی ہے۔ پیدائش کے وقت انسانی دماغ کا وزن تقریباً ایک پونڈ (آدھے کلو سے بھی کم) ہوتا ہے لیکن جب انسان چھ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو دماغ کا وزن تین پونڈ تک ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب ہم کھڑا ہونا، باتیں کرنا اور چلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس دوران ہمارے دماغ میں رابطوں کا ایک جال بچھنے لگتا ہے اور یوں دماغ کا وزن بڑھ جاتا ہے زندہ رہنے اور کچھ بھی سیکھنے کے لیے ہم دماغ پر انحصار کرتے ہیں مگر یہ جسم کا وہ عضو ہے جس کے بارے میں بہت کچھ اب بھی صیغہ راز میں ہے پیدائش کے وقت انسانی بچے کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ، دماغ میں پہلے سے قدرت کی طرف سے ڈالے گئے خودکار احکامات عمل کر رہے ہوتے ہیں ۔ جن میں سونگھنے ، چکھنے ، سننے ، دیکھنے اور محسوس (لمس) کرنے کے حصے موجود ہوتے ہیں جو کان ، جلد ، آنکھ ، ناک اور زبان سے تمام اِن پُٹ ڈاٹا لیتے ہیں ماں کے پیٹ میں صرف دو دماغی حصے کام کرتے ہیں وہ سننے اور محسوس کرنے کے ہیں ۔ باقی تین حصوں کے پروگرام پیدائش کے ساتھ ہی ڈویلپ ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔کمپیوٹر کی زُبان میں ایک نومولود کے دماغ میں صر ف BIOS-ROM (basic input/output system) موجود ہوتی ہے ۔دماغ کے سٹوریج یونٹ (HardDisk) میں، پانچ حسیات سافٹ وئر ڈویلپ کر نا شروع کرتی ہیں ۔کیسے ؟ دماغ میں آنکھوں سے بننے والی معلومات ایک سادہ تصویر کی طرح نہیں ہوتی بلکہ ایک فلم کے سین کی مانند ہوتی ہے ، جسے آپ کا دماغ اینالائز کر رہا ہوتا ہے ، یہ اینالائزیشن ذہن بن کر آپ کے دماغ میں معلوماتی ڈاٹا بڑھا رہی ہوتی ہیں ۔سوچنا ، عقل استعمال کرنا اور تدبّر کرنا دماغ کی مشین میں ہوتا ہے اُن سے نکلنے والا آؤٹ پُٹ ذہن کی کاوش ہے ۔خوشبو کو پہچاننا دماغ کی خصوصیت ہے ، لیکن اُن کو صفات سے موسوم کرنا ، ذہن کا کام ہے ۔گویا دماغ ہو گا تو اُس میں ذہن بنے گا ۔اگر کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک کو چوٹ لگے ، تو اُس کا تمام ڈیٹا (ذہن) غائب ہوجاتا ہے ، یہی حال دماغ پر لگنے والی چوٹ کا ہے ، جو ذہن کو بلینک کر دیتا ہے ۔پانچوں حِسیات میں سے ۔ سننے ، دیکھنے، چکھنے اور سونگھنے کی حسیات سب سے نازک ہوتی ہیں ۔ دماغ اور جسم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔سیرے برَم دائیں حصے اور بائیں حصے کا آپس میں رابطہ ہوتا ہے،لیکن تین دن کے بچے میں نہ تو فنون لطیفہ بیدار ہوتا ہے اور نہ ہی فنونِ کثیف، سیرے بلم اُس کی بیلنسنگ حرکات کوکنٹرول ہی نہیں کرتا ہے۔، پیچوٹری گلینڈ البتہ فعال ہوتا ہے لیکن مکمل نہیں، بلکہ ابتدائی سٹیج میں ہوتا ہے اور ہائپو تھیلا مَس جسم کے درجہ حرارت کوکنٹرول کررہا ہوتا ہے۔
پانچوں حسیات میں، سننے اور چھونے کی حسیات فعال ہونا شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ رنگوں کو بھی پہچانتا ہے اور فاصلے کا بھی اُسے ادراک ہوتا ہے، بیٹھ کر خود کو بیلنس بھی کرتا ہے،چھونے،سننے، دیکھنے، سونگھنے اور چکھنے کی حسیات، پختگی کی طرف رواں دواں ہوتی رہتی ہیں ۔ تقدیری افعال کے پیغامات، دماغ سے جسم میں دوڑتے ہیں، ہاتھ پاؤں چلانا، رونا، کلکاریاں مارنا اور سب سے اہم، چہروں کو پہچان کر اپنے رویئے ظاہر کرنا۔ بچے کا رونااور مسکرانا تقدیری فعل ہے۔
لیکن کلکاریاں مارنا اور ناپسندیدگی ظاہر کرنا، تدبیری عمل ہے۔ ایک پیدائشی بہرا اور اندھا بچہ اِن دونوں رویوں سے نا آشنا ہو گا۔ گویا، سننے اور دیکھنے کی حسیات انسانی جسم میں سب سے زیادہ اہمیت ہے، یہی انسانی دماغ میں ایک بہترین ذہن بناتی ہیں۔ انسانی ذہن کی بنیاد محبت اور خوف پر استوار ہوتی ہے. بچے کا رونا خوف کی علامت ہے اور مسکرانا محبت کی۔ یہ بنیاد زندگی کے خاتمے تک انسان کے ساتھ رہتی ہیں۔
بی بی سی کے ایک آرٹیکل کے مطابق ایک گھوڑے کے بارے میں سوچتے ہی آپ اپنے دماغ میں گھوڑے کی تصویر لے آتے ہیں۔ لیکن دنیا میں دو فیصد لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی بھی چیز کی تصویر کو اپنے ذہن میں لانے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور اسے ‘ایفنتاسیہ’ کہا جاتا ہے۔
This phenomenon is known as aphantasia. Simply put, aphantasia is “the inability to have a visual experience when we are thinking about things in their absence,” says Dr. Adam Zeman, honorary professor of neurology at the University of Exeter with extensive research on aphantasia.
اس بارے میں سائنس دانوں کو حال ہی میں معلوم ہوا ہے لیکن اس صلاحیت سے محروم بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ دیگر لوگوں سے مختلف ہیں۔ بی بی سی ریڈیو 2 میں ایک شو کے دوران جب اس موضوع پر میزبان جرمی وائن نے بات کی تو بہت سے سامعین نے اپنے زندگی کی تجربات کے بارے میں بتایا جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ‘ایفنتاسیہ’ کا شکار ہیں۔ ایڈم زیمان ادارکی اور انسانی افعال سے متعلق اعصابی نظام کے علم کے ماہر ہیں۔ انھوں نے یونیورسٹی آف ایکسٹر میں اپنی ٹیم کے ہمراہ اس مسئلے پر کام کیا اور اس صلاحیت کی کمی کو ‘ایفنتاسیہ’ کا نام دیا۔ پروفیسر ایڈم کا کہنا ہے کہ یہ دماغی آنکھ کی محرومی ہے لیکن یہ کوئی مرض نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ذہن میں کسی بھی چیز کے تصور سے محرومی انسانی یاداشت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی کے واقعات کو دوبارہ یادکرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پروفیسر ایڈم کہتے ہیں کہ لوگ کتنا اچھی طرح کسی بھی چیز کا تصور کر سکتے ہیں اس کے مختلف درجے بھی ہیں۔
ادریس آزاد ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ بلائینڈ سائیٹ (Blindsight) جس کا ترجمہ میں نے ’’اندھی بصارت‘‘ کیا ہے، ایک عجیب و غریب مظہر ِ فطرت ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک بیماری ہے اور اِس کے مریضوں کو نابینا ہی سمجھا جاتاہے لیکن اِس کے مریض نابینا ہوکر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ آنکھوں سے نہیں دیکھتے، وہ بیرونی دنیا کو فقط اپنے دماغ سے دیکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ’’بلائیڈ سائیٹ ایک قابلیت ہے جو اُن میں سے بعض مریضوں کے پاس خود بخود آجاتی ہے جن کا ’’پرائمری وژول کورٹیکس‘‘ خراب ہوجاتاہے۔ پرائمری وژول کورٹیکس دماغ کے پچھلے حصے میں واقع ہوتاہے اور جس شخص کا ’’پرائمری وژول کورٹیکس، چوٹ لگنے سے یا کسی اور وجہ سے خراب ہوجائے، وہ نابینا ہوجاتا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو نابینا ہوجانے کے باوجود چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی اِس صلاحیت کو ’’اندھی بصارت‘‘ یا بلائیڈ سائیٹ کہا جاتاہے۔ ماہرین ِ امراض ِ دماغ یعنی نیورالوجسٹس کا خیال ہے کہ یہ دراصل وہی صلاحیت ہے جسے ہم ’’اندازہ‘‘ لگانے کی صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ اندازہ لگانا ویسا نہیں جیسے مثلاً ہم اندازے سے بتاسکتے ہیں کہ ’’بارش آنے والی ہے‘‘۔ بلائنڈ سائیٹ کا اندازہ اپنی ماہیت میں ’’بائیولوجیکل لوکوموشن‘‘ جیسا ہے۔ ہمارا ہاتھ کیسے جانتاہے کہ ہمارا منہ کہاں واقع ہے؟ لیکن ہم پھر بھی کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر لقمہ منہ میں نہیں ڈالتے۔ ہمارا ہاتھ خود بخود چمچ یا لقمے کو ہمارے منہ تک لے جاتاہے
Aphantasia and Beyond: Exploring the Uniqueness of your mind’s Abilities and Senses
by Shane’s Brain
Can you see pictures in your mind? Can you hear, smell, taste, or touch in your mind?
Whether you already know a little about aphantasia or if this is your first time hearing about it, this book is a great resource for learning and discovering more about the condition and more specifically, your own mind’s eye.
Whether you have aphantasia or not, this book is designed to help you pinpoint and discover what is happening in your mind’s eye in a way you have probably never thought about before. This book contains a series of questions that will help you identify and pull out as much information as possible about what you may or may not be experiencing in your mind.
This book does not attempt to compile all of the findings and conclusions of other researchers on the subject but rather strives to add to the research with my own insights and discoveries.
In this book you will find:
Descriptions and information about what aphantasia is, what causes it, how common it is, and more.
My story about my own aphantasia, my insights, and experiences.
My leading edge, in-depth series of questions about how your mind works, whether you have aphantasia or not.
Insights and experiences from the people that I have interviewed about how their minds work. Everyone is unique.
Why it matters that we learn about aphantasia and why we need to understand and embrace our differences.
If you want to learn about aphantasia, the mind’s eye, and how your individual mind works, scroll up and click the buy button. See you inside!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply