سیلف-ہیلپ کتابیں کیوں ناپسند کی جاتی ہیں؟/ندااسحاق

فیس بک کے بانی (co-founder) ڈسٹن موسکووٹز سے ایک مرتبہ ایک انٹرو میں پوچھا گیا  ،اور بتائیے کیسا لگا آپ کو راتوں رات کامیاب ارب پتی آدمی بننا ؟
ڈسٹن نے جواب دیا “راتوں رات سے اگر آپ کی مراد سات سال تک ہر رات ساری رات گھنٹوں کام کرنا ہے تو یقین مانیے بہت مشکل اور دماغی طور پر تھکا دینے والا کام تھا ارب پتی بننا۔”
(ڈسٹن کو معلوم نہیں تھا کہ اس سات سال کی محنت کے بعد وہ ارب پتی بن جائے گا، وہ بس اپنا کام کررہا تھا بِنا کسی نتیجے  کی پرواہ کیے)

انسانی دماغ کی بیشمار فضول قسم کی فینٹسی کے ساتھ ایک عجیب فینٹسی یہ بھی ہے کہ اسے کوئی ایسی کتاب چاہیے جس میں اس کے سارے مسائل کے حل موجود ہوں جس سے اسکی زندگی بدل جائے اور وہ بھی بنا عمل کیے، ہمسفر کی صورت میں ایسا انسان چاہیے جس میں کوئی غلطی یا خامی نہ ہو تو ہی اچھا ریلیشن شپ بن سکتا ہے، بچے ہوں تو بالکل روبوٹ جیسے اور ماں باپ کے اشاروں پر ناچیں اور ذہانت کے پیکر ہوں، جاب پسند نہیں اور جاب میں کوئی کارکردگی بھی نہیں دکھانی ،لیکن کرنا بزنس ہے اور بزنس کی ترقی اور نتائج بھی راتوں رات چاہئیں  بالکل ویسے جیسے ایک کلک پر پیزا آرڈر اور چند منٹ میں آن لائن شاپنگ ہوجاتی ہے۔ ماڈرن دنیاکے اس “ایک کلک پر حاضر” ہونے والی سہولت نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ ہر چیز کے نتائج بنا محنت کیے ایک کلک پر ملیں۔ اور یہی سوچ ہماری سیلف-ہیلپ کتابوں کی جانب بھی ہے کہ بس چند کتابیں پڑھیں اور سارے مسئلے رفو چکر۔

میں نے پچھلے تین سالوں میں اَن گنت سیلف ہیلپ کتابیں پڑھی ہیں۔ لوگ موٹیویشنل اسپیکرز کی مانند سیلف ہیلپ انڈسٹری پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں اسکیم اور فراڈ کہتے ہیں۔ میرا خود کا سفر سیلف-ہیلپ کے ساتھ بہت دلچسپ رہا ہے میں نے اپنے تجربہ کی بناء پر اس سفر سے جو اخذ کیا وہ آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گی۔

رابرٹ گرین کی کتاب “فورٹی ایٹ لاز آف پاور” میں ایک قانون میں وہ لکھتے ہیں کہ “اپنی غلطیوں سے سیکھنے سے بہتر ہے کہ کسی اور کی  دانش اور غلطیوں سے سیکھا جائے”۔ دوسروں کی غلطیاں، انکی ایجاد یا انکی دانش کو پڑھنے کا سب سے بہترین ذریعہ ‘ کتاب ‘ہے۔ ماڈرن دنیا نے کتاب کو بہت عام بنایا ہے البتہ کتاب پڑھنے کو بہت خاص(تفریح اور انتشار توجہ (distraction) کے اس دور میں کتاب پڑھنا آسان نہیں)۔ خود کو بہتر بنانے اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے میں نے کتابیں پڑھنا شروع کیں کیونکہ شاید میں نے رابرٹ گرین کے اس قول کو بہت سنجیدہ لے لیا تھا! جب بھی کوئی سیلف ہیلپ کتاب پڑھتی تو یہی سوچتی کہ بس اس والی کتاب کو پڑھ کر میرے مسئلے حل ہوجائیں گے، لیکن کیا ایسا ہوتا ہے ؟؟ کیا میرے مسئلے حل ہوتے؟؟

سیلف-ہیلپ کتابیں غلط ہیں یا ان کے متعلق ہماری سوچ یا ہماری توقعات؟؟؟
کتابیں پڑھ کر آپ کو دوسرے انسانوں کے تجربات کو جاننے کا موقع ملتا ہے، علم اور جانکاری شیئر کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب انسان ہنٹر گیدرر تھا تب ایک دوسرے کے ساتھ جنگل میں زہریلے اور کھانے کے قابل پودوں کی معلومات شیئر کرتا تھا، اور آج کل پروڈکٹیوٹی (productivity) اور اچھے پیشے اور کام کے متعلق مشورے شیئر ہوتے ہیں۔

کتاب پڑھ کر معلومات اور آگاہی (awareness)ملتی ہے ، کہتے ہیں کہ بیماری کا پتہ لگ جانا بھی آدھا علاج ہوتا ہے، بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ لیکن صحت یابی کے لیے آدھے علاج کا سفر تو ابھی بھی طے کرنا ہے، اور یہ سفر جو اونچ نیچ اور غلطیوں سے بھرپور تھا مجھے اس بات کی جانب لے گیا کہ ایک تو “عمل” (action) سب سے ضروری ہے اور اس کے بغیر سب فضول ہے اور دوسرا یہ کہ ہر کتاب اپنے اندر ایک دانش (wisdom) رکھتی ہے، آپ ہر کتاب میں سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کوئی کتاب بھی آپ کی زندگی نہیں بدلتی، البتہ کچھ کتابیں آپ کے کئی عقیدوں (beliefs) کو ختم کرکے کچھ نئے عقیدے بناتی ہیں اور عقیدے بننے اور ٹوٹنے کا یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہتا ہے، کیونکہ فطرت کو پرانی چیزیں توڑ کر نئی بنانا اچھا لگتا ہے اور یہی نظام اس نے ہمارے دماغوں میں بھی نافذ کیا ہے۔ اور جہاں آپ کسی کتاب (نظریے) پر رک گئے تو آپ فطرت کے بنیادی قانون “بدلاؤ” (change) کے خلاف کھڑے ہوگئے جسکا یقیناً نقصان ہے۔ تبھی ٹاؤازم (Taoism) ہمیں سکھاتا ہے کہ “پانی کی مانند بنو”۔

باقی کی کتابوں کی طرح سیلف-ہیلپ کتابوں میں کوئی برائی نہیں، مسئلہ ہماری غیر حقیقی توقعات میں ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں کوئی بھی کتاب ہو وہ مکمل نہیں ہوتی اور کچھ کتابیں تو واقعی میں تنقید کے قابل ہوتی ہیں۔ میں نے ہر کتاب سے کچھ نہ کچھ سیکھا، کچھ پر عمل بھی کیا جب کوئی نتیجہ نہ آیا تو چھوڑ دیا، کیونکہ وہ اصول شاید میرے لیے کارآمد نہ تھے لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ میں لکھنے والوں کو کوسنا شروع کردوں کہ تم نے کیوں یہ کتاب لکھی یا پھر تمہارے سارے اصول بیکار اور فضول ہیں، میری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ساری سیلف-ہیلپ کتابیں فضول ہیں۔ لکھنے والے کچھ بھی لکھیں گے، جو آپ کے لیے کارآمد نہیں آپ اسے رد کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ انکے نظریات یا اصول آپ سے میل نہیں کھاتے یا انکا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا (اکثر ہمیں فوری نتائج بھی چاہیے ہوتے ہیں)۔ آپ کو جس نظریے یا بات سے اختلاف ہے آپ پر کوئی زبردستی مسلط نہیں کررہا وہ اصول، البتہ آپ بیشک ان اصولوں پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں عدم یقینی (uncertainty) کی صورت حال ہوتی ہے، وہاں خود کے تجربوں کے ساتھ دوسروں سے سیکھا ہوا علم آپ کے لیے اوزار کی مانند ہے جس کی پریکٹس اور جسکا ہونا آپ کو مشکل اور عدم یقینی کی صورت حال میں کسی حد تک لاچار اور انتشار کا شکار نہیں ہونے دے گا۔ بِنا عمل (action) اور صبر کے کوئی نتیجہ نہیں آسکتا چاہے کتنا ہی علم اور دانش کیوں نہ ہو کسی کے پاس اور عمل کرنا یقیناً بہت مشکل کام ہے۔ کتاب کوئی بھی ہو آپ کو کوئی نہ کوئی کام کی بات ضرور بتاتی ہے، اس کام کی بات کو سنبھال کر رکھ لینا اور باقی جو آپ کے کام کا نہیں اسے جانے دینا زیادہ بہتر رہتا ہے بہ نسبت کچھ مخصوص کتابوں کی جانب نفرت رکھ کر انہیں دھتکارنے کے۔ بیشک دھتکارنا آپ کے اندر کے جذبات کی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سیلف-ہیلپ کتابیں کیوں ناپسند کی جاتی ہیں؟/ندااسحاق

  1. میں فیس بک کے مختلف گروپس میں بھی ندا کی تحریریں پڑھتا ہوں۔ میرا خیال ہے وہ ان موضوعات کے ساتھ نہایت انصاف کرتی ہیں اور پڑھنے والوں کو مکمل معلومات فراہم کرتی ہیں۔۔۔ ایسے بہت سے موضوعات اب عوام میں ڈسکس ہو رہے ہیں۔۔۔

Leave a Reply