شرارتی کوّا/تحریر-قمر رحیم خان

شہر میں ان دنوں کھل کر سانس لینا ‘‘تتّے ’’ توے پر بیٹھنے کے مترادف ہے۔کولیسٹرول کا علاج کرتے کرتے بواسیر کا شکار ہوجانے والا آدمی جو تین سال تنگی کاٹنے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس نہ گیا ہو، اب ڈاکٹر کو کیا دکھائے اور بتلائے کہ کیا واردات پیش آئی ہے؟ خدشہ ہے کہ دماغ کا علاج ہی نہ شروع کر دے۔ اس پر بھی شاید کوئی اعتراض نہ ہو،کہ اپنی ذہنی صحت پر اب شک سا ہونے لگا ہے۔مگر جلتے زخموں کا کیا کیا جائے؟گھر پہ بھی آدمی نہیں دکھا سکتا کہ گھر کا جوتاآٹھ نمبر کا ہے۔ نتیجتاً  زخم خراب ہو جائیں گے اور پیپ پڑ جائے گی ، تب گھر والے اٹھا کر سی ایم ایچ میں ڈال دیں گے۔ جہاں میڈیکل کا لج کے لڑکے لڑکیاں پچاس فٹ کی دوری سے فوٹو لیں گے اور زُوم کر کے  دیکھیں گے۔دراصل یہ شہر کے حالات ہیں جو پچھلے تیس سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں اوران سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں۔ تقریباً ہر محفل میرے زخموں کے کھلتے پھولوں سے زعفران زار بن چکی ہے۔لوگ باربار قمیص اٹھاتے ہیں، قہقہوں پہ قہقہے لگا تے ہیں، چائے کے گدلے پانی کی چُسکیاں لیتے اور مہنگے سگریٹوں کے دھوئیں کی آہیں بھرتے ہیں۔

مجھ سے ان کی یہ خوشی دیکھی جاتی ہے نہ غم۔ایسے حاسد اور حساس آدمی کا علاج ‘‘تتّہ ’’ توا نہیں ، دہکتا ہوا تندور ہے۔جہاں اس پُتلے کو جلایا جا سکتا ہے۔پُتلے جلانا ہمارا بہترین مشغلہ ہے۔گو اپنا پُتلا جلانے کا خیال پہلی بار ہی دل میں آیا ہے۔میں اسی ادھیڑ بُن میں بیٹھا اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے سفید بالوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا،گند کا کتنا بڑا ٹوکرا ہم اپنے بچوں کے سر پر لاد کر دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ ایک کوّا درخت پر آکر بیٹھا اور کائیں کائیں کرنے لگا۔کہنے لگا ‘‘اپنا ُپتلا جلانے کا جو خیال تمہیں اب آیا ہے، پہلے آ جاتا تو مجھے تمہارے پاس آنے کی ضرورت نہ پڑتی’’۔ میں نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا ‘‘ پورے شہر میں لوگ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر ،انجینئر ، استاد،حکیم،رجعت پسند، ترقی پسند،لیڈر ، دانشور بن گئے ۔اکیلے تم ہی نکمے نکلے ہو’’۔

صر ف نکما ہی نہیں، نااہل ، بیوقوف اور ہڈ حرام بھی ہوں۔میں نے اس کی اصلاح کی۔ کوّااپنی بات کی تائید پربڑا خوش ہوا۔ اڑ کر درخت کے نچلے ٹہنے پر آ بیٹھا۔
اور کہنے لگا‘‘ میرا دل کرتا ہے آج تمہیں کھری کھری سنا ہی دوں’’۔
‘‘سنا دو ، سنا دو، میرے کان کچھ سننے کو ترس گئے ہیں’’۔میں نے جواب دیا
‘‘تم ایک جنگلی بھینس ہو۔ جس کے گردونواح میں شہر آباد ہو گیا ہے۔تمہاری زبان موٹی تھی اس لیے پڑھ نہ سکے۔یہی حال تمہاری عقل کا ہے۔ لیکن چونکہ تم عقل سے بڑے ہو، اس لیے عقل کُل ہو اورتمہاری بات حرف آخر ہے۔ تم چیزوں کو بھینس کی نظر سے دیکھتے ہو۔اور سمجھتے ہو کہ تمہارے اندر ایک دانشور چھپا بیٹھا ہے۔تم اس خبط سے باہر نکل آؤ۔ اپنی حیثیت کو پہچانو اور سچ کو تسلیم کرو۔ جیسے میں نے تسلیم کر رکھا ہے۔میں کوّا ہوں۔دن بھر کائیں کائیں کرتا ہوں۔ ذبح خانے کی گندگی کھاتا ہوں۔ بازار کے پچھواڑے میری خوراک کے ذخیرے ہیں۔ یہ میری پسندیدہ جگہ ہے۔ صفائی انسانوں کے لیے نصف ایمان ہے۔ میرے لیے نہیں۔ لہٰذا مجھ پر تنقید بے جا ہے۔ میں چاہتا ہوں پورا شہر شہر کا پچھواڑا بن جائے۔ لیکن بلدیہ والے میرے دشمن ہیں۔ سبزی فروٹ اور مرغے والوں کی طرح اگر بلدیہ والے بھی میرا کچھ خیال رکھ لیں تو ان کا بھلا گا۔ ورنہ میں ان کے صحن میں اونچے درخت پر بیٹھ کر انہیں بددعائیں دوں گا’’۔

‘‘یہ لوگ میرا خیال رکھیں گے تو میں ان کا خیال رکھوں گا۔میں شہرکو صاف پانی فراہم کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہوں۔ میں نے کچے گھڑے کے پیندے میں پڑے پانی سے اپنی پیاس بجھائی ہے۔ اب ٹونٹی کھول کر پی لیتا ہوں۔ منرل واٹر کی بوتل کے تھوڑے سے پانی تک بھی میری رسائی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سارے علاقے کا پانی سیوریج نہ ہونے کی وجہ سے زہر آلودہ ہو چکا ہے۔یہ پانی پینے سے مینڈکوں کی نسل ختم ہوگئی ہے۔کتنی مدت وہ آپ پر ٹرٹراتی رہیں۔ مگر تم لوگوں نے ان کی ‘‘ٹر’’ پر کوئی توجہ نہ دی۔ حتیٰ کہ ساری کی ساری مر گئیں۔ چوہے سے میری بنتی نہیں ہے ورنہ میں اس سے گزارش کرتا کہ وہ اس ضمن میں ان کی رہنمائی کرے۔ زمین دوز ٹنل بنانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ایسا کنسلٹنٹ آپ کو یورپ سے بھی نہیں ملے گا’’۔

اس نے کہا ‘‘چند دن پہلے مجھے ایک گدھا ملا۔وہ پرانے راولاکوٹ کو یاد کر کے  رو رہا تھا۔ میں اس کی کمر پر جابیٹھا۔ اسے دلاسا دیا، تھوڑی دیر اس کی خارش کی۔ کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں تو اس کا دل بہل گیا۔ کہنے لگا ‘‘نال کنڈے’’ کی ریت بہت یاد آتی ہے جس میں لوٹ پوٹ ہوا کرتا تھا۔دیکھو تو دریک والی نال کا لوگوں نے کیا حشر کر دیا ہے۔پوری نال پیمپروں سے بھری ہوئی ہے۔ اس پر ایک ڈیم بھی بن گیا ہے۔ سنا ہے پورا شہر اسی ڈیم کا پانی پیتا ہے’’۔

میں کوے کی باتیں پورے انہماک سے سن رہا تھا۔ کہنے لگا‘‘آج سے پچیس تیس سال پہلے پنڈی میں ہم نے انہی مسائل پر میٹنگ کی تھی۔ جس میں کوّے، چیلیں، مینڈک ، بھینسیں، بلیاں ، کتے، بندرسبھی شامل تھے۔ ہم نے یہ طے کر لیا تھا کہ پنڈی شہر شیخ رشید سے چلنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو ٹیک اوور کر لیتے ہیں اور پورے شہر میں بہترین انفراسٹرکچرتعمیر کریں گے۔ مگر اسی دوران مارشل لا لگ گیاجس کے نتیجے میں ہم زیر زمین چلے گئے۔ کہیں سے ہماری اس میٹنگ کی بِھنک ملک ریاض کے کانوں میں پڑ گئی۔ اس نے میٹنگ کے منٹس چوری کروا لیے۔پھر ہمارے ایک آدمی کو اپنے ساتھ ملا کر ہمارا پلان چوری کر لیا۔ کچھ ہی عر صے بعد ہم نے دیکھا کہ اس نے ایک نیا پنڈی بنا دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پچھلے دنوں یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ بلدیہ والے کتوں کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔خدا راہ یہ کام نہ کروورنہ وطن سے محبت اور سلوک کرنے والا کوئی نہیں بچے گا۔
کوّے نے اپنی بات ختم کی اور مجھے غور سے  دیکھ نے لگا۔ پھر پوچھا‘‘ میری باتوں کی سمجھ آئی’’؟
میں نے نہ میں سر ہلایاتو حیرت سے اس کی بِیٹھ  نکل گئی جو سیدھی میرے سر پر گری۔ میں نے جوتا اٹھایا تو کوّا کائیں کائیں کرتا ہوا اُڑ گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply