اسلامی ٹچ اور شعبدہ بازی/طیبہ ضیاء چیمہ

دورِ حاضر کے جعلسازوں نے تصوف کو بدنام کر رکھا ہے۔ شعبدہ بازی اور سیاسی اسلامی ٹچ کو روحانیت کا نام دے کر کمزور عقائد والوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ ایک گھڑی کا تفکر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ روحانیت کی آڑ میں جعلساز سیاست کو بھی کیش کراتے رہے ہیں۔

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

شہری ہو، دیہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ

مانند بتا ں پجتے ہیں کعبے کے برہمن

تصوف اور روحانیت فقیری کا نام ہے۔ درویشی اور تقسیم کرنے کا نام ہے جبکہ دور حاضر میں الا ما شاءاللہ مشائخ اور علماءعظام کا روزگار مریدوں کی جیب رشوت اور کرپشن ہے۔ مدارس اور مساجد بھی عطیات اور نذرانوں کے طفیلی ہیں۔ ایک بزرگ نے فرمایا کہ جہاں گلہ ہوتا ہے وہاں اللہ نہیں ہوتا۔ حضرت جنیدبغدادیؒ کا ارشاد ہے، تصوف اپنی پسند کو ترک کر دینے کا نام ہے،۔ اطاعت اور بندگی کا نام تصوف ہے۔ ایک صوفی نے کہا تھاکہ اگر تو کسی پیر کو ہوا میں اڑتا پانی پر چلتا یا آگ کو کھاتا دیکھے لیکن وہ اللہ کے فرمان اور نبی کریم کی سنت کا تارک ہو تو وہ جھوٹا ہے۔ خود عیش کرے اور اس کے مرید غربت و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں تو وہ دنیادار ہے۔ اس کا دعویٰ محبت باطل، اس کی کرامت شعبدہ بازی ہے۔

حق پرست اولیاءاللہ کے احترام کی سخت وعید آئی ہے۔ جو شخص اللہ کے دوست کو دوست رکھتا ہے وہ اللہ کو دوست رکھتا ہے۔ صوفی ازم ایک ٹرمنالوجی ہے۔ جب تک احکام الٰہی کی آمیزش نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر میوے کے بادام۔ قرآن و حدیث، تاریخ اسلام اور صوفیاءکرام کی زندگیوں کے مطالعہ اور تجربے کے بعد ہی بندہ حقیقی معنوں میں لفظ صوفی کی تعریف کر سکتا ہے۔ صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے نبی کے دین پر فنا ہو جائے۔ اس کا ایک ایک قدم خوف و رجا کی بیڑیوں میں جکڑا ہو۔ دنیا میں ہمیشہ سے صوفیاءکی تعداد تھوڑی رہی ہے۔ ناچ گانا، جھومنا، مستی، غفلت، بے خبری جیسی لغویات صوفی ازم نہیں۔ صوفیاءاور ان کے سلاسل پر بلا جواز تنقید کرنے والے بے ادبی کے مرتکب ہیں۔

دورِ حاضر میں ہندوستان اور پاکستان میں نام نہاد صوفیاءکا مینا بازار لگا ہواہے۔ مریدین اپنے پیر اور پیرنی کی کرامات میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ پیر صاحب کا محبوب مرید وہ ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ مرید گھیر کر لائے۔ ان کے مریدسیلز مین کی طرح اپنے پیر کی کرامات اور فضائل بیان کرکے امیر اور نامور لوگوں کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی حالت بھیڑ بکریوں کی طرح ہے جنھیں پیر جس سمت چاہے ہانکتا ہوا لے جائے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا بال، کھال، قلب اور بدن کا ہر عضو اللہ کا ذکر کرتا ہے، ان کا قلب جاری، ہو گیاہے تو یہ دعویٰ از خود ایک فریب ہے۔ بے عمل صوفیاءکا یہ طبقہ تصوف کا بگڑا ہواچہرہ ہے۔ لوگوں کے لیے باعث گمراہی ہے۔ تصوف کی توہین ہیں۔ ایسے بہروپیوں کوشیخ یا مرشد ماننے والوں کو یہ تک خبر نہیں ہوتی کہ ہانکنے والا انہیں چراگاہ کی طرف لے جارہا ہے یا ذبیحہ خانے کی طرف۔ وہ بس آنکھیں بند کیے پیر کے اشاروں پر زندگی گزار دیتے ہیں۔

اللہ کے اولیاءفنا فی الرسول تھے۔ آج فنا فی الرسول کا لفظ تو استعمال کیا جاتاہے مگر لوگ اس کی حقیقت اور معنویت سے قطعی لا علم ہیں۔ شعبدہ باز اپنے مریدوں کو فنا فی الرسول کی فرضی منازل طے کرا دیتے ہیں اور مریدوں کو بھی برین واشنگ اندھا بہرہ کر دیتی ہے اور وہ اس پہچان سے محروم ہو جاتے ہیں کہ جھوٹی پیری کا لبادہ اوڑھنے والے نبی کریم کی خاک مبارک تک رسائی کے اہل نہیں۔ عشق رسالت کی پہلی منزل اطاعت نبوی ہے۔ ایک مرید سادہ سے کسی نے پوچھا کہ سنا ہے تمھارے پیر نے تمہیں فنا فی الرسول کی منازل طے کر ادی تھیں پھر تم نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟ سابق مرید بولا، میرا پیر گمراہ ہے، اس کے ظاہر اور باطن میں نفاق ہے، اللہ تعالیٰ نے میرا خلوص دیکھا اورمیری رہنمائی فرمائی۔ اس نے مجھے میری منزل عطا کر دی۔ فنا فی الرسول کی یہی منزل ہے کہ بندہ حق اور باطل میں تمیز کر سکے اور یہ منزل مجھے نصیب ہو گئی اور میں نے شعبدہ باز کو چھوڑ دیا۔ منزل بندے کی نیت اور خلوص کے مطابق اسے عطا فرمائی جاتی ہے۔ ایک شعبدہ باز اپنے مرید وں کو تاریک کمرے میں منازل سلوک طے کرارہا تھا، محفل ذکر کے بعد ایک مرید نے پیر صاحب سے پوچھنے کی جسارت کر لی کہ حضرت مراقبات میں آپ کہیں دکھائی نہیں دیتے؟

مریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب

خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

Advertisements
julia rana solicitors london

روحانیت اور صوفی ازم کو دور حاضر کے شعبدہ بازوں نے سیاسی و مالی مفادات کے لیے بری طرح کیش کیا ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کی زندگی اس کی عمر سے زیادہ مختصر ہے۔ انسان کی زندگی سے وہ عرصہ نکال دیا جائے جو اس نے سو کر گزار دیا تو انسان اپنی عمر سے کم جیا۔ پچاس سال زندہ رہا مگر آٹھ گھنٹے روزانہ نیند کی حالت میں گزار دیے، اس حساب سے اس نے بمشکل پینتیس برس کی زندگی گزاری۔ انسان سو سال بھی جی لے اسے اپنی زندگی مختصر معلوم ہوتی ہے، اس کی بڑی وجہ نیند اور غفلت کے لمحات ہیں۔ زندگی ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ہر سانس کا حساب ہو گا کجا زندگی کو فراڈ دھوکہ بازی اور مکرو فریب میں گزار دیا جائے؟ صاحب بصیرت وہی ہے جس نے شعبدہ بازوں کو پہچان لیا اور اپنی سانسوں کی حفاظت کی۔ روحانیت نام ہے ذات کی نفی کا ناکہ نفس کے لیے لوگوں کو بےوقوف بنانے کے ٹونے تعویذ وظائف کا نام روحانیت رکھ دیا جائے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply