صدر بنے-4/ڈاکٹر مجاہد مرزا

(“مثل برگ آوارہ”سے)
وقت کو روکنے کی خواہش جتنی بھی شدید ہو، وقت کسی کے روکے نہیں رکا۔ وقت ایک دائرہ ہے یا اپنے عقب میں معدوم ہوتا ہوا خط مستقیم یا کچھ کے مطابق ٹیڑھا میڑھا مگر ہے دریا کی مانند کہ جو پانی گزر گیا سو گزر گیا۔ چنانچہ وقت تو بہہ رہا تھا، کبھی آہستہ روی سے اور کبھی لگتا تھا جیسے اس کے بہنے کی رفتار کئی گنا بڑھ گئی ہو۔ طغرل عمر کے جس حصے میں تھا اس میں بالوں کی سفیدی اور جسمانی کسلمندی کے علاوہ وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلتا۔ چالیس سال کی عمر کے بعد زندگی کا سفر ڈھلوان کا سفر ہوتا ہے جس پر جتنا بھی سنبھل سنبھل کر چلو رفتار اتنی سست نہیں رہتی جتنی چڑھائی کے سفر میں ہوتی ہے۔ چڑھائی کے سفر میں جہاں پھننگ کو پار کرنے کی آرزو ہوتی ہے وہاں زندگی کے اس لایعنی سفر سے بچنے کی خاطر خود کو خود معدوم کر دینے کے مخفی خیالات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں، کسی میں بہت کم، کسی میں کچھ زیادہ اور میرے جیسے تخیل پسند عینیت پرستوں میں کہیں زیادہ لیکن پھننگ عبور کرنے کے بعد جس وقت یہ طے ہو چکا ہوتا ہے کہ کس کی زندگی کیسے گزرے گی خوشحال، متوسط یا بدحال، انسان میں جینے کی تمنا بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ ڈھلوان بالآخر انجام تک پہنچائے گی۔ ڈھلوان کے سفر میں انسان کا تھوڑا سا پاؤں رپٹا نہیں کہ وہ لڑھکنیاں کھاتا قبر کنارے پہنچ جاتا ہے اور پھر قبر میں۔

ایرینا اور ساشا کی ایک کمرے کے گھر میں موجودگی نے اگرچہ زندگی اتھل پتھل کی ہوئی تھی مگر جینے کے معمولات بہر طور جاری تھے۔ ان کے گھر میں گھس کر رہنے سے پہلے ایک دن جب میں بیروزگار گھر میں تنہا بیٹھا لکھنے پڑھنے میں مصروف تھا، فون کی گھنٹی بجی تھی۔ دوسری جانب ملک شہباز تھا جس کے ساتھ میری شناسائی ظفر کے توسط سے ہوئی تھی۔ اس نے غالباً  پہلی بار فون کیا تھا۔ اس نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ کوئی ضروری بات ہے جو کرنی ہے اگر مناسب جانیں تو فلاں مقام پر پہنچ جائیں۔ استفسار پر ملک شہباز نے بتایا تھا کہ معاملہ پاکستان برادری کی تنظیم کی عہدیداری کا ہے جس کے لیے براہ راست بات کرنی چاہیے۔ میں معینہ مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں ملک شہباز کے علاوہ دو تین اور لوگ بھی تھے جو ظفر کے توسط سے ہی شناسا ہوئے تھے لیکن میرے زیادہ نزدیک ہو گئے تھے۔ ظفر نے اپنی طبع سے مجبور ہو کر مجھ سے خود ہی دوری اختیار کر لی ہوئی تھی۔

ملک شہباز نے مختصر بات کی تھی کہ پاکستانی برادری کی تنظیم کے عہدوں کے لیے انتخابات کروائے جا رہے ہیں اگر رضامند ہوں تو آپ کو عہدہ صدارت کے امیدوار کے طور پر آگے کیا جائے۔ میں اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا مگر موجود لوگوں کے اصرار پر میں نے مشروط حامی بھر لی تھی کہ اگر کام دیانتداری کے ساتھ اور مشاورت سے کیے جانے بارے متعلق آپ راضی ہیں تو ٹھیک وگرنہ میرا انکار ہے۔ ملک شہباز نے کہا تھا، ہمیں آپ پر مکمل اعتماد ہے تبھی تو ہم سب کی نگاہ آپ پر پڑی ہے۔

روس میں کسی برادری بندی کے یہ پہلے انتخابات تھے بلکہ شاید روس کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ ملک شہباز اور دوسروں نے زبردست مہم چلائی تھی۔ خاص طور پر ملک شہباز نے خوب پیسہ خرچ کیا تھا اور میں بھاری اکثریت سے روس میں پاکستانی برادری کا پہلا صدر منتخب ہو گیا تھا۔ بعد کی باتیں جانے دیتے ہیں کیونکہ تنظیم بنا لینا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا تنظیم کھڑی کرنا۔ تاہم اس عمل میں میں اور ملک شہباز ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔ ملک شہباز کاروباری شخص تھا۔ ہر پیسہ کمانے والے شخص کی طرح اس کے اپنے اوصاف تھے، کچھ اچھے اور کچھ ایسے جو دوسروں کو چبھتے تھے جیسے اسے جو چیز پسند آ جاتی، اس کے مقابلے میں اس جیسی باقی تمام چیزیں اس کے لیے ہیچ ہو جاتی تھیں۔ وہ مشاورت کے نام پر ہر ایک سے بات کر لیتا تھا۔ شاید ہی کسی سے اختلاف کرتا ہو بلکہ عموماً  کہہ دینا تھا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں مگر کرتا وہی تھا جو چاہتا تھا۔ اس طرح کچھ لوگ الزام دیتے تھے کہ وہ خود کو عقل کُل سمجھتا ہے اور کچھ لوگ اسے اقتدار کو بھوکا خیال کرتے تھے۔ میری نظر میں یہ دونوں خصائص ہر شخص میں ہوتے ہیں کسی میں کم کسی میں زیادہ اور کسی میں بدرجہ اتم۔ آخری درجے والے قابل تنقید قرار پاتے ہیں۔ تاہم وہ میری تعظیم کرتا تھا، چنانچہ لامحالہ میں بھی اس کی تعظیم کرتا تھا اور اسے اس کے نام کی بجائے ملک صاحب یا آپ کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔ ملک کام کے سلسلے میں مختلف تجربے کرتا رہتا تھا۔ اس کو پاکستان ساختہ دو ایک ادویہ پسند آ گئی تھیں جس کے لیے وہ روس میں فروخت کے کلی اختیار کے حصول کا خواہاں تھا۔ چونکہ میں ڈاکٹر تھا، زیادہ پڑھا لکھا تھا، گفتگو کر سکتا تھا چنانچہ وہ مجھے ساتھ لے کر کراچی گیا تھا۔ ادویہ ساز کمپنی نے جو سوال کیے تھے ان کا جواب ملک شہباز کے پاس نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ مخصوص انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بات بن نہ سکی تھی۔ ملک شہباز ایک یورپی ملک میں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم تھی، خوردنی مصالحہ جات کی فروخت سے متاثر تھا اس لیے اس نے مجھے ہدایت کی تھی کہ اس جہت میں کام کیا جائے۔ مصالحے فروخت کرنے والی ایک بڑی پاکستانی کمپنی کے ماہرین کے مشورے کے برعکس کہ پہلے محدود مقدار میں مصالحے لے جائیں اگر فروخت بہتر ہو تو زیادہ منگوا لیں، ملک پورا کنٹینر منگوانے پر بضد رہا۔ کمپنی نے مشورہ دے دیا تھا مگر انہیں کنٹینر بھجوانے میں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔

کنٹینر کی آمد سے پہلے مجھ سے طے کیا گیا تھا کہ میں دفتری کام سنبھالوں گا اور منافع میں برابر کا شریک ہوں گا۔ دفتر لے لیا گیا تھا جہاں دو تین ہفتے میں تنہا ہی بیٹھا کیا۔ بوریت کو دور کرنے کی غرض سے میں نے ایک سال کے بعد پھر سے ڈائری لکھنے کا سوچا تھا۔ ڈائری کے چند ورق یوں تھے:
منگل 12 جون 2007:
زندگی کو جب سے بے رنگ کیا ہے تب سے زندگی ساکت سی ہو کر رہ گئی ہے۔ اسے بے سکونی تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا لیکن سکون کا نام دیا جانا بھی مشکل ہے۔ کیا میں مذہب کو بنیاد پرستانہ نکتہ نظر سے لیتا ہوں؟ کیا مذہب واقعی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتا؟ اگر مذہب میں وقت اور ضرورت کے مطابق ترامیم اور اضافے کر لیے جائیں تو کیا مذہب کی ماہیت نہیں بدل جاتی؟ اگر ماہیت بدل جائے تو کیا مذہب تبدیل نہیں ہو جاتا؟ اگر اسوہ حسنہ کے مطابق عمل کیا جائے تو آج کے دور میں زندگی گذارنا بہت ہی مشکل ہے۔ خواہشات پر قابو پانے کی خاطر کیا دنیا کو تیاگنا نہیں پڑتا لیکن رہبانیت کی ہمارے مذہب میں مناہی ہے اور رہبانیت اختیار کر لینا بھی کلی طور پر ممکن نہیں۔ انسان کے دماغ میں بٹن نہیں ہیں جنہیں آن آف کیا جا سکے۔
جب سے تجارت کے بکھیڑے میں پڑا ہوں جسمانی اور روحانی دونوں طرح کے سکون عنقا ہو گئے ہیں۔ شاید توازن پیدا ہونے کی صورت میں قدرے ٹھہراؤ آ جائے۔ فی الحال تو اتھل پتھل ہوں۔ اخراجات میں اضافہ ہی تجارت کے منافع کو کم کرنے کا باعث ہوا کرتا ہے۔ ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ افتاد آن پڑی ہے۔ چھٹیوں پر چھٹیاں، مال آنے میں تاخیر پہ تاخیر اور پھر ریڈیو کی ملازمت چھوڑنے نہ چھوڑنے کا مسئلہ۔ بعض اوقات ملک عقیل کے چبھتے ہوئے فقرے بھی اذیت کا موجب بنتے ہیں۔
نوجوان جوڑے کی عدم موجودگی کے طفیل دو ڈھائی دن سکون کے کاٹے۔ آج سے پھر وہی پرندوں کا کابک۔۔۔دراصل ڈیڑھ سال پیشتر ملک شہباز اور میں ایک ہی پرواز میں پاکستان جا رہے تھے۔ میں تب شراب پیتا تھا اور وہسکی کا رسیا تھا۔ میں نے ائیر ہوسٹس کو وہسکی کا پیگ لانے کو کہا تھا۔ وہ فرمائش سن کے آگے بڑھی تو ملک نے کہا تھا،” ڈاکٹر صاحب، کل سے رمضان شریف شروع ہے۔ چھوڑیں نہ پئیں۔ طغرل ملک سے بحث کرنے لگا تھا کہ خاتون پیگ لے کر آ گئی تھی۔ طغرل نے اسے سونگھ کر کہا تھا،” میں نے آپ کو ڈیلکس لانے کو کہا تھا آپ سمپل لے آئی ہیں”۔ وہ سوری کہہ کر پیگ بدلنے چلی گئی۔ طغرل نے ملک سے آخری فقرہ یہ کہا تھا کہ کل سے ہوگا نا  رمضان شریف شروع، آج تو نہیں۔ مگر خود ہی سوچ میں پڑ گیا تھا کہ اگر مجھے روزے رکھنے ہیں تو میں وہ شئے  کیوں استعمال کرتا ہوں جس کے بارے میں قرآن نے اجتناب برتنے کو کہا ہے۔ اتنے میں ائیر ہوسٹس ڈیلکس وہسکی کا پیگ لے آئی تھی۔ طغرل نے پیگ واپس لے جانے کو کہہ دیا تھا۔ وہ حیران ہو کر پیگ واپس لے گئی تھی۔ اس کے بعد طغرل نے شراب خانہ خراب کو کبھی منہ نہیں لگایا تھا۔

بدھ 13 جون 2007:
تعلیم یافتہ، کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ ہونے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اہل پاکستان کا مسئلہ ہے کہ وہ وقت کے بارے میں قطعی لاپرواہ ہیں۔ کسی خاص وقت پر پہنچنے یا ملاقات کرنے سے اغماض برتنا لامحالہ جس شخص کے ساتھ وقت اور ملاقات طے کی گئی ہو، کو غیر اہم سمجھنے یا اس کی تعظیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔ میرے ہم وطن تعظیم کرنے کے منکر نہیں البتہ وقت کی پرواہ کرنے سے یکسر قاصر ہیں۔ ملک کہتا ہے، ابھی پہنچتا ہوں آپ دفتر پہنچیں اور پھر کہیں زیادہ “اہم” کام کرنے لگ جاتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے ساتھ کیسے نمٹوں، سمجھنے سے قاصر ہوں۔
کنٹینر کلیر کروانے کا مسئلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ بعض اوقات تو یوں لگنے لگتا ہےکہ میرے ستاروں کی ازلی گردش اس معاملے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ میں تو فی الواقعی تھک گیا ہوں۔ میترو سے دفتر، دفتر سے میترو اور پھر یہی چکر۔ دفتر میں کرنے کو فی الوقت نہ تو کوئی کام ہے اور نہ ہی کوئی اہلکار۔ اللہ کرے یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
آج بھی متعلقہ سرٹیفیکیٹ نہیں بن پایا۔ مال کو پہنچے ایک ماہ اور تیرہ روز ہو چکے ہیں۔ جرمانہ ہونے لگا ہے۔ لگتا ہے شروع میں منافع کم ہوگا شاید نہ ہی ہو۔
ویسے بھی بستی بستے بستے بستی ہے۔

اتوار 17 جون 2007:
آج معلوم ہوا کہ رشید ایک ٹریفک حادثے میں جان بحق ہو گیا۔ بے حد تکلیف ہوئی بلکہ میں صدمے کی حالت میں رہا۔ انسان دنیا پانے کے لیے کیا کچھ کرتا ہے اور پھر نامدار شخص کی بجائے لاش بن کر رہ جاتا ہے۔ رشید مسجد کے امام کا بیٹا تھا۔ کسی کارخانے میں ملازم تھا۔ سندھو اسے ماسکو لے آیا تھا اور ایک ہوٹل کے کمرے میں بند کرکے رکھ دیا تھا۔ پھر چوہدری اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ رشید نے بہت محنت کی تھی لیکن اس کا کہنا تھا کہ صلہ اس کے مطابق نہیں دیا گیا۔ چوہدری اپنی ماں کی رحلت پر پاکستان گیا تو ویسے ہی مجھے کہہ گیا تھا کہ رشید سے کاروبار سے متعلق پوچھتے رہنا۔ رشید اب اپنے طور پر کام کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھا کیونکہ گاہک سارے اس کے ہاتھ میں تھے۔ میں نے اسے ایک دو بار تلقین کی تھی کہ چوہدری کے آنے کا انتظار کر لے لیکن وہ نہ مانا تھا۔ چوہدری کی واپسی پر میں نے رشیدکے ہی حق میں بات کی تھی۔ چوہدری کو اس بات سے رنج بھی ہوا تھا۔ بعد میں رشید لوگوں سے نہیں ملتا تھا۔ جب ایک بار مجھے ملا تو اس نے کہا تھا کہ جب تک میں ایک ملین ڈالر نہ بنالوں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ پھر وہ امیر ہوتا گیا اور اب چالیس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا۔ اس کی موت کی اطلاع دینے کے لیے چوہدری کو امریکہ فون کیا تو اس نے بتایا تھا کہ اس نے امریکہ میں دکان لے لی ہے۔ نینا نے مجھ سے پوچھا، کیسے لے لی۔ میں نے کہا وہ تیز شخص ہے۔ بس اس نے بولنا شروع کر دیا کہ ایک تم ہی تیز نہیں ہو جب میں تم سے ماہوار ملنے والے پیسوں کا کسی سے ذکر کرتی ہوں تو کوئی یقین نہیں کرتا۔ میں بولا میں تو بس لکھنا جانتا ہوں۔ وہ بولی تم بس موتنا جانتے ہو، ہر شخص پر، ہر بات پر۔ بے حد دکھ ہوا اس کی اس طرح کی زبان سے۔

سوموار 18 جون 2007:
آج میں گدھے کی طرح تھک گیا۔ گھر سے میترو۔۔ میترو سے دفتر ۔۔۔۔دفتر سے میترو ۔۔۔ میترو سے ریڈیو سٹیشن ۔۔۔۔ریڈیو سٹیشن سے میترو اور میترو سے دفتر تک چل چل کر۔ بروکر نے کوئی چار بجے فون کیا کہ رسید میں غلطی ہو گئی ہے۔ دفتر سے میترو ۔۔۔۔ میترو سے گھر ۔۔۔۔۔۔ گھر سے میترو ۔۔۔۔۔ میترو سے بینک ۔۔۔۔۔ بینک سے میترو ۔۔۔ پھر چلنا پڑا۔ بینک میں چخ چخ رہی، جو بھی ہونا ہوگا کل ہوگا۔ سمجھ نہیں آتا کاروبار کو شروع ہونے سے پہلے کسی کی نظر لگ گئی ہے یا اس ملک میں قانونی کام کرنا گناہ ہے۔ میں ذہنی اور جسمانی طور پر اس قدر تھک گیا ہوں کہ دل کرتا ہے سب کچھ ملک کے حوالے کرکے آرام کروں لیکن آخر تک لڑوں گا۔ پیدل چلنے کی یہ عمر بھی نہیں ہے اوپر سے میرے اخراجات ڈیڑھ گنا ہو چکے ہیں اور ساتھ ہی تنخواہ کم ہوتی جا رہی ہے۔
آج دن بھر بیوی کی کل کہی بات سے دل دکھتا رہا۔ آگے کنواں ہے پیچھے کھائی ہے، بات یہ ہی سمجھ میں آئی ہے۔ میں خود نوشت جیسی کیسی لکھے چلا جا رہا ہوں۔
جب بہت تھک گیا تو ٹی وی لگا لیا جس پر “ناقابل یقین تصور” نام کا پروگرام چل رہا تھا۔ اس میں مقناطیسی جھکڑوں کو انسان کے خیالات، عادات، پیدائش اور موت سے جوڑا گیا تھا۔ کچھ درست لگا کچھ یونہی۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

فوج میں گزرے روز وشب/3 -ڈاکٹر مجاہد مرزا

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply