رائے عامہ کی سائنس ، عوام اور سیاست۔۔۔عبید اللہ ڈھلوں

ترقی پذیر معاشرے کے عوام کسی بھی شخص اور ادارے کے بارے میں بہت جلد ایک خاص رائے بنا لیتے ہیں۔ یہ رائےعامہ اشخاص یا ادارے کی اپنی کرتوتوں اور زیادہ ترسوچے سمجھے ایک خاص منصوبے کے تحت کسی کے حق اور کسی کے خلاف بھی بنائی اور بنوائی جاتی ہے۔ جیسے فلاں فلاں بہت محب وطن ہے، فلاں بہت نیک ہے، فلاں غدار ہے ، فلاں فلاں چور ہیں اور وہ صاحب بڑے ایماندار ہیں۔ اس کام کیلئے اب باقاعدہ ادارے موجود ہیں اور لوگ اور اداروں کی خدمات بھاری معاوضے پر حاصل کرتے ہیں۔مثلاً ۔۔۔ آپ نے غور کیا ۔۔۔ اچانک صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں روزانہ کی بنیاد پر بچے مرنے کی خبر تمام ٹی وی  چینلز پر چلنا شروع ہو جاتی ہے! اور کچھ عرصہ بعد تھر میں بچے مرنے بالکل بند ہو جاتے ہیں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بچوں کی گنتی کون اور کیسے کرتا ہے؟ یہ خبر بنتی اور پھر پہنچائی کیسے جاتی ہے؟ اور پھر ہر ٹی وی چینل اس خبر کو نشر کرنے کا پابند کیوں ہوتا ہے؟

صاف نظر آتا ہے کہ ایک صوبائی حکومت کی عام عوام کے سامنے کارکردگی مشکوک بنانا مقصود ہے۔ اس طرح کئی پارٹی کے رہنماؤں کے گھروں کے لان سے، سمندر میں چلتی لانچوں سے ، جہازوں سے اور گھر کی الماریوں اور کبھی کبھی کسی سیاسی جماعت کے دفتر سے بے تماشا  دولت، جعلی بنک اکاونٹ اور اسلحہ ملنے کی خبر یں نشر ہوتی ہیں۔ عوامی رائے بنتے ہی پھر سب کچھ فائلوں میں بند ہو جاتاہے۔

ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ایک سوچی سمجھی کمپین بھی چلتی ہے۔ نامور لوگوں کے نام سے ایک ہی ٹویٹ کو شیئر  کیا جاتا ہے۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر خاص گروپ ہوتے ہیں۔ ادھر پوسٹ لگی اُدھر جھٹ سے ہزاروں لائک اور سینکڑوں کمنٹس  آ جاتے ہیں۔ مجھے ماضی قریب میں دھرنے دینے والے ایک مذہبی گروہ کا سوشل میڈیا اکاونٹ فالو کرنے کا موقع ملا۔۔۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پوسٹ کا طرز تحریر اورجس بندے کے نام سے وہ پوسٹ کی جا رہی ہوتی تھی کا آپسی کوئی ربط نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے ابلاغ عامہ کی صرف ڈگری نہیں لی ہوئی بلکہ اسے سمجھتے ہوئے جب میں چند نومولود سیاسی رہنماؤں کے ٹویٹر اکاونٹ پر نظر ڈالتا ہوں  تو صاف صاف نظر آتا ہے  کہ ایک یا ایک سے زیادہ ایکسپرٹ کا کام ہے  ،جو جتنے افورڈ کر سکتا ہے مُلازم رکھ لیتا ہے۔

اس طرح سے کمائی گئی نیک نامی یا بدنامی کا مقصد صرف اور صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اب پیپلز پارٹی کی پنجاب میں کیس سٹڈی لے لیں۔ یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ پوری کی پوری پارٹی کرپٹ ہے۔ مالی طور پر بھی اور اخلاقی بنیادوں پر بھی۔ پہلے کہا جاتا ہے کہ بلاول بچہ ہے۔ اس کا جسم بھر جاتا ہے تو عام پنجابی پھر کہتا ہے “ شراب پی پی کر موٹا ہو گیا ہے”اب بلاول اپنے نانا کی طرح شراب پیتا ہے کہ نہیں کسی کو معلوم نہیں ۔ مگر زرداری جلسہ میں پانی بھی پی لے تو اسے نا صرف شراب دکھایا جاتا ہے بلکہ ہر پنجابی اس پر یقین بھی کرتا ہے کہ شراب ہی پی تھی۔ زرداری کے خلاف عورتوں کے حوالے  سے ایک بھی اخلاق باختہ بات نہیں نکلی۔ مگر ایک عام پنجابی کی نظر میں تو وہ   شرابی ہے اور اگر شرابی ہے تو پھر اس میں سارے شرعی عیب بھی ضرور ہوں گے۔  اسی طرح میاں صاحب بہت نیک ہیں۔ ہر سال رمضان کا آخری عشرہ اور خاص کر کے شب قدر ۔۔۔ روضہ رسول ﷺ اور خانہ کعبہ میں گزارتے ہیں۔ ہر وقت باوضو رہتے ہیں۔

یہ سب ہمیں کون بتاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب ایک منظم طریقے سے ہی ہو رہا ہے۔ اور جب میاں  صاحب نیک اور پارسا سرٹیفائڈ ہو جاتے ہیں تو وہ زرداری اور پیپلز پارٹی کے خلاف دھواں دھار الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں! اب اگر ایک نیک اور پارسا آدمی  کہہ رہا ہے تو عام پنجابی اور عام عوام کو تو اسے سچ ماننا ہی ہے۔ اسی طرح سال ہا سال جدوجہد کی گئی کہ عمران خان جو بھی ہے ۔۔۔ پر ہے ایماندار۔۔۔ اب اس وقت وہ اکیلا سرٹیفائڈ ایماندار سیاست دان ہے ۔۔تو وہ جس کو چور کہے گا  تو عام عوام اس کی بات کو وزن تو دیں گے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ وہ جوئے کے پیسوں سے پارٹی کا قرضہ اتارتا رہا۔۔۔ مگر بعد میں اس کی ایمانداری کا قد اتنا بڑا کر دیا گیا کہ اب جہانگیر ترین ، علیم خان اور اعظم سواتی کی دولت اور اس کی اپنی تین بہنوں کے اثاثوں پر بات عمران کے اتنے بڑے ایمانداری کے قد کےنیچے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی۔

رائے عامہ بنانے کیلئے اشتہار ، ترانے ، برما ، شام، چیچنیا ، افغانستان، یمن ، اور ماضی میں یاد ہو تو بوسینیا کی خانہ جنگی کو بھی بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ یورپ اور امریکہ کے بارے میں بھی افواہ نما خبریں پھیلائی جاتی ہیں ۔ ملالہ کے خلاف اور عافیہ کے حق میں پھر ان خبروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
یورپ اور امریکہ بھی یہی کچھ کرتے ہیں مگر ان کا طریقہ اور وسائل زیادہ سائنسی ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس ہمارے ہاں بکری چوری ، شہد اور زیتون کی برآمدگی اور بھارتی کرنسی کا سہارا لیا جاتا ہے۔

خاص خاص لوگوں کو  یہ  الزام مزاحیہ لگتے ہیں مگر معجزات پر یقین رکھنے والی ہماری عام عوام اس کو سچ ہی مانتی ہے۔ وہ یقین کرتی ہے کہ زرداری نے انٹر کی ٹانگ سے واقعی  ہی بم باندھا تھا۔ اومنی کے دفتر سے ( یہ اومنی ایک بنک کا دفتر تھا) سے بڑے پیمانے پر اسلحہ ملا تھا۔ بھٹو نے ملک کے دو ٹکرے کیے  تھے، راؤانوار زرداری کا بچہ تھا! آدھے لوگوں کے خیال میں میاں برادران فرشتہ ہیں اور آدھے انہیں دل و جان سے چور سمجھتے ہیں۔ مگر کسی کے پاس ان باتوں کے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد نہیں ۔ عمران خان کی ایمانداری کے بھی ٹھوس شواہد نہیں صرف رائے عامہ ہے۔ اور اس رائے عامہ پر مہر اس وقت لگتی ہے جب مذہب ، عدالت اور عسکری ادارے اس کی تصدیق کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر اب وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج جہاں ابلاغ عامہ اور پروپیگنڈہ کا عروج ہے وہاں ان لوگوں کی بھی ایک خاطر خواہ تعداد وجود میں آ گئی ہے جو یہ سب سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ خطرہ ہے لیکن پھر بھی حق بات لکھ دیتے ہیں اور سچ بول بھی دیتے ہیں۔ ابھی اس تعداد میں ۵ فیصد  بھی اور اضافہ ہو گیا تو وہ مطلوبہ تعداد حاصل ہو جائے گی جو کسی بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ سوڈان کی مثال سامنے ہے جہاں ایک ۲۲ سالہ دوشیزہ آلاء صلاح نے ۴۰ سالہ اقتدار کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ہمارے ہاں بھی نوجوان حقیقی تبدیلی کے شدید خواہش مند ہیں ۔ ابھی تعداد میں تھوڑے کم اور سیاسی شعور سے تھوڑے نابلد بھی ہیں۔ ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور سیاسی شعور بھی۔ حقیقی شعور ہمیشہ بے چینی پیدا کرتا ہے  اور بے چینی کچھ کر گزرنے کا سبب بنتی ہے ۔ اس سب کے بعد اب لگتا نہیں کہ ہمارے کروڑوں نوجوان زیادہ عرصہ تک صرف خوابوں پر گزارہ کریں گے ۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply