• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مردان میں توہینِ رسالت کے الزام میں قتل کا واقعہ : چند تاثرات و گزارشات/پروفیسر ڈاکٹر محمد شہباز منج

مردان میں توہینِ رسالت کے الزام میں قتل کا واقعہ : چند تاثرات و گزارشات/پروفیسر ڈاکٹر محمد شہباز منج

6 مئی 2023 کوخیبر پختونخوا کے علاقے مردان میں کاٹلنگ کی یونین کونسل ساول ڈھیر میں پی ٹی آئی کی ریلی میں ایک عالم دین جس کا نام مولانا نگار بتایا گیا ہے،کو توہینِ رسالت کے الزام میں ہجوم نے تشدد کرکے قتل کر دیا ۔ میں نے جو ویڈیوز اور خبریں دیکھیں اور اس واقعے کی جو تفصیل جانی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ مولوی صاحب ، جو عامل اور تعویذ گنڈے وغیرہ کا کام کرنے کی پہچان رکھنے والے بتائے جاتے ہیں ،نے اپنے مذہبی فن ِ تعبیر و تقریرکو کام میں لاتے ہوئے پہلے آ ں جنابﷺ کی لوگوں کو دعوتِ دین اور آپ ﷺکی صداقت و امانت کا تذکرہ کیا اور پھر اس عظمت سے لیڈر کی عظمت کا پہلو کشید کرتے ہوئے اسے اپنے ممدوح سیاسی رہنما سے جوڑا۔ اس نے اپنے مقامی سیاسی رہنما سعید خان کی تعریف میں مبالغہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے علاقے کے لیے پیغمبر کی طرح مفید اور محترم و مقدس ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسی سیاسی رہنما نے اس کے آگے ہاتھ کرتے ہوئے اسے اس طرح کے الفاظ بولنے سے روکا، جس پر اس نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ میں اِن کو پیغمبر کے برابر درجہ ہر گزنہیں دے رہا ، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ ہمارے لیے بہت ہی محترم شخص ہیں۔ بعد میں ہجوم میں اس پر چہ میگوئیاں ہوئیں اور اسے گستاخی قرار دیتے ہوئے غصہ اور اشتعال بڑھتا گیا ، پولیس نے اسے بچانے کی کوشش کی اسے زخمی حالت میں ہجوم سے نکال کر کسی دکان وغیرہ میں بند کرنے کی بھی کوشش کی، لیکن ہجوم اور اس کا غیظ و غضب بڑھتا گیا اور اس نے رکاوٹیں اور حفاظتیں توڑ کر اسے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ یہاں اپنی نوعیت کا کوئی واحد یا پہلا واقعہ نہیں، یہ اس نوعیت کے واقعات کی ایک طویل فہرست میں بس ایک نئے واقعے کا اضافہ ہے۔ ہم سے بعض احباب کی خواہش کے تناظر میں اس سلسلے میں ہمارے چند تاثرات و گزارشات درج ذیل ہیں:
1۔یہ ایک تاریخی اور سماجی حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ مذہب یا اپنی مذہبی شناخت ا ور ساکھ کو اپنے معاشی و سماجی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی و سماجی رہنماؤں یا جن سے کوئی دنیوی مفاد وابستہ ہوتا ہے ، کی تعریف و توصیف میں مبالغہ کرتے رہتے ہیں۔ اس مبالغے میں اکثر بے اعتدالی کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔ لوگ اپنے ممدوح کو فرشتہ اور مخالف کو شیطان باور کراتے عام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس رویے کےاسباب و وجوہ کا مطالعہ دل چسپ سماجی و نفسیاتی حقائق سامنے لا سکتا ہے، چنانچہ اسے موضوع ِ تحقیق بھی بنایا جا سکتا ہے؛ اس کی مذمت بھی کی جا سکتی ہے؛ اس کی اصلاح کے لیے تجاویز بھی پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن اس نفسیاتی رویے پر کسی کو قتل نہیں کیا جاسکتا ، ورنہ ایک لمبی فہرست بنے گی۔ زیر نظر واقعے میں مولوی صاحب نے اپنے مقامی سیاسی رہنما کی خوشامد میں اسی نوعیت کے مذہبی فن کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ممدوح کی تعریف میں مبالغہ کیا ، جو بے احتیاطی یا سبقتِ لسانی سے تھوڑا اِدھر اُدھر ہو کر ان کے گلے پڑ گیا۔
2۔واقعے اور اس کی تفصیلات دیکھنے سننے سے مولوی کا ارادہ توہین کا قطعا محسوس نہیں ہوتا، اگر اسے اپنی بات کی وضاحت کا موقع دیا جاتا تو وہ یقینا اس کی تاویل کرتا اور اس رائے کا اظہار کرتا کہ اس کا مقصد ہر گز اس شخص کو پیغمبر یا اس کے مشابہ قرار دینا نہیں تھا، بلکہ اسے پیغمبر کے تتبع میں سوسائٹی کے لیے کارآمد شخص بتانا تھا۔ اس کی یہ تاویل اس کی صرف زبان سے نکلتی یا دل سے بھی؛ اس کے باطن کا حقیقی اظہار ہوتی یا محض اپنے بچاؤ کی تدبیر، شرعی لحاظ سے وہ ہر طرح قابلِ قبول ہوتی ، اور اسے سزا سے بچا لیتی ، کیونکہ شریعتِ اسلامیہ اس صورت میں کم ازکم شک کا فائدہ ضرور دیتی ہے۔شریعت میں کسی ملزم کے اپنے دفاع میں دلائل سنے بغیر اسے سزاے موت دینے کا کوئی تصور نہیں۔اور اس طرح کے واقعے میں جب ملزم اپنے اوپر لگائے گئے الزام کا انکار کرتا ہے تو اسے شرعاً توہینِ رسالت یا ارتداد کا مرتکب قرار نہیں دیاجا سکتا۔ مگر اس کے برعکس ہمارے معاشرے کی مذہبی نفسیات کا دردناک پہلو یہ ہے کہ یہاں بغیر کسی تحقیق اور قانونی کارروائی کے ایسے ملزم کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کی روش پائی جاتی ہے، جس کی مسلسل اور شدید مذمت ضروری ہے۔
3۔مذہب کو پبلک میں لانا ہے ، تو تھوڑا حساسیت ختم کرنا ہوگی، دوسرے کو مارجن دینا ہوگا۔ جس قدر حساس اس معاملے میں ہمارا معاشرہ ہے، اس میں تو پبلک پلیسز میں مذہب پر بات کرنا بھی خطرناک ہو تا جا رہا ہے، چہ جائیکہ اسے کسی سیاسی جلسے کی رونق بنایا جائے۔ ایک میچور معاشرہ جس نامناسب بات کی آسانی سے تاویل کرکے دوسرے کو مارجن اور زندہ رہنے کا حق دے سکتا ہے، ہمارا ہجومی معاشرہ اسی بات پر آدمی کو آسانی سے موت کے گھاٹ اتار کر “عاشقِ رسول ” کہلا سکتا اور جنت کا “مستحق” بن سکتا ہے۔
4۔اس معاشرے میں مذہبی اقدار و شخصیات کے کرادر و تقدس کے بیان و حدود سےمتعلق جہالت اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی شخصیا ت کے بارے میں مذہبی لٹریچر اور روایت کو جانے بغیر لوگ بہت سی چیزیوں کوخواہ مخواہ توہین کے زمرے میں لے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے سامنے خود معتبر مذہبی کتابوں میں مقدس شخصیات کے بارے میں بعض ریمارکس رکھ دیے جائیں تو یہ ان کو بھی توہین سمجھیں اور ان کے مصنفین پر توہینِ رسالت یا ارتداد کا فتویٰ لگائیں؛ مقدس مذہبی متون کی بہت سی باتیں اگر ان کے قائلین کا نام بتائے بغیر لوگوں کے سامنے رکھ دی جائیں تو وہ اسے بڑے مذہبی اماموں کی بجائے کافروں اور گستاخوں کے اقوال شمار کریں۔ تقدس مآبی کے اس جاہلانہ رویے نے اس معاشرے میں علم و تحقیق کے رویوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن جہالت کی یہ فصل بڑی دیر سے پالی پوسی جا رہی ہے، اس کے خاتمے میں کافی وقت لگے گا ۔اس وقت تک جہالت کو ڈیل کرنے کی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔حساس موضوعات پر گفت گو اور علمی سوالات فی الواقع تو نہ صرف عمومی علمی تناظر بلکہ مذہبی حوالے سے بھی ممنوع اور قابلِ گرفت نہیں ، لیکن پاکستان میں اس کے لیے ابھی ماحول دور دور تک نظر نہیں آتا، لہٰذا یہاں بات کرنے کے لیے حالات اور موقع محل پر نظر رکھنی ضروری ہے۔
5۔سیاست میں مذہب کا حوالہ بنیادی طور پر تو شجر ِ ممنوعہ نہیں ہو سکتا، بہ طورِ خاص پاکستان جیسے معاشرے میں، جس کی بنیاد میں بھی مذہبی حوالہ شامل ہو اور جس کا آئین بھی مذہب کا حوالہ دیتا ہو، لیکن ہمارے مذہبی و سماجی رویے اس کے لیے بالکل سازگار نہیں، یہاں اسے قابلِ قبول اور قابلِ ذکر بنانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ ہمارے عوام میں مذہب کوئی اخلاق و کرادر سنوارنے کی چیز نہیں ایک ہیجان بن کر رہ گیا ہے، جس کو بالعموم دولت، سیاست، سوشل سٹیٹس وغیرہ کے حصول کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوسائٹی کے رہنماؤں بالخصوص مذہبی طبقے کو فکر مند ہونا چاہیے کہ اس رویے سے کیسے نجات حاصل کی جائے!
6۔ ہمارے بعض علما، جو مذہب کو خود سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں، دوسروں پر الزام عائد کرتے رہتے ہیں کہ فلاں مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کر رہا ہے۔اس تناظر میں اس موضوع پر ایس او پیز بنانے اور اس دعوے کو صحیح ڈیفائن کرنے اور درست تناظر فراہم کرنے کی ضرورت ہےکہ مذہب کے سیاست کے لیے استعمال سے کیا مراد ہے؟ ہمارے نزدیک سیاست میں مذہب کے حوالے سے زیادہ خطرناک بات مذہب کا محض حوالہ دینا نہیں ، مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنا ہے، اس بحث کی زد سب سے زیادہ مذہبی سیاسی جماعتوں پر پڑتی ہے۔ کیا ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں اس پر غور کرنے کو تیار ہیں؟
7۔ زیر نظر واقعے کے تناظر میں ہم اپنی اس پختہ رائے کا اعادہ کرنا ضرور ی سمجھتے ہیں کہ ایک شخص کی بات کتنی بھی نامناسب ہوحتی ٰ کہ توہین کی آئینی تعریف پر بھی پوراکیوں نہ اترتی ہو، کسی شخص یا ہجوم کی طرف سے اپنے طور پر اسے توہین قرار دے کر سزا دینے کے رجحان کی ہر صورت اور سخت حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ الحمد للہ ہم اپنی بساط کے مطابق گذشتہ تقریبا ایک عشرے سے اس پر گزارشات پیش کر رہے ہیں (آسیہ بی بی اور ممتاز قادری وغیرہ کیسز میں ہم نے اس پر تفصیلی مضامین لکھے تھے)، جن کے مثبت اثرات بھی محسوس ہوتے ہیں ، لیکن اس بیانیے کو مسلسل اور زور دار طریقے سے علما، سکالرز اور عوام الناس کے ذہن نشین کرانے کی کوششیں تیز تر اور وسیع پیمانے پر ہونی چاہییں۔
8۔ ہجوم کے ہاتھوں توہین کے الزام میں لوگوں کا یوں قتل بغیر کسی “اگر” ،”مگر” ، “چونکہ”، “چنانچہ” کے قابلِ مذمت ہے۔ اس معاملے میں وہ لوگ نہایت مذموم فعل کے مرتکب ہیں جو اس پر تاویلیں دیتے ہیں کہ جناب نظام اور عدالتیں سزا نہیں دیتیں تو لوگ مجبوراً ایسا کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک کچھ بھی ہوجائے ، آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے، سزا کا اختیار کسی فرد یا ہجوم کو نہیں دیا جا سکتا، ریاست کو اگر ملک بچانا ہے تو اس ہجومی رویے کی بیخ کنی کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔اس ضمن میں نظام کی افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ کہہ کر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں کہ جی ہجوم نے یوں اور یوں کر دیا ، تو آپ اور آپ کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں؟ اگر آپ بے بس ہیں تو ملک کو بھی ہجوم کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے کہ اپنی مرضی کے مطابق آپ کی قسمت کا بھی فیصلہ کردے۔
9۔ کہا جاتا ہے کہ چلو قتل تو برا فعل ہے لیکن ملزم نے بھی تو برا کہا، تو آپ اس کی برائی پر تو زور نہیں دیتے ، قتل کی مذمت کیے جاتے ہیں! تو اس پر عرض ہے کہ اگر اس مولوی کو قتل نہ کیا گیا ہوتا تو ہم اس کے اس فعل کی پرزور مذمت کرتے کہ اپنے ممدوحوں کی تعریف میں اعتدال اختیار کریں اور ان کو خدا و رسول بنانے سے پرہیز کریں، لیکن اس کے قتل نے اس کے اس فعل کو ہلکا کر دیا۔ ایک ایسا قول جس کی تاویل کی جا سکتی ہے، اس پر کسی کو قتل کرنا اور وہ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں جن کے ذریعے قتل کی نہ ملکی قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی شریعت اجازت دیتی ہے، کسی بھی طرح جائز یا ہلکا فعل نہیں ہے کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ قتلِ نا حق ہے جو قرآن کی زبان میں پوری انسانیت کا قتل ہے، اس سے صرف نظر ایک طرف سوسائٹی کو انارکی کی طرف لے جانے میں مدد دینا ہے، تودوسری طرف دین و شریعت کی توہین ہے۔
10۔ ہمارے نزدیک جس طرح خود کش دھماکوں کے حوالے سے علما کے ایک وسیع حلقے کے اتفاق سے یہ فتوی جاری کیا گیا کہ یہ فعل شرعاً حرام ہے، اسی نوعیت کا فتویٰ کسی قانونی کارروائی کے بغیر انفرادی طور پر یا موب لنچنگ (Mob Lynching) اور ہجومی تشدد سے کسی کو ہلاک کرنے والوں کے خلاف بھی آنا چاہیے ۔ مثلاً اس نوعیت کا فتویٰ کہ اگر کوئی شخص یا ہجوم کسی کو بلا تحقیق یوں تشدد کرکے مارے اسے فساد فی الارض کا مرتکب قرار دے کر اس پر حد لاگو کی جائے یا اسے قصاص میں قتل کیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ اس تباہ کن رویے کی روک تھام کے لیے یہ بھی ضرور ی ہے کہ جو لوگ موب لنچنگ کو نظام کی خرابیوں سے جوڑ کر جواز بخشنے کی کوشش کرتے ہیں ،ان کے لیے بھی کوئی سزا مقرر کی جائے۔ اس وحشیانہ فعل کے خلاف سخت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ لا پروائی سیاست و معیشت وغیرہ کے اعتبار سے پہلے ہی پاتال کی طرف محوِ سفر اس معاشرے کو ایک دھکا اور دینے کے مترادف ہوگی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply