• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • القادر ٹرسٹ کیس میں عمران نیازی کی گرفتاری اور رہائی/غیور شاہ ترمذی

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران نیازی کی گرفتاری اور رہائی/غیور شاہ ترمذی

سنہ 2017ء میں برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی NCA نے پاکستان سے برطانیہ 190 ملین پاؤنڈز (تب کے 50 ارب روپے اور آج کے 60 ارب روپے تقریباً) مالیت کی منی لانڈرنگ کی ایک بڑی ٹرانزیکشن پکڑ لی، یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی جانب سے لندن بھجوائی گئی تھی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے 2 سال تک اس کیس میں تحقیقات کیں اور ملک ریاض وغیرہ کو 2 سال تک مواقع دئیے کہ وہ اس 190 ملین پاؤنڈز پر پاکستان میں ادا شدہ ٹیکس اور حکومت پاکستان کو ڈسکلوز کیا گیا سورس آف انکم پیش کرے جو ملک ریاض نہ کر سکا- بالآخر برطانوی عدالت نے سنہ 2019ء میں فیصلہ دے دیا کہ یہ 190 ملین پاؤنڈز حکومت پاکستان کو دئیے جائیں اور یہ ضبط شدہ رقم ٹرانسفر کر دی-

پاکستان رقم پہنچتے ہی عمران خان نے بطور وزیراعظم کابینہ کا اجلاس بلایا جس میں کابینہ نے فیصلہ کیا کہ یہ رقم حکومت کے بجائے ملک ریاض کو ریلیز کردئیے جائیں- ملک ریاض پر اس سے پہلے جسٹس ثاقب نثار کی عدالت نے زمینوں کی خریداری میں مبینہ بےضابطگیوں کی سینکڑوں شکایتوں کو داخل دفتر (یعنی ہمیشہ کے لئے ختم کرنے) کرنے کے عوض اس پر 460 ارب روپے جرمانہ عائد کیا تھا جسے ملک ریاض نے اقساط میں دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ (سنا ہے کہ اس رعایت و مہربانی کے عوض ثاقب نثار کو بھی انگلینڈ میں لال و لال کر دیا گیا تھا)۔
عمران خاں، شہزاد اکبر وغیرہ نے ملک ریاض کو پیشکش کی کہ یہ 50 ارب روپے (موجودہ 60 ارب روپے) سرکاری خزانہ میں جمع کرنے کی بجائے اسی جرمانہ کی قسط میں ایڈجسٹ کر لئے جائیں گے بشرطیکہ بدلہ میں انہیں بھی لال و لال کر دیا جائے گا۔ اس فیصلہ پر پہنچنے کے لئے درکار 2 ہفتوں کے فوراً بعد ہنگامی بنیادوں پر ایک القادر ٹرسٹ قائم کیا گیا جس کے ٹرسٹیوں میں فرحت شہزادی   ، بشریٰ  بی بی وغیرہ شامل تھے اور بحریہ ٹاؤن نے گوجر خاں کے نزدیک 5 ارب روپے مالیتی زمین فرح ت شہزادی اور بشریٰ بی بی  کے ذاتی ناموں پر (ٹرسٹ کے نام پر نہیں) فوراً منتقل کر دی (کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ٹرسٹ کے نام پر لیکن یہ درست نہیں ہے)۔

اس حوالہ سے درج ذیل باتیں غور طلب ہیں کہ:-

اوّل:۔ عمران خان حکومت پاکستان کے ملکیتی 190 ملین پاؤنڈز (تب کے 50 ارب روپے اور آج کے 60 ارب روپے تقریباً) ملک ریاض کو کسی صورت دینے کا مجاز نہ تھا-

دوئم:- بشریٰ  بی بی اور  فرحت  اسلام آباد میں 5 ارب روپے مالیتی زمین اپنے نام کروانے کے عوض کسی ادائیگی کا ثبوت نہ دے سکیں اور موقف اختیار کیا کہ یہ ٹرسٹ کی جگہ ہے جو  تحفتاً ملی ہے مگر زمین ٹرسٹ کے نام نہیں ٹرانسفر کروائی بلکہ اپنے ذاتی ناموں پر کروائی۔

سوئم:- تحقیقاتی ادارہ NAB نے عمران خان، فرحت، بشریٰ  بی بی وغیرہ کو 5 مرتبہ شامل تفتیش ہونے کے لئے طلب کیا مگر یہ پیش نہ ہوئے اور بالآخر عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار ہو گیا۔

عمران نیازی کی گرفتاری اور اس سے پہلے بھی یوتھی سوشل میڈیا پر بھیڑچال کا رویہ سامنے آتا رہا ہے۔ کوئی بھی شخص ایک احمقانہ تحریر لکھتا ہے اور یوتھی اسے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں شیئر اور کاپی کرتے جاتے ہیں- شیئر اور کاپی کرنے والا اس پر اپنے دماغ کا استعمال کفر سمجھتا ہے اور اگر خدا نخواستہ وہ تحریر کسی معروف نام یعنی بابا کوڈا جیسے عمران نیازی سوشل میڈیا انفلیوئنسرز کی طرف سے پوسٹ کی گئی ہو تو کوئی اسے وائرل ہونے سے روک ہی نہیں سکتا۔ ابھی گزشتہ دنوں سے سے ایک تحریر وائرل ہوتی رہی تھی یا ایک مؤقف کو بار بار لکھا جا رہا تھا کہ القادر ٹرسٹ فراڈ کیس میں ملک ریاض کو موجودہ حکومت کیوں نہیں پکڑ رہی؟۔

اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ ملک ریاض قابل نفرت ہو گا، کرپٹ ہو گا، بدعنوان ہوگا، ملک کو لوٹنے والا ہو گا اور اس میں ایک ہزار عیب ہوں گے لیکن جب آپ نے اپنی بات کرنی ہے تو اس کے پیچھے کم از کم کوئی اخلاقی، قانونی جواز اور دلیل ضرور ہونی چاہئے۔ یاد رہے کہ الباکستان میں ہمیشہ سے اینٹی کرپشن یا نیب کے معاملات در اصل حکومتی طاقت اور اختیار کو استعمال کر کے لوٹ مار کرپشن کرنے والے لوگوں کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی اور آج بھی ملک ریاض کوئی سرکاری عہدیدار نہیں ہے اور اس کے پاس کسی کو بلیک میل کرنے کی کوئی طاقت یا اختیار موجود نہیں ہے اور نہ تھا-

ملک ریاض کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ تب بھی عمران خان اور شہزاد اکبر نے اسے بلیک میل کر کے خوف زدہ کیا، دھمکی دی اور کم از کم 5 ارب روپے کی کرپشن کی- یقینی طور پر جب آپ رشوت دیتے ہیں تو آپ بھی مفاد لے رہے ہوتے ہیں لیکن اینٹی کرپشن کے قوانین صرف اور صرف رشوت اور حکومتی سرکاری اختیار کو استعمال کرنے والے کے خلاف بنائے جاتے ہیں نہ کہ رشوت دے کر مفاد لینے والے پر۔ پاکستان کی عدالتی و قانونی تاریخ میں کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کبھی کسی نے رشوت دے کر مفاد حاصل کرنے والے کے خلاف کوئی مقدمہ چلایا  ہو یا اسے سزا دی گئی ہو (آپ جانتے ہیں تو اس کیس کا حوالہ دے دیجئے)-

یہ بھی بتا دیں کہ نیب اور اینٹی کرپشن کے محکموں نے سرکاری اختیار کے استعمال سے ناجائز پیسہ بنانے والے کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی ہے تو عمران خان کی گرفتاری سے قبل ملک ریاض کی گرفتاری اس مقدمہ میں آخر کیوں کر ضروری ہے؟۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کیونکہ عمران خان، بشریٰ بیگم اور شہزاد اکبر کے جیل جانے کا امکان پیدا ہوا ہے لہٰذا یوتھی سوشل میڈیا انفلیوئنسرز پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ریاست کو ملک ریاض جیسی کسی پھلجھڑی کے پیچھے لگایا جائے تاکہ مقدمہ کی نوعیت ہی تبدیل ہو کر رہ جائے۔ البتہ اس کیس کی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ موجودہ مقدمہ میں ملک ریاض سرکاری گواہ تو بن سکتا ہے لیکن اسے مجرم نہیں بنایا جا سکتا اور اس کیس میں مجرم صرف عمران خان اور اس کی کابینہ کے ارکان اور مشیر امور داخلہ ہے یا فائدہ اٹھانے والی بشریٰ بیگم اور فرحت شہزادی عرف فرح گوگی ہیں-

عمران نیازی کی گرفتاری کے بعد 48 گھنٹوں تک مسلسل حالات خراب ہونے کے نتیجہ میں جونہی فوج کو بلایا گیا اور بلوائیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو یہ یقینی نظر آ رہا تھا کہ شرپسندی کچل دی جائے گی۔ عین اسی وقت عمران نیازی کے سہولت کار میدان میں آئے اور انہوں نے بازی عمران نیازی کے حق میں پلٹ دی۔ آج کے فیصلے سے یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ اب فیصلے عدالتوں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر اور پُرتشدد طریقے سے ہوا کریں گے- جس کے پاس بھی سڑکوں پر بلوائیوں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت ہو گی وہ بندے میدان میں لائے گا، کچھ مریں گے کچھ ماریں گے اور گرفتاری اڑن چھو ہو جایا کرے گی۔طاقت کے اس متکبرانہ استعمال کے نتیجہ میں جیت کسی کی بھی ہو لیکن شکست صرف اور صرف ملک، قانون، انصاف اور عامۃ الناس کی ہی ہوا کرے گی-

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:- یہ تحریر رانا شرافت علی صاحب، ناصر بٹ صاحب اور دیگر احباب کی پوسٹس سے اخذ کر کے ترتیب دی گئی ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply