سیرت نگار مستشرقین اور مدعیان نبوت/رشید یوسفزئی

ابھی صبح کو دورانِ  واک خیالات کی آوارگی جاری تھی، مولانا کوثر نیازی بارے سوچ رہا تھا اور ان سے ذہن مشہوراسلام پسند مستشرق پروفیسرمنٹگمرے واٹ Montgomery Watt  کی طرف چلا گیا۔
کوثر نیازی نے اپنی کتاب “ جنہیں میں نے دیکھا” میں لکھا ہے کہ پروفیسر واٹ بہترین انداز سے اسلام اور پیغمبر اسلام کا  دفاع کر رہے ہیں اور ہم بھٹو دور میں ان کو حکومتی اخراجات پر پاکستانی کانفرنسز اور سیمینارز میں مدعو کرتے رہیں۔

پروفیسر صاب نے دیگر کتابوں سمیت Muhammad at Mecca اور Muhammad at Medina جیسے علمی شاہکار لکھے ہیں۔اور واقعی پیغمبر اسلام کا    دفاع کیا ہے۔ نقل کفر کفر نباشد۔۔”سورۃ مدثر “ میں یایھا المدثر لفظ کو کھینچ تان کر لکھا ہے کہ اس میں معاشرے میں تحقیر اور تذلیل کے  معنی پوشیدہ ہیں ، اور اس کا مطلب ہے کہ پیغمبر ِ اسلام ( نعوذ باللہ) شریف خاندان سے نہیں تھے۔واٹ کے درست الفاظ لکھنے سے میں قاصر ہوں۔

پیغمبرِ اسلام کے ازواج کی تعداد پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس آفیشل مستشرق نے محمد اٹ مدینہ میں کافی تفصیل سے لکھا ہے اور پچاس کے قریب عورتوں کے نام درج گئے ہیں ،جو بقول ان کے پیغمبر اسلام کے مدنی حیات میں ان سے ازدواجی یا  کسی تعلق میں رہے( غیر ازدواجی تعلق کے ان کے استعمال کردہ دوسری اصطلاحات کے  اُردو مترد ف مجھے نہیں آتے)۔ تقریباً یہی موقف آج تیونس کی مسلمان سکالر  فاطمہ مرنیسی کی بھی ہے جنہوں  نے اپنے  مختصر شاہکار Beyond Veil میں پیغمبر اسلام ﷺ  سے نکاح یا تقریباً نکاح کے طور پر بیالیس عورتوں کے نام سول سٹیٹس civil status اور حسب و نسب اس کتاب میں درج کئے ہیں۔

کسی بھی مدعی نبوت، وحی اور آسمانی کتاب کی کوئی خارجی Objective تصدیق ممکن نہیں۔ تورات زبور و انجیل سمیت کسی بھی آسمانی کتاب کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے  دستخط موجود نہیں، کسی بھی الوہی نوشتے اور مدعی نبوت کی سائنسی و عقلی لیبارٹری سے آزمائش ممکن نہیں۔ دعویٰ نبوت کی تصدیق صرف زمان و مکان کے  تعاون سے تشکیل پاتی ہے۔ ایک سازگار سماجی ماحول اور تاریخ کے سازگار موڑ پر کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا، لوگ ساتھ جمع ہوتے گئے۔تعداد زیادہ ہوئی، منظم ہوئے، اکثریت کی جارحیت فطری امر ہے، بات پھیلتی گئی اور پیروکار بڑھتے گئے تانکہ طاقت و حکومت ہاتھ  آگئے اور منظم حکومت کی استبدادی طاقت ملتی ہی مذہب کو حق ہونے کی دلیل ملتی ہے۔ کسری و کیکاؤس نہ ہوتے تو زرتشت کے اتشبد آج آتشکدوں کی  آگ سے اپنے ہی ہاتھ گرم کرتے رہتے۔ شہنشاہ جسٹنین اور کانسٹنٹائن نہ ہوتے تو عیسائیت فلسطین و ترکی و روم کے گلی کوچوں میں بھیک مانگنے والے چند راہبوں سے آگے نہ جاتی۔ نیٹشے نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک داعیہ ہے جس کو وہ Will to Power کا نام دیتے ہیں۔ بقول نیٹشے سائنس ، علوم، تصوف، نبوت ، سیاست ، خیراتی ادارے بنانا ۔۔ حتی کہ ان کا  چہیتا  فلسفہ ۔۔ تمام انسانی سرگرمیاں فقط طاقت کے  حصول کے بہانے ہوتے ہیں۔ مذہب کو برحق ہونے کیلئے طاقت و حکومت کی دلیل چاہیے  اور پھر مذہب کی معیت حکومت کو تقدس و جواز عطا کرتی ہے۔ بس ایک vicious circle یا Freinds in need سمجھیں ۔آپ منطق کی استدلال میں مصادرہ علی المطلوب Argumentum ad Peritio Principii ۰ کی شکل سمجھیں۔

مسلمہ ابن حبیب درعیہ، یمامہ (موجودہ ریاض) کے بنو حنیف قبیلے کےتوحید کے قائل ایک ادبی و علمی شخصیت تھے۔ مسلمانوں نے نفرت و علمی بد دیانتی سے مسلمہ کو اسم تصغیر Diminutive میں تبدیل کرکے “ مسیلمہ” بنایا اور ساتھ “ کذاب” یعنی جھوٹے نبی کا لاحقہ لگایا۔ موجودہ سعودی خاندان اسی مسیلمہ کی اولاد اور اسی کے علاقے درعیہ سے اٹھے ہیں۔

پروفیسر واٹ نے اسی Muhammad at Medina میں لکھا ہے کہ مدعی نبوت مسلمہ ابن حبیب انتہائی ادبی اور عالم و شریف شخصیت تھے اور بعد کے مسلمان راویوں اور مورخوں نے انتہائی علمی بد دیانتی کرکے اس کے بارے میں جھوٹ و الزامات بھرا  پروپیگنڈہ کیاہے۔ پروفیسر واٹ نے مسلمہ کے ادبی نثرپاروں اور مسجع عبارات کے  نمونے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر جنگ یمامہ میں مسلمہ اور اسکے پیروکاروں کو شکست نہ ہوتی تو مسلمان آج مسلمہ کا کلمہ پڑھتے ، اس پر درود بھیجتے اور انہیں قرآن مسلمہ کی  آیات سے نماز پڑھتے، لیکن جنگ یمامہ میں تاریخ و تلوار نے لوائے حقانیت ان کی بجائے اہل حجاز ہی کو عطا کیا۔ جنگ یمامہ بالکل اسی جگہ تھی جہاں آج ریاض میں سعودی شاہی محلات و دفاتر ہیں۔

پتہ نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی نے عوامی ٹیکسز کے  اخراجات سے عوامی ایمان مضبوط کرنے کی خاطر پروفیسر منٹگمرے واٹ کو وی آئی پی سرکاری دورے کرانے سے قبل واٹ کے ان دو کتابوں کا ایک صفحہ پڑھنے کی زحمت کی ہوگی یا نہیں۔

یہاں ذہن مسیلمہ کذاب کیساتھ اٹک گیا۔ ملازادہ و مسلمان ہونے کے ناطے میں بھی ان کو مسیلمہ اور کذاب ہی لکھتا ہوں ، اگر چہ یہ بالکل افترا و الزام ہے مگر تفسیر طبری یا قرطبی میں کہیں پڑھا تھاکہ ایک دفعہ مسلمہ کذاب کا کوئی صحابی مدینہ آکر پیغمبر اسلام کی محفل مبارک میں شریک ہونے کے بعد واپس یمامہ لوٹ کر مسیلمہ کی  محفل میں  حاضر ہوا، مسیلمہ نے پوچھا “سناؤ، محمد(ﷺ) پر کیا تازہ وحی آئی تھی؟” صحابئ مسلیمہ نے جواب دیا “ جب وہاں تھا سنا کہ اس پر ایک سورت ، سورۃ بروج نازل ہوئی  جس کی پہلی آیت تھی “ والسماء ذات البروج” اور آسمان جو برجوں کا مالک ہے”! مسلمہ نے فوراً  کہا” اب اس سے تو بہتر سورت مجھ پر نازل ہوئی جو قابل فہم اور انسانی حقیقت سے متصل ہے “۔ صحابئ مسلمہ نے پوچھا “ حضور ، آپ پر کیا نزول ہوا ہے؟”
مسیلمہ نے جواب دیا:” و النساء ذات الفروج، اور عورتیں جو دونوں ٹانگوں کے درمیان فرجوں(Vaginas) کی  مالک ہیں!”
صحابی نے سر دھنستے ہوئے کہا “ سبحان اللہ کیا شان ہے آپ کی !”

یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ اگر پروفیسر واٹ کے  مطابق واقعی مسیلمہ و اصحاب مسیلمہ کو جنگ یمامہ میں فتح ملتی تو پرویز و غامدی آج اس سورۃ فروج اور “ والنساء ذات الفروج” کی کیاکیا عالی شان و نکتہ آفرینی والے تفسیر کرتے ۔ پرویز صاحب اس سے سوشلزم و نظام ربوبیت اور Democracy کی  تشریح و تفسیر کشید کرتے تو غامدی صاحب اسی آیت فرج ( زنانہ شرمگاہ) سے Gynocrcy کے فضائل کی  دلیل لاتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں آکر فوراً  خیال آیا شیطان تیرا منہ کالا، کیا کیا وسوسے ڈال کر انسان کو گمراہ کرتا ہے۔اعوذ باللہ من الشیطان العین المعون الرجیم۔ ابھی مسلسل استغفار پڑھ رہاہوں۔استاد محترم مولنا بحرالعلوم فرماتے تھے کہ مارننگ واک شیطان کی سنت ہے۔ مومن نماز فجر کے بعد اشراق کے نوافل تک مسجد میں بیٹھا رہتا ہے۔ آج اس قول کی صداقت کا یقین ہوا، بعدالیوم لعنت بر مارننگ واک، بلکہ لعنت بر خیالات و افکار۔۔۔ کل نماز فجر کے بعد نماز اشراق و تسبیحات! و باللہ التوفیق وعلیہ التکلان!
رشید بے رشد

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply